یادرفتگاں…حاجی خانزادہ امجد خان
حاجی خانزادہ امجد کو دارالفانی سے دارالبقاء منتقل ہوئے ایک برس بیت گیا۔ اللہ کریم انہیں رسول محتشمؐ کے صدقے اپنے پسندیدہ لوگوں کی فہرست میں شامل رکھے اور ان کی اولاد کو اپنے والد مرحوم کے مشن کی شمع روشن رکھنے کی ہمت و توفیق دے آمین۔ خان زادہ مرحوم کی ’’نوائے وقت‘‘ ہاؤس آمد کا سلسلہ باقاعدہ سے جاری رہتا۔ وہ شعبہ سرکولیشن میں منیجر راجہ حنیف‘ طاہر اشرف اور سعید بابر کے ساتھ دیر تک گفتگو کرتے۔ بات چیت کا محور علاقائی مفاد کے گرد گھومتا‘ حاجی صاحب نے کئی مرتبہ ان مشکلات کا اظہار بھی کیا جو ان کے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے دوران برداشت کرنا پڑتیں۔ وہ چاہتے تو سمجھوتہ کے چراغ جلاکر خود کو نمایاں کرلیتے مگر انہوں نے مسائل اور اضطراب کے کوہ گراں دیکھ لئے مگر اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔ حاجی صاحب کہا کرتے تھے کہ انہوں نے جرات اور دلیری مرحوم و مغفور مجید نظامی سے سیکھی ہے۔ اللہ پاک مرحومین کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے( ریاض اختر)…آہ!ایک سال بیت گیا،آج ہمارے پیارے والد گرامی (بابوجی)جنہیں بابائے صحافت کے لقب سے یاد کرتی ہے ۔حاجی خانزادہ امجد خان جنہوں نے 1942ء میں ہری پور شہر(جی ٹی روڈ)سے ملحقہ قدیمی موضع پانڈک میں آنکھ کھولی،لڑکپن گزارام،پلے بڑھے اور ساری زندگی اہل ہری پور کی خدمت میں گزار کر معاشرے کو خودی و خودداری اور ظلم و ناانصافی کے خلاف ڈٹنے کا گرسکھا کر اپنے درجنوں شاگرد وں کو نامساعد حالات کے باوجود ایک منفرد اور یادگار تاریخ کرکے گزشتہ سال 29 نومبر کو اس دارالافانی سے کوچ کرگئے جن کے جانے سے یہ آنگن ،یہ درودیوار اور کوچہ اور بازار سب سونا سونا لگ رہا ہے،یوں محسوس ہوتا ہے زندگی بے جان سی ہوکررہ گئی ہے لیکن ان کے چاہنے والے اور مربی حوصلہ بڑھاتے اور بابوجی کی طرح معاشرتی ناہمواریوں اور ظلم و ناانصافی کے خلاف جنگ کرنے ،غریب کا ساتھ دینے اور پگڑی اچھال زرد صحافت کے خلاف صف آراء ہونے کے آرزو مند ہیں اسمیں کوئی شک نہیں بابوجی نہ صرف دیگر بہت سے سینیئر صحافیوں کے استاد و راہنما ،صحافتی اکیڈمی اور اپنی ذات میں ایک انجمن تھے ہماری خوش قسمتی کے ہمارا تو نہ صرف صحافتی بلکہ ہر مکتب وہی تھے انہی کی وساطت سے ہمیں علم و شعور صحافی اسرار و رموز سیکھنے کو ملا ،بابوجی ہمیشہ کہا کرتے تھے بیٹا حق کا ساتھ دینا قرب الہٰی ہے ، مسائل کی نشاندہی کرنا تاکہ جہاں کہیں اصلاح کی ضرورت ہے متعلقہ ذمہ داران کے نوٹس میںآجائے اور کسی کی بے جا تذلیل بھی نہ ہو۔حاجی خانزادہ امجد خان نے اپنا صحافتی سفر کوئی چھ دہائی قبل شروع کیا تھا اور جنگ۔ان کو میر خلیل الرحمان سے ملاقات اور روزنامہ نوائے کے چیف ایڈیٹر جناب مجید نظامی کے زیر سرپرستی صحافتی خدمات کی انجام دہی کا بھی شرف حاصل ہوا اور بجا طور پر انہوں نے چھ دہائی سے زائد عرصہ تک ہزارہ کی صحافت پر راج کیا اور بہت سوں کی راہنمائی کی جن میں سے اب کئی ایک سینیئر ترین صحافیوں میں شمار کیے جاتے ہیں اور خانزادہ صاحب کے حق و صداقت کے مشن کو آگے بڑھارہے ہیں جبکہ خانزادہ صاحب ہی ہری پور پریس کلب اور ہری پور یونین آف جرنلسٹس کے بانی تھے اسی طرح انجمن صحافیاں تشکیل دے کر خانیور غازی،کھلابٹ،سرائے صالح کے صحافیوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کیا اور بھرپور و مثالی انداز میں عوامی مسائل اجاگر کرتے رہے خانزادہ صاحب ’’سنتا جا‘‘کے عنوان سے کالم بھی لکھتے تھے جو بے حد مقبول تھے جبکہ وہ بھرپور ادبی ذوق اور صلاحیت رکھتے تھے ۔ذنزادہ امجد خان کو قدرت نے بہت سی صلاحیتیں نوازرکھی تھیں وہ دوستوں کے دوست تھے اور اپنے دوستوں کو بے حد اہمیت دیتے تھے وہ ہزارہ میں اخبارات کی ترسیل کے علاوہ ڈیری فارمنگ ،زمینداری اورٹرانسپورٹ کے شعبوں سے بھی وابستہ تھے اور اکثر کہا کرتے تھے کہ میرے کامیابیاں میرے والدین کی خصوی دعاؤں کا ثمر ہیں علاوہ ازیں انہیں اپنے مرحوم بھائی سلطان افسر خان کے بچھڑنے کا بے حد رنج تھا جنہیں وہ اکثر یاد کرکے رنجیدہ ہوجایا کرتے تھے بابوجی ایک شفیق باپ اور بلند حوصلہ شخصیت تھے جو صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے اور غریب پروی انکی سرشت میں شامل تھا انہوں نے اپنے قلم سے ہمیشہ کمزور محکوم لوگوں کے مسائل اجاگر کیے اور عوامی حقوق کے تحفظ کی تحریکوں میں علماء تاجر برادری کے ساتھ مل کر بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس کی پاداش میں انہیں مختلف مشکلات بھی برداشت کرنی پڑیں مگر انہوںنے اپنی حق وصداقت پر مبنی روش کبھی ترک نہ کی ۔بابو جی کی کس کس بات اور ادا کو یاد کیا جائے،ان کی یاد ہر پل ستاتی ہے،آنکھیں ہر لحظ انہیں ترستی ہیں اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیت کرے انشاء اللہ خدمت خلق اور افراد معاشرہ کی مدد اور معاشرتی ناہمواریوں کے خلاف جو جدوجہد حاجی خانزادہ امجد خان نے شروع کررکھی تھی اسے پوری تندھی سے جاری رکھا جائے گا چاہے اسکے لیے کتنی ہی مشکلات سے نبرآزما کیوں نہ ہونا پڑے ۔