سب شب کے محافظ ہیں
آسیہ مسیح کے معاملے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جو کچھ ملک کے طول و عرض میں ہوا یہ کسی مہذب معاشرے کا عکس نہیں ہے۔ مسلسل تین دن ہونے والے اس فساد میں حکومتی رٹ ناہونے کے برابر تھی۔ بسوں، ٹرکوں، گاڑیوں، رکشوں ، موٹر سائیکلز کے بعد دین کے شیدائیوں نے بیکریوں، دکانوں اور یہاں تک کے کیلے کی ریڑھی کو بھی نہیں چھوڑا۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کیلے کی ریڑھی کا نقصان پورا کرنے کا عندیہ دیا ہے اور ابھی حال ہی میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں اس بچے کی بات چیت میڈیا سے کرائی گئی ہے تقریباً 1800 لوگوں کو فوٹیج کے ذریعے شناخت کرکے ان پر مختلف نوعیت کے مقدمات بنائے جارہے ہیں جن میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل ہیں۔ یقینا جو کچھ ہوا ہے اور جس طرح کیا گیا ہے وہ قابل مذمت ہے اور حکومت ان فسادی لوگوں کو سزا دلانا چاہتی ہے جنہوں نے بے گناہ لوگوں کو بہت زیادہ نقصان میں مبتلا کیا ہے۔ بے گناہ لوگوں کی سواریوں کو مالِ غنیمت سمجھ کر لوٹا اور جلایا گیا ۔ احتجاج کرنے والوں نے خدا اور اسکے رسولؐ کے سارے حکم اور اس کے بندوں کے حقوق نذرِ آتش کردیے۔ عجب وحشت کا راج تھا عام مسافر جس کے لیے نبی اکرمﷺ نے سہولتیں دینے کا حکم دیا ہوا ہے ان مسافروں کی جان، مال آبرو کو جس طرح پریشان کیا گیا یہ سارا عمل اسلامی تعلیمات کے منافی تھا۔ یہ امر طے ہے کہ کوئی بھی کلمہ گو مسلمان نبی اکرم کی شان میں کسی بھی غیر مسلم کی طرف سے کی جانے والی گستاخی کو برداشت نہیںکرتا اور نہ ہی کرنا چاہئے۔ غازی علم الدین شہید کی مثال ہمارے سامنے ہے جو شان رسالت پر اپنی جان قربان کرگئے۔ جب تمام مذاہب میں پائے جانے والے احترام کے ضابطے سب کے لیے یکساں ہیں پھر کسی کو کوئی حق نہیں کہ نبی اکرم ﷺیا دوسری محترم ہستیوں کی شان میں ہرزہ سرائی کرے۔ عدالت عالیہ کے فیصلہ کے بعد مختلف آراء ہیں جو گردش کررہی ہیں ۔ یہ بھی طے ہے کہ عدالتی فیصلے کا احترام ہونا چاہیے وہ معاشرے دیر تک قائم رہتے ہیں جہاں کا اعلیٰ اصول وہاں کے نظام عدل کو تسلیم کرنا ہوتا ہے۔ اگر عدالتی فیصلہ سے کوئی اختلاف تھا یا ہے تو اپنے جذبات کا اظہار سڑکوں پر بے گناہ لوگوں کے املاک کو نقصان پہنچا کر نہیں کیا جانا چاہیے جو صورتحال دیکھنے کو ملی وہ یقینا ایک انارکی کی صورتحال تھی ۔ اب ایک بے لگام مجمعے کے سامنے کوئی کیا کرسکتا تھا مسافروں نے اپنی گاڑیوں کو جلتے اور اپنی املاک کو لٹتے دیکھا ہے۔ احتجاج کرنے والوں نے جس اطمینان سے گاڑیوں کو جلایا، املاک کو لوٹا دل سوچنے پر مجبور ہے کہ ایک ایسا معاشرہ جس کی بنیاد کلمہ پر ہے وہاں ان فسادیوں کو روکنے والا کوئی نہ تھا۔ اگر اس احتجاج کا مقصد نبی اکرمﷺ کی عظمت کی بلندی تھی تو پھر جو کچھ آنکھوں کے سامنے تھا وہ نبی اکرمﷺ کے بتائے ہوئے راستوں سے انحراف تھا۔ اب جو حضرات ان واقعات کے بعد فوٹیج کے ذریعے گرفتار ہوئے ہیں ان کے ساتھ عدالتیں کیا سلوک کرتیں ہیں یہ ایک علیحدہ معاملہ ہے مگر آسیہ مسیح کے اس عدالتی فیصلہ کے خلاف بلند ہونے والی احتجاج کی آوازوں کو ہرگز پرتشدد نہیں ہونا چاہیے تھا جس مذہب کے ہم ماننے والے ہیں ہمیں امن کا راستہ اختیار کرنا چاہیے تھا بیشک احتجاج کیا جاتا مگر صرف سڑکوں پر بیٹھ کر درود و سلام کی صدائیں بلند کرتے۔ نبی اکرمﷺ سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ایک پُر امن مسلمان کا عملی نمونہ بن کر اس احتجاج کو ریکارڈ کرایا جاسکتا تھا۔ حدیثِ مبارکہ ہے کہ ’’مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان کی جان، مال، آبرو محفوظ ہو‘‘ ان مناظر میں جہاں تشدد کا عنصر موجود تھا وہاں زبان کا بھی بے دریغ استعمال کیا گیا۔ دنیائے عالم میں ان پُر تشدد جلائو گھیرائو کے واقعات کو دیکھنے کے بعد مسلمان کا جو تصور بن رہا ہے اس کو اپنے اچھے اخلاق اور اچھے طرزِ عمل سے بدلہ جاسکتا ہے۔ آج ترقی کرتی ہوئی دنیا میں اپنے تشخص کو منوانے کے لیے نبی اکرم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر مسلمانوں کے خلاف منفی تاثر کو زائل کیا جاسکتا ہے۔ مختلف فوٹیج اور ویڈیوز میں جو مناظر دیکھنے کو ملے وہاں دل اور دماغ یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا ہم سب شب کے محافظ ہیں اور ہم سحر کبھی نہیں ہونے دینگے۔ بقول شخصے
؎یہ پیرانِ سیاست یہ میران لشکر، مفتی اور واعظ
سب شب کے محافظ ہیں سحر ہونے نہیں دیتے