تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے یہ اعتراف حقیقت بہرحال ضروری ہے کہ سیاسی مفاہمت اور باہمی احترام و رواداری کی موجودہ فضا کی بنیاد محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے ایک ایسے وقت میں رکھی تھی جب خود انہیں اور ان کے خاندان کو بدترین سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ شہید بی بی کی دوربین نگاہیں اس سیاسی حقیقت کو بھانپ چکی تھیں کہ ملک کی سیاسی قوتیں باہم دست و گریبان اور متصادم رہیں تو اس کا فائدہ جمہوریت دشمن طالع آزما قوتوں کو پہنچے گا۔ انہوں نے ذاتی مصائب کوبالائے طاق رکھتے ہوئے ایک نئے جمہوری کلچرکا خواب دیکھا اور اپنے سیاسی حریفوں کو جمہوریت کی آبیاری اور استحکام کیلئے مل کر چلنے کی دعوت دی۔ "میثاقِ جمہوریت" محترمہ بینظیر بھٹو کے اسی خواب کی عملی تعبیر کی طرف اولین قدم تھا۔
ملک میں سیاسی عمل کو پروان چڑھتے دیکھنے کے خواہشمند حلقوں کیلئے یہ پیشرفت طمانیت کا باعث تھی، ایک ایسے وقت میں جب ملک میں جمہوری اقدار اور برداشت کا کلچر پیدا ہونے کی منزل نظر آنے لگی، محترمہ بے نظیربھٹو کی شہادت کا المناک واقعہ پیش آیا جس نے ملک کو سیاسی اعتبار سے یکسر بے یقینی اور انتشار کا شکار کردیا۔ اور عوام ملکی سلامتی کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہونے لگے۔یہ وہ سیاسی پس منظر تھا جب ملک میں اتحاد و یگانگت کی فضا کوقائم رکھنے کیلئے سبکدوش ہونے والے صدر آصف علی زرداری کا غیرمعمولی اور تاریخی کردار سامنے آیا۔ انہوں نے انتہائی نازک لمحات میں ”پاکستان کھپے“ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے تباہی و بربادی کے سامنے بند باندھ دیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے افسوسناک المیہ کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی کو دوبارہ منظم ہونے کے لئے اور فروری 2008ءکے انتخابات میں بھرپور انداز میں حصہ لینے کے لئے بہت قلیل وقت میسر آیا مگر آصف علی زرداری نے نہ صرف پارٹی کو سہارا دیا بلکہ ملک میں وسیع تر مفاہمت کی فضا پیدا کرنے کیلئے جرات مندانہ فیصلے کئے اور محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے وِژن اور فلسفئہ سیاست پر عمل کرتے ہوئے ملک میں جمہوریت اور جمہوری اقدار کو تقویت دینے میں پیش پیش رہے۔
اب اسے تاریخ کی ستم ظریفی ہی کہا جاسکتاہے کہ اس مفاہمت اور رواداری کی سیاست کے نتیجے میں ملک کی سیاسی قوتیں، عدلیہ اور بہت سے دوسرے حلقوں کو براہ راست فائدہ پہنچا مگر مفاہمت کی سیاست کو ملک و قوم کے بہترین مفاد میں آگے بڑھانے والی شخصیت آصف علی زرداری ان تمام لوگوں کی بدترین عداوت، تنقید اور دُشنام طرازی کا نشانہ بنے رہے حالانکہ آصف علی زرداری کے نقّاد سیاسی میدان میں پانچ سال تک حکومتی حوالوں سے اور میڈیا کی آزادی کے حوالے سے اپنے ذاتی، سیاسی اور گروہی مفادات کامیابی سے حاصل کرتے رہے۔
صدر آصف علی زرداری کو پانچ سالہ عہدہ صدارت کے دوران ایسے ناکردہ گناہوں کا بوجھ اٹھانا پڑا جن کا ان کی ذات سے دور دور تک تعلق نہیں تھا۔ اپنا عہدہ صدارت سنبھالنے سے قبل ہی انہیں کردار کشی کی جس مہم کانشانہ بنایا گیا تھا وہ بدستور جاری رہی۔ اس حقیقت کے باوجود کہ وہ ناکردہ گناہوں کی پاداش میں گیارہ برسوں تک جیل کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے اور ان کے خلاف کسی عدالت میں کوئی الزام ثابت نہ ہوسکا، ان کی ذات تختہ مشق بنی رہی اور انہیںیکسوئی اور اطمینان کے ساتھ بطور صدر پاکستان سیاسی کردار ادا کرنے کا موقع نہ دیا گیا۔
غیرجانبدار سیاسی مبصرین کا یہ تجزیہ حرف بہ حرف درست ہے کہ صدر زرداری کے خلاف کردار کشی کی مہم اور انہیں ہر مسئلے کے لئے ذمہ دار اور قصوروار ٹھہراتے ہوئے ریاست کے وہ بہت سے ذمہ داران اپنی نااہلیاں اور بداعمالیاں چھپاتے رہے جن کے دامن ہر طرح کے دھبوں سے آلودہ ہیں مگر انہوں نے ”زرداری دشمنی“ کا سہارا لے کر اپنے گناہ بخشوا لئے۔ یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ ایک فوجی آمر کو آئین میں ترمیم کی اجازت دینے والوں نے جمہوری طور پر منتخب صدر کو آئین میں دئیے گئے حقوق کو بھی وجہ نزاع بنائے رکھا۔
صدر آصف علی زرداری تاریخ رقم کرکے گزشتہ دنوں ایوان صدر سے رخصت ہوچکے ہیں مگر ان کے مخالفین کیلئے اپنے گریبانوں میں جھانکنے کا یہ ایک سنہری موقع ہے۔ "زرداری دشمنی" پر مبنی ان کے کردار کو مستقبل کی تاریخ میں کس طرح دیکھا جائے گا؟ صدر زرداری کو بے شمار ایسے خلافِ حقیقت الزامات کیلئے نشانہ تنقید و تنقیص بنائے رکھا گیا جس کا ان سے کوئی تعلق نہ تھا۔ پی پی پی کی قیادت کے "سیاسی داﺅ پیچ" کے نتیجے میں نواز لیگ اور پی پی پی کی سیاسی قیادت ملک میں واپس آئی، انتخابی عمل شروع ہوا ہے، دور آمریت ماضی کا حصہ بنا اور ججوں کو نہ صرف رہائی نصیب ہوئی بلکہ برطرف شدہ ججوں کو دوبارہ بحال کر دیا گیا۔ اس تمام عرصے کے دوران صدر زرداری کی ذات کو کبھی نام نہاد سوئس مقدمات اور کبھی میمو کمیشن جیسے مضحکہ خیز معاملات کو جوازبنا کردباﺅ میں رکھنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ میڈیا کا ایک خاص حصہ خود ہی انکے خلاف الزامات گھڑتا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں سنسنی خیز سرخیاں لگوانے اور بریکنگ نیوز چلوانے کے لئے بعض مخصوص رپورٹرز سے رپورٹیں جاری کرواتا اور پھر اس کی بنیاد پر کردار کشی کی مہم چلاتا رہا۔ دوسری جانب صدر زرداری اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے صوبائی خودمختاری اور وفاق کے استحکام کیلئے انتھک کاوشیں کرتے رہے۔ انہوں نے سوات کو طالبان کے قبضے سے چھڑا کر علاقے میں پاکستان کا جھنڈا لہرانا ممکن بنایا اور اسی "جرم"کی پاداش میں پاکستان پیپلز پارٹی کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت انتخابی مہم چلانے سے روکا گیا۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024