پچھلے کالم میں راقم نے ملک کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے قیام پاکستان سے لیکر اج تک کے حالات کا مختصراً ایک جائزہ پیش کیا جسکا مقصد صرف یہ بتانا تھا کہ شروع دن سے ہی ہماری خارجہ پالیسی کے معماروں سے وہ کیا بنیادی غلطیاں سرزد ہوئیں جنکا خمیازہ ہم آج بھی بھگت رہے ہیں اور جسکی وجہ سے ہماری تیسری نسل آج بھی دہشتگردی کی جنگ میں بطور ایندھن کام آ رہی ہے۔ بدقسمتی سے یہ وہ حقیقت ہے جسکا ہمارے کسی بھی ارباب اختیار کی طرف سے کبھی بھی کسی قسم کا اعتراف سامنے نہیں آیا لیکن اس دفعہ مورخہ 6 ستمبر کو یوم دفاع کے موقع پر رات گئے یوم شہدا کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جب موجودہ وزیراعظم نے یہ کہا کہ بطور سیاسی لیڈر وہ پہلے بھی یہ آواز اْٹھاتے رہے ہیں کہ ہمیں غیروں کی جنگ نہیں لڑنی چاہئے اور آج بطور وزیراعظم وہ قوم کو یہ یقین دلانا چاہتا ہے کہ اسکے وزیراعظم ہوتے ہوئے اب یہ ملک کسی اور غیر کی جنگ نہیں لڑے گا اور شاید اب خارجہ پالیسی کے معماروں کو مستقبل کے حوالے سے کوئی واضع پیغام ملنے جا رہا ہے حالانکہ اسی عرصہ کے دوران عمران خان کی اپنی وزارت عظمی کے حلف سے پہلے والی پالیسی تقریر میں بھارت کے ساتھ ایک قدم کے مقابلے میں دو قدم اْٹھانے کی قبل از وقت بات اور پھر امریکن وزیر خارجہ پومپیو کے پہلی ٹیلیفونک گفتگو کے حوالے سے سامنے انے والے تضادات اور فرانسسی صدر کے ٹیلیفون کے حوالے سے واقعات اپنی جگہ کئی سوال اْٹھائے پہلے سے موجود تھے جو اس خاکسار ہی نہیں بلکہ کئی اہل فکر کیلئے اچھی خاصی تشویش کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ جناب عمران نیازی سعودی عرب کے دورے پر گئے اور وہاں بے موقع و بے محل ایک مخصوص حوالے سے اْنھوں نے دنیا والوں کو ایک بڑا ہی مخصوص پیغام دے ڈالا حالانکہ اس سباق میں یہ تاریخی امر پہلے ہی موجود ہے کہ 10 اپریل 2015ء کو پاکستان کی پارلیمان اس سلسلے میں ایک موثر قرارداد کے ذریعے ایک بڑی واضع اور جامعہ حکمت عملی کا اعلان کر چکی ہے۔ لہٰذا عمران کے اس بیان پر اب آگر اہلِ فکر اسے غیر ضروری قرار دیتے ہوئے یہ سوال اْٹھاتے نظر آئیں کہ اس ملک میں افراد کی اہمیت زیادہ ہے یا پارلیمان کی تو پھر عمران اور اسکے رفقاء کو اسکا جواب تو یقیناً دینا پڑیگا۔
قرآن پاک کا مطالعہ کریں تو جہاں جہاں اللہ تعالی نے ہمیں سیدھا راستہ دکھایا ہے وہیں وہیں ماضی کے واقعات کا ذکر کرکے سبق حاصل کرنے کی تلقین بھی فرمائی ہے۔ تاریخ کیا ہوتی ہے۔ دراصل یہ ماضی کے واقعات بیان کرتی ہے۔ قرآن کی پیروی کرتے ہوئے ہمیں بھی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہئے اور ماضی سے سبق حاصل کرنا چاہیئے۔ یہ تاریخ کے ضعیف صحیفے نہیں بلکہ ماضی قریب کی بات ہے۔ ستر کی دہائی کا زمانہ تھا پورا عالم اسلام 1974ء میں اسلامی کانفرنس کے نام پر ایک پرچم تلے اکھٹا ہو گیا تھا۔ سعودی فرمانرواہ شاہ فیصل مرحوم سے لیکر شاہ ایران تک تمام سربراہان عالمی مسائل پر یک زبان ایک ہی سوچ اور ایک ہی رستے پر چل نکلے تھے۔ دشمنانِ کے ایوانوں میں زلزلے کی کفیت پیدا ہو گی مگر اْنھوں نے ہوش سے اور پلاننگ سے کام لیا اور ہمارے کمزوریوں سے فائدہ اْٹھایا۔ پہلے شاہ فیصل کو ختم کروایا پھر پاکستانیوں کے جذبات کو بھڑکایا ہم جوش میں ہوش کْھو بیٹھے اسلامی کانفرنس اور اسلامک بم کے موجد کو تختہ دار پر لے گئے۔ شاہ ایران اسی گیم میں اپنے انجام کو پہنچا۔ ایران عراق کی دس سالہ جنگ لاکھوں لوگوں کو اپنا رزق بنا گئی۔ عراقی صدر صدام حسین امریکی چنگل میں پھنسا اور کویت پر حملہ اور ہو کر سعودی عرب میں امریک افواج کو داخل ہونے کا جواز دے بیٹھا اور بالآخر اپنا اقتدار اور اپنا ملک بھی برباد کر بیٹھا۔ عرب سپرنگ کے نام پر اْٹھنے والی تحریک کے نتیجے میں لیبیا، مصر اور شام کا انجام بھی اب کوئی راز نہیں۔ سوچنے کی بات اب یہ ہے کہ کیا یہ یمن کا تنازعہ عراق اور کویت کی تاریخ دھرانے تو نہیں جا رہا۔ کیا سعودی اور قطر کو دشمنانِ اس مقام پر تو نہیں لا رہے جہاں کبھی عراق اور ایران آمنے سامنے ا گئے تھے۔ اس تناظر میں ٹرمپ کا سعودی حکومت کے بارے بیان اب خاصی اہمیت اختیار کرتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ ہے وہ لمحہ فکریہ جو اس وقت پاکستان کی وہ عملی قیادت کو جسکے ہاتھ میں تمام معاملات ہیں اپنے سامنے رکھنا چاہیئے کہ کہیں اب ہم غیر ارادی اور غیر دانستہ بلواسطہ یا بلاواسطہ کسی ایسی جنگ کا حصہ بننے تو نہیں جا رہے جو ہمیں اپنے ملک میں ہی فرقہ ورانہ جنگ میں نہ دھکیل دے۔ بطور طالبعلم راقم کی فکری سوچیں ابھی بڑی محدود ہیں لیکن پچھلے دو ماہ سے سی پیک کے حوالے سے جو خبریں ہمارے موکلات ہمیں پہنچا رہے ہیں انکے بارے تحقیق پر مبنی نتائج کی وجہ سے راقم ہی نہیں بڑے بڑے تھنک ٹینک بھی متفکر نظر آتے ہیں کہ کہیں ہم وہ غلطی دہرانے تو نہیں جا رہے جو ہم نے پچاس کی دہائی میں سویت یونین کا دورہ منسوخ کر کے کی تھی حالانکہ چیف آف آرمی سٹاف کا حالیہ دورہ چین اس سلسلے میں کافی سْدھار لاتا اور امید افزاء دکھائی دے رہا ہے لیکن دھیان رہے میڈیا میں مخصوص ایک لابی اور کچھ ناعاقبت اندیش جنہیں راقم سیاسی اکھاڑے کے بجلی پہلوانوں سے تشبہیہ دیتا ہے غلط فہیمیاں پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024