چار اکتوبر کو شامی صدر بشار الاسد نے ایرانی ٹیلی ویژن پر انٹرویو دیتے ہوئے جب یہ اعلان کیا کہ ’’اگر ہم ناکام ہوئے تو اسکا انجام پورے مشرق وسطی کی بربادی ہوگا‘‘تو یہ گویا مستقبل کے متعلق انکے ارادوں کا اظہار تھا یہاں ’’ہم ‘‘سے مراد ایران ، شام و روس کا ایک اتحاد ہے جو کے اسوقت شام پر حملہ آور ہے ، صدر بشار الاسد کے زیر تحت لڑنے والی فوج کا یہ نعرہ رہا ہے کہ ’’اگر بشار کو ہٹانے کو بات کرو گئے تو ہم پورے شام کو تباہ کردی گئیں ‘‘، اور انہوں نے واقعی ہی تباہ کردیا لیکن اس بار شامی صدر پوری خطے کو تباہی کی دھمکی دے رہے ہیں ، یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ یہ دھمکی درحقیقت کس کو دی جارہی ہے ، شامی صدر نے یہ بیان اسوقت جاری کیا جب کے روس کی فوجیں داعش کو مٹانے کے نعرے تلے شام کی دیگر جماعتوں پر حملہ آور ہوچکی ہیں جن میں مغربی و عرب نواز گروہ بھی شامل ہیں اور اس امر کا اقرار امریکہ و دیگر ممالک بھی کرچکے ہیں کہ روس کے نوے فیصد حملے داعش کو نشانہ نہیں بنارہے بلکہ پوری شامی مزاحمت کو نشانہ بنارہے ہیں جس سے خطے کے اندر ایک آتش فشاں کی سی صورتحال پیدا ہوگئی ہے لیکن شامی صدر اور ایران اس ساری صورتحال سے بے نیاز جو چاہے لاکھوں معصوم باشندوں کی جان لے لے اس بات پر مصر ہیں کہ شام میں بشار کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے ایرانی پروپیگنڈہ ہمیشہ اس بات کا دعوی کرتا آیا ہے کہ ہم شام میں تکفیری عناصر سے لڑرہے ہیں لیکن روس و ایران نے حالیہ حملوں میں جن گروہوں کو نشانہ بنایا ہے وہ تکفیری نہیں ہیں بلکہ ان میں سے کئی ایک خود شدت پسندوں کی تکفیر کا شکار ہیں جس سے اس دعوی کی قلعی کھل جاتی ہے ایران و روس تمام جمہوری اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر شام میں جس اقتدار کی حمایت کر رہے ہیں وہ شام کی 10 فیصد نصیری اقلیت پر مبنی ہے شام کے 80 فیصد عوام کا تعلق اہل سنت سے ہے جن میں داعش جیسے تکفیری عناصر سے لیکر معتدل مزاج اسلامسٹ شامل ہیں ایران و شام کا دعوی ہے کہ وہ شام میں غیر ملکی جارحیت کیخلاف لڑرہے ہیں جو کے سعودی عرب ، قطر ، متحدہ عرب امارات ، اور ترکی جیسے ممالک کی طرف سے ان پر مسلط کی گئی ہے لیکن ایران سب سے پہلا ملک ہے جس نے باضابطہ طور پر شام میں فوجی مداخلت کی اور لبنان سے حزب اللہ کو طلب کیا گیا اسی طرح عراق کی بلامبالغہ درجنوں ملیشیائیں شام میں لڑ رہی ہیں بشار کی مدد کیلئے نارتھ کوریا کے فوجی بھی موجود ہیں ایران اس لڑائی کو مذہبی لڑائی باور نہیں کرواتالیکن اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس نے دنیا بھر سے ہزاروں جنگجووں کو مذہب کے نام پر اس لڑائی میں جھونک دیا ہے۔ یہ امر بھی باعث دلچسپی ہے کہ امریکہ کے برعکس جسکی دوستی پر عربوں کو ناز ہے روس اپنے ایرانی و شامی دوستوں کو بچانے کیلئے بلا خوف و خطر لڑائی میں کود پڑا ہے جس نے عرب امریکہ تعلقات پر سوالیہ نشان لگادیا ہے اور پورے خطے میں ایک ہنگامی صورتحال پیدا کردی ہے ، سعودی عرب کی حالت اس سارے قضیے میں بہت نازک ہے اور تجزیہ نگاروں کے مطابق اسکی بقاء کا مسئلہ درپیش ہے اسکو ایک طرف بڑھتی ہوئی ایرانی جارحیت کا مسئلہ درپیش ہے تو دوسری طرف سر اٹھاتی ہوئی انتہا پسندی ، جو کے اسکے مذہبی اقتدار کو چیلنج کررہی ہے ، اگر شام ایران کے ہاتھ سے نکلتا ہے تو ایران تا لبنان اسکے اثر سے نکل جائیگا اور عراق میں بھی اسکی حامی حکومت کا وجود خطرے میں پڑ جائیگا یہ وہ عظیم سلطنت ہے جسکو اسکے مخالفین صفوی سلطنت کا نام دیتے ہیں دوسری طرف عرب و ترکی کو یہ خطرہ ہے کہ اگر شام میں اہل سنہ سے منسوب قوتیں لڑائی ہارتی ہیں تو ایران خطے کی ایسی قوت بنکر ابھرے گا جو کے اپنی پالیسوں سے پورے خطے پر اثرورسوخ قائم کرلے گا یوں مسلم دینا کی دو بڑی طاقتیں ایکدوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔ایران ، شام ، عراق کی متحدہ فوجی قوت بھی شامی عوام کو دبانے میں ناکام رہی ہے اور زبدانی و ادلب کی لڑائی کے بعد ان میں یہ خیال زور پکڑ گیا ہے کہ یہ مزاحمت اب بیرل بموں سے نہیں کچلی جاسکتی اور روس اپنے اسلحے کے سب سے بڑے خریداروں کو بچانے کیلئے میدان میں اترا ہے ، دوسری طرف سعودیہ پر اندر و باہر سے سخت دباو ہے کہ وہ شامی مزاحمت کا کھل کر ساتھ دے اور اینٹی ایرشکن اسلحہ کی ان تک رسائی یقینی بنائے سعودیہ کے 55 ثقہ علماء شام میں روسی جارحیت کیخلاف جہاد کا فتوی دے چکے ہیں۔
آج سعودیہ اور ترکی کو اسی خطرے کا سامنا ہے جسکا پاکستان کو افغانستان میں روسی جارحیت کے وقت تھا اور عرب ممالک پاکستان کی طرف اسی امید سے دیکھیں گئیں جیسے کبھی پاکستان نے انکی طرف دیکھا تھا گوکے پاکستان اس سارے قضیے میں ایک ثالث یا صلح جو کا کردار ادا کرنا چاہتا ہے لیکن خطے کی صورتحال اور خراب ہونے کی صورت میں شاید ایسا ہونا ممکن نہ ہو۔آخر میں اس بات کا ذکر کرنادلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ شام کے شہر حماء میں روسی فضائیہ ، فوج اور ایرانی فوج کا پہلا مشترکہ حملہ شدید شکست کا شکار ہوا ہے اور یہ شکست بھی مغرب و عرب نواز سمجھے جانیوالی الجیش الحر کے ہاتھوں ہوئی ہے ۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024