پی پی 72 کے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن کے امیدوار کی شکست نے پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو فیصل آباد میں ایک ایسے حلقے سے شکست پرنوٹس لینے پرمجبور کردیاہے جس حلقہ پر گزشتہ ربع صدی کے دوران ہونے والے تمام انتخابات میں مسلم لیگ ن کا امیدوار ہی کامیاب ہوتارہاہے ‘ حتیٰ کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہونے والے2002اور 2008 کے انتخابات میں بھی اس حلقہ سے مسلم لیگ ن کے امیدوار ہی کامیاب ہوئے تھے۔ 2002 میں اس وقت کے مسلم لیگ کے سٹی صدر خواجہ محمد اسلام جو 1990کے عشرے میں اس نشست سے دو مرتبہ پنجاب اسمبلی کے رکن رہ چکے تھے‘ عام انتخابات سے اس لئے باہر ہوگئے تھے کہ وہ گریجوایٹ نہیں تھے۔ پارٹی نے ان کی جگہ شیخ اعجاز احمد ایڈووکیٹ کو پارٹی امیدوار نامزد کیا اور 2002کے الیکشن میں وہ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے لیکن خواجہ محمداسلام کو گریجوایٹ نہ ہونے کے باعث پنجاب اسمبلی سے باہر رہ جانے کا اس قدر قلق تھا کہ انہوں نے سندھ کی کسی یونیورسٹی سے بی اے کاامتحان دے کرالیکشن 2008 سے پہلے پہلے خود کو پارٹی انتخابات میں حصہ لینے کااہل بنالیا۔ ان کادعویٰ یہی تھا کہ انہوںنے بی اے کی ڈگری حاصل کرلی ہے لہٰذا مسلم لیگ ن کی قیادت نے انہیں الیکشن 2008 کےلئے اس حلقہ سے ایک بار پھر پارٹی امیدوار نامزد کردیا اور 18فروری 2008کو وہ اس حلقہ سے کامیاب ہوکر پانچ سالوں تک پنجاب اسمبلی کے رکن رہے۔ خواجہ محمداسلام کی فیصل آباد شہر میں مسلم لیگ کیلئے بہت زیادہ خدمات رہی ہیں لہٰذا سپریم کورٹ نے جب انہیں جعلی ڈگری کے الزام میں نااہل قرار دے دیا اور پی پی 72میں ضمنی الیکشن کے انعقاد کا موسم آیا تو مسلم لیگ ن نے خواجہ محمداسلام کو پی پی72میں اپنی مرضی سے پارٹی امیدوار نامزد کرنے کااختیار دے دیا۔ انہوںنے اپنے بھائی خواجہ لیاقت کو 7اکتوبر کے ضمنی الیکشن میں پارٹی امیدوار نامزد کیا لیکن خواجہ لیاقت تحریک انصاف کے شیخ خرم شہزاد کے مقابلے میں کم وبیش چھ ہزار ووٹوں کی کمی سے یہ الیکشن ہار گئے۔ یہ ایک بہت بڑا اپ سیٹ ہے‘ خصوصاً جبکہ سٹی ڈسٹرکٹ فیصل آباد سے گیارہ مئی کے عام انتخابات اور 22اگست کے ضمنی انتخابات میں اپنی بے مثال کارکردگی کے باوجود تحریک انصاف کوئی کامیابی نہیں ملی تھی۔ مسلم لیگ ن نے قومی اسمبلی کی تمام نشستیں جیت رکھی تھیں اور پنجاب اسمبلی میں بھی فیصل آباد سے تعلق رکھنے والا کوئی رکن پنجاب اسمبلی اپوزیشن میں نہیں تھا حتیٰ کہ پی پی58 ماموں کانجن سے عام انتخابات میں آزاد امیدوار کے طورپرالیکشن جیتنے والا سابق رکن قومی اسمبلی ریاض فتیانہ کابیٹا احسن ریاض فتیانہ بھی حکومتی بنچوں کا حصہ بن گیاتھا اور پی پی 64 سے باغی امیدوار کے طورپر الیکشن میں حصہ لے کر آزاد امیدوار کے طورپر جیتنے والا ظفر اقبال ناگرہ بھی ‘ انتخابات میں کامیابی کے اگلے روز مسلم لیگ ن میں شامل ہوگیاتھا۔ فیصل آباد میں بلاشبہ مسلم لیگ ن کاقلعہ ثابت ہوا تھا۔ خواجہ محمداسلام کے نااہل ہونے پر کسی کوگماں تک نہیں تھا کہ ضمنی الیکشن میں ان کی خالی کردہ نشست مسلم لیگ ن کے ہاتھ سے نکل جائے گی لیکن 7اکتوبر کے الیکشن میں تحریک انصاف کے شیخ خرم شہزاد کی کامیابی نے حکمران پارٹی کوایک عجیب مخصمے میں ڈال دیاہے۔ اگر اقتدار میں آنے کے چار ماہ بعد مسلم لیگ ن کے سیاسی قلعے میں دراڑ پڑسکتی ہے توآئندہ بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ ن کی کامیابیوں کے متعلق کیا پیش گوئی کی جاسکتی ہے!۔ 11مئی کے انتخابات میں خواجہ محمداسلام نے اس نشست سے53899 ووٹ لئے تھے ۔ اب ان کے بھائی کو 17606ووٹ ملے ہیں۔ تحریک انصاف کے شیخ عارف سلمان نے خواجہ محمداسلام کے مقابلے میں گیارہ مئی کو رنراپ پوزیشن حاصل کی تھی اور ان کے ووٹوں کی تعداد مسلم لیگی امیدوار کے حاصل کردہ ووٹوں کے نصف سے بھی کم تھی‘ البتہ عام انتخابات میں رنر اپ وہی تھے۔ تحریک انصاف نے ضمنی الیکشن میں پارٹی ٹکٹ تبدیل کرکے شیخ خرم شہزاد کو دے دیاتھالیکن شیخ خرم شہزاداس لحاظ سے خوش قسمت رہے کہ ان کے بھائی شیخ محمداصغر جو چناب کلب کے آنریری سیکرٹری بھی رہ چکے تھے‘ پاکستان ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز اور شہر کی تاجر اور صنعتکار برادری مےںاچھے خاصے مقبول بھی تھے‘ وہ تاجروں اورصنعتکاروں کو حکومت کی چار ماہ کی کارکردگی کے مایوس کن پہلو دکھا کر اپنے بھائی کی حمایت پرلانے میںکامیاب ہوگئے تھے۔ خواجہ لیاقت کے مقابلے میں جن مسلم لیگی امیدواروںکوپارٹی ٹکٹ نہےں ملا تھا ۔ انہوںنے 7اکتوبر کے انتخابات میں خواجہ لیاقت کی کوئی واضح حمایت نہیں کی۔ کسی نے کھل کر انتخابی مہم میں حصہ نہیں لیا۔ 7اکتوبر کے ضمنی الیکشن میں پی پی 72 کے 125 پولنگ سٹیشنوں کل 43588 ووٹ کاسٹ ہوئے۔ یہ ان ووٹوں سے بھی کم تعداد بنتی ہے جو گیارہ مئی کے انتخابات میں خواجہ محمداسلام نے 53899 ووٹوں کی صورت میں حاصل کئے تھے۔ خواجہ لیاقت کو حلقہ کے ایسے متعدد افراد نے ووٹ نہیں دیئے جنہوںنے خواجہ محمداسلام کے جعلی ڈگری پر نااہل ہونے پر محسوس کیا کہ انہوںنے اپنی پارٹی کی اعلیٰ قیادت اورپوری قوم کو دھوکہ دیاتھا۔ ان کاانٹرمیڈیٹ کا سرٹیفکیٹ ہی بوگس قرار پایاتھا اور رائے دہندگان کے نزدیک وہ ایک بوگس سیاست دان تھے۔ مسلم لیگ(ن) فیصل آباد میں پہلے ہی سخت دھڑے بندیاں موجود ہیں۔ پی پی72 کے ضمنی انتخابات میں شکست پر مسلم لیگ(ن) کے ارکان کھل کر ایک دوسرے کے سامنے آ گئے ہیں اور ایک دوسرے پر الزامات اور تنقید کے تیر برسا رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے این اے81 کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نثار احمد نے کہاہے کہ پی پی 72 میں مسلم لیگ ن کی شکست کے ذمہ دار خود خواجہ محمداسلام ہےں کہ انہوںنے اپنی تعلیمی اسناد کے حوالے سے پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو دھوکہ دیا۔ حلقہ کے رائے دہندگان کو دھوکہدیا اور المیہ یہ ہوا کہ پارٹی قیادت نے انہیں ہی ضمنی الیکشن کیلئے پارٹی امیدوار نامزد کرنے کااختیار دے دیاتھا۔ وزیرمملکت چوہدری عابد شیر علی کے نزدیک بھی پی پی 72 میں مسلم لیگ ن کی شکست رائے دہندگان کا یہ احساس تھا کہ حکمران پارٹی نے ایک ایسے شخص کو ضمنی الیکشن میں پارٹی امیدوار نامزد کردیاتھا جس کے بھائی پر پورے حلقے کوالیکشن 2008اور الیکشن 2013میں جعلی تعلیمی اسناد کے ذریعے دھوکہ دے کر الیکشن لڑنے اور جیتنے پرگلہ پیدا ہوگیا تھا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمدچوہدری نے حال ہی میں کسی جعلی ڈگری کیس پرریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جو لوگ جعلی ڈگری کادھوکہ اور فریب دے کراقتدار کے ایوانوں میں آتے ہیں‘ ان سے قوم کی کس خدمت کی توقع کی جاسکتی ہے۔ پی پی 72میں مسلم لیگ ن کے امیدوار کی ناکامی کی ایک وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ رائے دہندگان کے دلوں میں خواجہ محمداسلام کےخلاف جعلی تعلیمی اسناد کی اہلیت کے ذریعے پنجاب اسمبلی کی دو مرتبہ رکنیت حاصل کرنے پررنج اور دکھ تھا اور وہ مسلم لیگ ن سے وابستگی کے باوجود 7اکتوبر کے ضمنی الیکشن میں ووٹ ڈالنے کیلئے نہیں آئے تھے لیکن خواجہ لیاقت کی شکست کی اصل وجہ یہ ہے کہ پی پی 72پر ضمنی الیکشن کے مسلم لیگ ن سے پارٹی ٹکٹ کے امیدواروں نے پی پی72 کو ایک مخصوص پارٹی کارکن اور ان کے خاندان کی میراث بنائے جانے کی مخالفت کی ہے اور خود خواجہ لیاقت کو ہرایاگیاہے تاکہ آئندہ کیلئے یہ انتخابی حلقہ ”خواجہ فیملی“ کی شناخت کے طورپربرقرار نہ رہے اور کسی اورامیدوار کوپارٹی ٹکٹ مل جائے۔خواجہ لیاقت کی ناکامی کی اصل وجہ شاید حکومت کی اپنی کارکردگی بھی ہے کہ فیصل آباد کے عوام نے حکومت کے ہاتھوں میں کشکول پکڑا دیکھ کر یہ سوچنا شروع کردیاتھا کہ وزیراعظم میاں نوازشریف جنہوںنے الیکشن 1997 میں کامیابی کے بعد ”قرض اتارو‘ ملک سنوارو“ کی مہم چلا کر عوام کے دل جیت لئے تھے۔ اب ان کے ہاتھوں میں ”کشکول“ پکڑاوا دیاگیاہے۔ سیلزٹیکس میں ایک فیصد اضافہ‘ بجٹ پیش کرتے وقت کیاگیا تو قوم اس پر سراپا احتجاج بن گئی تھی کہ اب وزارت خزانہ نے پیپلزپارٹی کے دور کے سیلزٹیکس کو بڑھا کر 16فیصد سے 19فیصد کردیاہے۔ خصوصاً کاروباری حلقے کاحکومت پر سے اعتماد اٹھ گیاہے اور مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت ان کے دلوں سے اتر رہی ہے۔ خواجہ لیاقت کیلئے ‘ یکم اکتوبر کوپٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ انتہائی جان لیوا ثابت ہواہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کےساتھ‘ حکومت کی طرف سے چار ماہ کی حکومت میں تیسری مرتبہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ کونوٹیفکیشن بھی شامنے آچکاتھا۔ تاہم بعد میں سپریم کورٹ کی طرف سے بجلی کے نرخوں میں اضافہ کانوٹیفکیشن واپس لینے کاحکم سامنے آگیاتھا اور حکومت نے بجلی کے نرخوں میں کیاگیا وہ اضافہ واپس لے لیاتھا جو یکم اکتوبر سے کیاجارہاتھا لیکن بیک وقت پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے نرخوں میں اضافے کا چرچا‘ اس پرحکومت مخالف ریلیوں کاانعقاد اور چینلز پرحکومتی پالیسیوں پرہونے والی جائز اور ناجائز تنقید کے علاوہ ملک کے اندر مہنگائی کے بے رحم لہر میں ہونے والا خوفناک اضافہ یہ وہ عوامل تھے جو مسلم لیگ ن کے امیدوار کی ناکامی کاباعث بنے۔ مسلم لیگ ن نے عوام کومہنگائی اور بیروزگاری سے نجات نہ دلائی اور اگر حکمرانوںنے قومی خزانے کی بندر بانٹ میں اپنی ترجیحات درست نہ کیں تو وہ عوام میں اور بھی زیادہ غیر مقبول ہوسکتی ہے۔ عوام کو بچوں کیلئے لیپ ٹاپ اور متوالوں اور متوالیوں کیلئے انکم سپورٹ ‘ وظائف نہیں چاہئیں‘بیروزگاری اور مہنگائی کاخاتمہ چاہئے اور حکمرانوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ عوام سے روٹی چھین کر مخصوص طبقوں کو نوازتے نظرآئیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024