جنرز کی ہڑتال ابتدا میں ہی دھڑے بندی کا شکار
ملتان (نامہ نگار خصوصی)پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن (پی سی جی اے)کی جانب سے ملک گیر سطح پر احتجاج کی کال آغاز ہی میں دھڑے بندی کا شکار ہوگئی،کسانوں ، کاشتکاروں کی تنظیموں نے پی سی جی اے کو استحصالی ادارہ قراردیتے ہوئے ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان (ٹی سی پی ) کو میدان میں لانے کا مطالبہ کیا ہے ، گزشتہ روز پاکستان کاٹن جنرزایسوسی ایشن (پی سی جی اے) کی جانب سے ملک بھر میں کپاس کی خریداری بند کرنے کا اعلان کیا گیا تھا جبکہ اگلے مرحلے میںفیکٹریاں بند کی جانی ہیں ،کپاس کی خریداری بند کئے جانے کے اس اعلان کے پہلے مرحلے میں ہی جنرز دو گروپوں میں تقسیم ہوگئے ہیں ،جننگ فیکٹریوں کے مالکان نے اس ہڑتال کی مخالفت کی ہے اور گزشتہ روز ان کی جانب سے کپاس کی خریداری جاری رکھی گئی جبکہ دوسری جانب ا?ئل ملز اور جننگ فیکٹری پر مشتمل کمپوزٹ یونٹ نے ہڑتال میںحصہ لیا ہے ، بتایا گیا ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) کیجانب سے کمپوزٹ یونٹ مالکان کو کروڑوں روپے ٹیکس بقایاجات کے نوٹسز جاری کئے گئے تھے جس پر ملک بھر میں کپاس کی خریداری بند کرنے کی کال دی گئی ، دوسری جانب جننگ فیکٹری (سنگل یونٹ ) مالکان پر کسی قسم کا نیا ٹیکس عائد نہیں کیا گیا ہے ، پاکستان ایگری فورم کے چیئرمین ابراہیم مغل نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پی سی جی اے نے ہمیشہ کپاس کے کاشتکاروں کا استحصال کیا ہے اور اپنا منافع بنانے کے چکر میں معیشت کا بیڑہ غرق کیا ہے ، جنرزچاہتے ہیں کہ ایک سال میں اتنا منافع کمالیں کہ ایک سے دو فیکٹریاں بنالیں اور ٹیکس کی مد میں خزانے میں ایک پائی بھی جمع نہ کرائیں ، انہوں نے کہا کہ شنید یہ ہے کہ پی سی جی اے کے چیئرمین میاں محمود اور جہانگیر ترین کے گٹھ جوڑ سے کپاس کی خریداری بند کرنے کا اعلان کیا گیا ہے اور جہانگیر ترین نے پہلے گنے کے کاشتکاروں کی کمر توڑی اور اب کپاس کے کسانوں کو دیوارسے لگا دینا چاہتے ہیں جو کہ کسی صورت قابل قبول نہیں ہے ۔