آنحضور اور نظام انصاف
اُمہ کیلئے آنحضور ﷺ کا اسوۂ حسنہ مشعل راہ ہے۔ اس پر عمل ہو تو آج کے دور انحطاط میں بھی امہ دنیا پر حکمرانی کر سکتی ہے۔ نظام انصاف کو اسلام میں بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ اس نظام عدل میں احتساب اور سماجی انصاف بھی شامل ہیں۔ سماجی انصاف سے ہم ہمیشہ یہی مراد لیا جاتا ہے کہ امیر اور غریب میں کوئی فرق نہ ہو، مرد اور عورت کے حقوق مساوی ہوں اور کسی کو بھی دوسرے فرد کا استحصال کرنے کی اجازت نہ ہو۔ وہ معاشرہ بھی سماجی انصاف کا حامل سمجھا جائیگا‘ جہاں تعلیم سب کیلئے ہو اور ایک جیسی ہو، قانون کی ہر صورت عمل داری ہو، کوئی قانون سے بالاتر نہ ہو، معاشی حیثیت کی بنیاد پر چیرہ دستی نہ ہو، نسل، حسب نسب، مکتب، مذہب، رنگ، علاقے کی بنیاد پر انصاف کے نظام پر اثر نہ پڑے، وسائل کی تقسیم منصفانہ ہو، کسی کو کم کسی کو زیادہ نہ ملے، ایسا بھی نہ ہو کہ کسی کو ملے ہی نہ۔ جبراً کوئی کسی پر بھی قابض نہ ہو، کوئی کسی بھی فرد کی حق ملکیت، اسکی عزت پر اثر انداز نہ ہو، لیکن ان سب عوامل کے علاوہ بھی بہت سے ایسے نکات ہیں جو معاشرے میں انصاف کی عکاسی کرتے ہیں اور انصاف کی اکائی سمجھے جاتے ہیں۔ عدل و انصاف کے حوالے سے ایک مذہبی سکالر کی پُر تا ثیر تحریر نظر سے گزری،جو یقینا چشم کشا ہے۔ جس کے مطابق تعلیماتِ نبویؐ اور اْسوۂ رسولؐ میں پْرامن معاشرے کے قیام اور احترامِ انسانیت کا درس ملتا ہے، شریعتِ محمدی کی رو سے ریاست کا کوئی فرد قانون سے مستثنیٰ نہیں، بلاامتیاز قانون کی حکمرانی کا تصوّر ہی امن و سلامتی کا حقیقی ضامن اور مثالی فلاحی ریاست کا بنیادی ستون ہے۔
قرا نِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تمہارے رب کی بات سچائی اور عدل کے اعتبار سے کامل ہے۔ ’’عدل‘‘ نہ صرف انسان کی فطرت میں شامل ہے بلکہ انسان کی ساخت میں بھی شامل کر دیا گیا ہے۔ ان سب کے بعداللہ تعالیٰ نے اپنی آ خری کتاب مبین میں عدل کا حکم بھی دیا: ’’اللہ تعالیٰ عدل اور احسان کا حکم دیتاہے‘‘۔ اسوہ نبویؐ ہمیں یہ تعلیم ملتی ہے کہ عدل کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے اور ریاست میں عدل وانصاف کا نظام بے لاگ احتساب کے اصول پر جاری ہو۔ ارشاد ربانی ہے: اور حساب لینے کیلئے اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے اوربے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔پس اس دنیا کا اصل محتسب اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ (سورۃ النسائ) مزید فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہیں عدل اور احسان کا حکم دیتاہے‘‘۔ اس رب کریم نے صرف اسی پر ہی بس نہیں کیا، بلکہ ایک بلند مرتبہ ذات بابرکات، سرور کائنات حضرت محمد مصطفیٰؐ کو مبعوث فرمایا، آپؐ کی کل حیاتِ طیبہ اور تعلیمات کے تمام تر مجموعے کواگر عدل کامل کانام دیاجائے تو بے محل نہ ہوگا۔
احتساب کا مطلب حساب کتاب، گنتی، عیب و صواب کی جانچ پڑتال، بازپرس، دیکھ بھال، جائزہ اور روک ٹوک ہے۔ احتساب دراصل اللہ تعالیٰ کا منصب و مقام ہے ، وہی اس کائنات کو دیکھنے والا ، اس کا حساب کتاب رکھنے والا اور مخلوق کے اعمال کاجائزہ لینے والا ہے۔اللہ تعالیٰ کی صفات و اسماء میں سے ایک نام ’’الحسیب‘‘ بھی ہے۔نبی اکرم کو جس دور میں مبعوث کیا گیا۔اس وقت ہر طرف ظلم وزیادتی اور ظلم وستم کے اندھیرے چھائے ہوئے تھے۔عدل وانصاف اور برابری ومساوات کا تصور تک نہیں تھا۔ ایسے میں اللہ رب العزت نے نبی اکرمؐ کو عدل وانصاف کا علم بردار بنا کر مبعوث فرمایا، چناںچہ قرا ن کریم میں آپؐ کی زبانی اعلان کروایا گیا ’’ مجھے حکم دیا گیا کہ میں تمہارے درمیان عدل و انصاف سے فیصلہ کروں۔‘‘
نبی اکرم کایہ بے لاگ عدل اور احتساب کا تصور جب معاشرے میں جگہ پاتاہے تو وہ معاشرہ مدینۃ النبی کی پاکیزہ و مقدس ریاست بن جاتاہے۔ محسن انسانیت نے دوستوں اور دشمنوں پر بہت احسانات کیے،لیکن عدل کے معاملے میں کسی سے کوئی رعایت نہیں کی، محسن انسانیت کی ختم نبوت کا ایک حسین پہلو یہ بھی ہے کہ آپؐ نے عدالتوں کو عدل و احتساب کا درس دیا،یہ سبق آپؐ کی ذات بابرکات سے پہلے دنیاسے عنقا ہوچکا تھااور انسانیت عدل و انصاف کو فراموش کر چکی تھی۔
آپؐ نے عدل کے اطلاقی پہلویعنی بے لاگ احتساب کیلئے سب سے پہلے اپنی ذات کو پیش کیا،اس سے بڑھ کر عدل و احتساب کی کوئی مثال کہاں مل سکتی ہے کہ عمرمبارک کے آخری ایّام میں آپؐ نے خود کو پیش کر دیاکہ میرے ہاتھوں کسی سے زیادتی ہوئی ہو تووہ اپنا بدلہ چکا سکتاہے۔ایک صحابی آگے بڑھے اورعرض کیا، ایک جنگ کے موقع پرآپؐ نے صفیں سیدھی کرتے ہوئے میری کمر پر چھڑی رسید کی تھی۔ جب آپؐ نے اپنی کمر مبارک سے کرتا ہٹایا اور فرمایاکہ آئو اپنابدلہ لے لو،وہ صحابی آ ئے اور کمرمبارک سے لپٹ کرمہرنبوت کو بوسے دینے لگے اور پھرانہوں نے کہا، میںتودراصل اس بہانے مہر نبوت کابوسا لیناچاہتاتھا۔آپؐ نے سود کو باطل قراردیا،لیکن سب سے پہلے اپنے حچا حضرت عباس بن عبدالمطلب کاسودمعاف کیا،خون معاف کرنے کی روایت کاآ غاز کیا اور سب سے پہلے اپنے چچا حضرت حمزہ بن عبدالمطلب کاخون معاف کیااورغلام آ زاد کرنے کاحکم دیاتو سب سے پہلے غزوہ حنین کے موقع پراپنے غلام آزاد کیے۔عدل و احتساب کی یہ مثال آج بھی دنیاکے قوانین میں ناپید ہے۔آپؐ کی شان یہ ہے کہ آپؐ نے عدل،مساوات اور احتساب کو بنیادی اہمیت دی۔ریاست مدینہ کے قیام کا بنیادی دستور بے لاگ عدل اور احتساب کو قرار دیا۔آپؐ نے ریاستِ مدینہ میں بے لاگ عدل کو نافذ فرمایا۔آپؐ نے دین اسلام کے اعلیٰ و ارفع مقاصد کا واضح تعارف اور مؤ ثر ابلاغ کرتے ہوئے نوع انسانی کو کفر و شرک اور جہالت کے اندھیروںسے ہی نہیں نکالا، بلکہ طبقہ واریت کے جبر،امارت و ثروت کی برتری اور نسلی عصبیت کے زعم باطل کا خاتمہ بھی کیا۔ حضوراکرمؐ کے لائے ہوئے نظام کی بنیاد انسانیت پر ہے اوراسلام کے تمام پہلو انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں، سزا اورجزا کاتصور صرف اسلام میں نہیں،بلکہ تخلیق انسانیت کے وقت سے یہ تصور ہردور میں رہا ہے۔انسانی معاشرے کی بقا کا دارومدار اسکے اجزا کے مابین توازن و اعتدال پر ہوتا ہے،جب انکے مابین عدم توازن پیدا ہو تو اسے معاشرے کے انحطاط سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسی بناء پر قرآن حکیم نے عدل کی قدر پر زور دیا ہے۔حتیٰ کہ انبیائے کرام کی بعثت کا مقصد نظام عدل کا قیام قرار دیا ہے۔ عدل کو تقویٰ کے قریب تر بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہونے کا یقین انسان کو حقوق کی ادائیگی کا شعور دیتا ہے۔رسول اللہ کا پیش کردہ عدل کا نظریہ ہی حقوق و فرائض کی میزان ہے۔جس معاشرے میں حقوق و فرائض کا توازن بگڑ جاتا ہے،وہاں ظلم کا نظام اپنی جگہ بنا لیتا ہے۔ عدل کی بالادستی،بے لاگ احتساب کے بغیر ممکن نہیں، بے لاگ احتساب کا مفہوم یہ ہے کہ کسی مفاد اور اندیشے کو خاطر میں لائے بغیر معاملات کو نمٹایا جائے۔
آپ نے محض عدل کی تلقین نہیں کی، بلکہ اس کی ابتدا اپنی ذات سے کی۔رسول اللہ ﷺ نے نہ صرف عدل کی بالادستی کا نظام قائم کیا،بلکہ بے لاگ احتساب کا مثالی اْسوہ بھی پیش کیا اور یہی عصر حاضر کی ضرورت ہے۔نبی اکرم ؐنے اپنے طرزِ عمل سے صحابہؓ کرام کو بھی عدل وانصاف کا نہ صرف یہ کہ درس دیا،بلکہ انہیں عدل وانصاف کا عادی بھی بنا یا۔ا گر ہم سیرت طیبہ اور حضرات خلفائے راشدین کے مثالی کردار کی روشنی میں آ ج کے حالات اور ماحول کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت بالکل الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔نبی اکرم نے جس معاملے کو سابقہ قوموں کے زوال اور ہلاکت کا سبب قراردیا تھا،آج وہی منظر ہمارے ہاں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ ملک سے بدامنی اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے اسلام کے بے لاگ عدل کے تصور کو نافذ کرنا ہوگا جس میں کمزور اور طاقتور،بااثر اور ایک عام فرد سب قانون کے کٹہرے میں مساوی نظر آئیں ،ہر فرد کو انصاف میسر ہو اور ہر فرد سے پورا پورا انصاف کیا جائے ،انصاف کا دہرا معیار اور بے لاگ عدل کے تصور کا خاتمہ کسی بھی معاشرے کی تباہی کی بنیاد ہے۔ …؎
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا ، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دُنیا کی امامت کا
یہی مقصودِفطرت ہے ،یہی رمزِمسلمانی
اخوت کی جہاں گیری محبت کی فراوانی
٭…٭…٭