نیشنل میڈیا بمقابلہ سوشل
نیشنل میڈیا اور سوشل میڈیا کا ہماری سیاست، سماجی کردار و افکار اور علاقائی صورتِحال کو سمجھنے، سمجھانے اور اس حوالے سے مکمل آگاہی فراہم کرنے میں جو اہم رول بنتا ہے، اُس سے ہم سب آگاہ ہیں۔ بحث اب یہ ہے کہ یہ دونوں میڈیم اپنی اپنی جگہ ہیں تو بہت اہم، لیکن پھر بھی ان میں سے کس کے رول کو زیادہ پذیرائی مل رہی ہے۔ یہی وہ سوال ہے جو ہم آج اس میں اٹھا رہے ہیں تاکہ اس منطقی نتیجے تک پہنچا جا سکے کہ اربوں کی انوسٹمنٹ کے بعد تشکیل پانے والا نیشنل میڈیا جس میں پرنٹ اور الیکٹرانک دونوں ہی شامل ہیں۔ سوشل میڈیا کے مقابلے میں اتنا غیر فعال کیوں ہو گیا ہے۔ وجوہات تلاش کی جائیں تو سمجھنے والی بہت سی باتیں سامنے آتی ہیں۔ انہیں سمجھنا بھی چاہیے اور ان پر غور بھی کرنا چاہیے کہ جس نیشنل میڈیا سے ہزاروں لوگ بحیثیت ورکنگ جرنلسٹ وابستہ ہیں، سوشل میڈیا کے آنے پر اپنی مقبولیت کیوں کھو رہے ہیں۔نیشنل کاز پر بھی کبھی کبھی ہمارا نیشنل میڈیا یکجا اور ہم آواز نظر نہیں آتا۔ بسا اوقات محسوس ہوتا ہے کہ ہم نیشنل کاز پر بھی ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں جبکہ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کا میڈیا، چاہے وہ پرنٹ ہو یا الیکٹرانک، نیشنل کاز پر ہم آواز ہوتا ہے۔ کوئی بھی ٹاک شو ہو، کوئی بھی چینل اس شو کو پیش کر رہا ہو، اُس میں شرکت کرنیوالے کبھی بھی اپنے نیشنل انٹرسٹ سے باہر نہیں جاتے۔ ملکی سلامتی اور دوسرے قومی ایشوز پر انہوں نے اپنی گفتگو کیلئے جو حدود متعین کی ہوتی ہیں، نا تو وہ اُس سے باہر نکلتے ہیں اور نہ ہی متعین کردہ دائرہ کار کو توڑتے ہیں لیکن ہمارے ہاں کچھ اور ہی روش ہے۔ سب کے اپنے راگ اور راگنیاں ہیں۔ اس وقت پاکستان میں 80سے زیادہ نجی چینل آن ایئر ہیں جن کا سلسلہ مشرف دور میں شروع ہوا۔ ایسے لوگوں کو نجی ٹی وی چینلز کے لائسنس مل گئے جن کا صحافت سے دُور تک کا بھی کوئی واسطہ نہیں تھا۔ الیکٹرانک میڈیا ہی نہیں، پرنٹ میڈیا میں بھی ایک کھچڑی پکی، جو، اب تک پک رہی ہے۔ رنگ رنگ کے لوگ اور بھانت بھانت کی بولیاں اس میں دیکھنے اور سننے کو ملتی ہیں۔ پرنٹ میڈیا میں بھی جو حال دیکھنے کو ملتا ہے وہ افسوس ناک ہے۔ ایسے لوگوں کو اخبارات و جرائد کے ڈیکلریشن جاری ہو گئے ہیں جو کسی طرح بھی انکی اشاعت کے لائق نہیں۔ کئی نااہل بھی اس معزز پیشے سے وابستہ نظر آتے ہیں۔ اُنکے اپنے مفادات ہیں وہ میڈیا کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ جب محمد خاں جونیجو وزیراعظم پاکستان تھے، تب لوگوں کو اخبارات و جرائد کے ڈیکلریشن ملنا شروع ہوئے۔ آسانی اتنی تھی کہ صرف دس روپے کے اشٹام پیپر اور شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی پر کسی بھی اخبار یا ویکلی اور ماہنامہ جریدے کا ڈیکلریشن حاصل کیا جا سکتا تھا۔ تعلیم اور صحافتی تجربے کی کوئی پابندی نہیں تھی۔ اس سہولت کا اُن لوگوں نے بھی فائدہ اٹھایا جو صحافت جیسے معزز اور باوقار پیشے سے وابستہ ہونے کے کسی طرح بھی لائق نہیں تھے۔ جب نجی چینلز کے لائسنس ملنا شروع ہوئے۔ تب بھی کسی کا صحافتی تجربہ اور کریکٹر نہیں دیکھا گیا۔’’پیسہ شو کرائو اور لائسنس لے لو‘‘ کی پالیسی پرعمل کیا گیا۔ ایسے لوگ بھی لائسنس ہولڈر بن گئے جو کسی طرح بھی اچھے کردار کے حامل نہیں تھے اس لیے صحافت کا وہ کردار نہیں رہا جو ہمارے ملک میں اُس کا ہونا چاہیے تھا۔کسی بھی ملک کا میڈیا اپنے لوگوں کے سماجی کردار اور سیاسی افکار کی تعمیر نو میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور کر سکتا ہے۔ مگر افسوس کہ ہمارے ہاں کوئی ایسا انسٹی ٹیوشن نہیں کہ جہاں اس نوعیت کی تربیت ہو سکے کہ میڈیا سے وابستہ لوگ اپنے صحافتی کردار اور ذمہ داریوں کو بخوبی سمجھ سکیں، ناصرف سمجھ سکیں بلکہ انہیں بہتر اوراحسن طریقے سے نبھا بھی سکیں۔پاکستان اور بھارت کے میڈیا کا اگر تقابلی جائزہ لیا جائے اور بغور مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آئیگی کہ ابھی ہمیں اپنے میڈیا کے حوالے سے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ تبھی ہم کوئی فعال کردار ادا کر سکتے ہیں۔ معاشرے سے جڑے لوگوں میں کسی بھی معاملے میں ذہنی ہم آہنگی پیدا کرنا اور اُسکے تمام شعبوں میں بہتری لانے کیلئے کام کرنا میڈیا کی اہم ذمہ داری ہے۔ قومی ایشوز پر بھی، جو اہم ہی نہیں، بڑے حساس بھی ہوتے ہیں۔ ہمیں بڑے محتاط انداز میں پوری ریسرچ کے بعد بڑی سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہیے تاکہ قومی ایشوز پر پوری قوم اور قوم کے ہر طبقے میںہم آہنگی پیدا ہو سکے۔
یہی وہ صورت ہے، جسے لیکر ہم ایک قوم بن سکتے ہیں۔ اس قومی جذبے کیلئے میڈیا ہی وہ میڈیم ہے جو اپنا مثبت اور مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر وہ سب کچھ دکھا دیا جاتا ہے جو نیشنل میڈیا نہیں دکھا پاتا اس لیے سوشل میڈیا کی اہمیت عوام و الناس میں بہت بڑھ گئی ہے اور ہر سطح پر اسے پذیرائی مل رہی ہے۔ عام شخص بھی اب سوشل میڈیا کا رپورٹر بن چکا ہے، اپنے اردگر د ہونیوالے بہت سے غیر معمولی واقعات کو سوشل میڈیا کیلئے رپورٹ کرتا ہے اس لیے نیشنل میڈیا میں بعض انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے ، اس سے وابستہ سینئر لوگوں کا فرض ہے کہ وہ ایسی تبدیلیوں کا آغاز کریں جس سے نیشنل میڈیا کی اہمیت بڑھ سکے۔ اگر پاکستانی سوشل میڈیا درست سمت میں چل پڑے تو اسلامی تعلیمات بھی عام ہونگی ، ہمارے ملک پاکستان، افواجِ پاکستان اور پاکستانی عوام کے حق میں بہتر ہو گا، ان شاء اللہ۔