پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران کو نجانے کیوں گرفتار کیا گیا ۔ مغرب میں کسی عدالت کے اندر جب ٹیچر داخل ہوا تو جج بھی کھڑا ہو گیا اور ساری عدالت میں احترام کی خوشبو چھا گئی۔ جج نے کہا ”ٹیچر اِن کورٹ۔“
کوئی پوچھنے والا ہے کہ استادوں کے استاد، معروف نامور دانشور کے ساتھ ہم نے کیا سلوک کیا۔ اب وہ کئی مہینوںکے بعد ضمانت پر رہا ہوئے ہیں۔ میں شرم کے مارے انہیں اب تک ملنے نہیں گیا۔
عدالت نے ہتھکڑیاں لگانے پر برہمی کا اظہار کیا۔ نیب پراسیکیوٹر نے معافی مانگ لی اور عدالت نے معاف کر دیا۔
بہت معروف شخصیت اور ایک مجاہد خاتون ڈاکٹر فوزیہ نے وزیراعظم عمران خان کو یاد دلایا ہے کہ انہوں نے ڈاکٹر عافیہ کیلئے حمایت کی بات کی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ عمران خان کے بغیر کسی حکمران نے کوئی توجہ نہیں دی۔ اب عمران خان پاکستان کے وزیراعظم ہیں۔ ان کے ایک بیان پر ہی امریکہ کی حکومت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہا کر دے گی۔ صدر اوباما بھی ڈاکٹر عافیہ کو رہا کرنا چاہتے تھے مگر پاکستان کی طرف سے سُستی اور غفلت کا مظاہرہ کیا گیا۔ ڈاکٹر فوزیہ نے اپنی بہن کیلئے بہت جدوجہد کی ہے۔ میں نے کالم بھی لکھے‘ میری ملاقات بھی ڈاکٹر فوزیہ سے ہوئی ہے۔
پیپلزپارٹی میں 40 برس کی مسلسل وفاداری اور خدمات کے بعد چودھری منور انجم کو ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات بنایا گیا ہے۔ ان کو مبارک ہو۔ یہ بہت کم بات ہے‘ وہ اس سے بہت زیادہ کے مستحق ہیں۔ ان کے علاوہ پارٹی میں کم کم لوگ اتنے اہم ہیں۔ فرحت اللہ بابر پیپلزپارٹی کے بہت اہم لیڈر ہیں۔ وہ ایک دفعہ میرے گھر تشریف لائے تھے۔ ان سے رابطہ رہتا ہے۔ انہوں نے بھی منور انجم کیلئے محبت کا اظہار کیا ہے۔ بینظیربھٹو کی جلاوطنی کے دوران ایک بار ٹیلیفونک پریس کانفرنس کی تھی۔ میں بھی وہاں موجود تھا۔ بی بی نے بہت محبت کا اظہار کیا تھا۔ منورانجم کے ساتھ سجادبخاری بھی موجود تھے۔
برادرم یٰسین وٹو نے بتایا کہ اس دفعہ شاہد رشید کی قیادت میں مزار اقبال پر 9 اپریل کو حاضری کیلئے گیا۔ یہ اقدام ہر سال کیا جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ مرشد و محبوب مجید نظامی صاحب کی قیادت میں ہم بھی وہاں حاضر ہوئے تھے۔ ان کے بعد صدر تارڑ کی قیادت میں یہ ڈیوٹی سرانجام دی جاتی رہی۔ اب شاہد رشید نے یہ فریضہ سنبھال لیا ہے۔ سیف صاحب‘ عثمان صاحب‘ ناہید صاحبہ‘ پروفیسر پروین خان‘ ناصرہ جاوید اقبال‘ نائیلہ عمر اور دوسرے احباب خواتین و حضرات 9 اپریل کو مزار اقبال جاتے رہتے ہیں۔ اس مرتبہ یہ حاضری 8 اپریل کو سرانجام دی گئی۔ 9 اپریل کو اقبال کی یاد میں دو اجلاس ہوئے۔ ایک صبح اور ایک بعد دوپہر کو منعقد ہوا جہاں خواتین و حضرات نے بہت یکسوئی سے شرکت کی۔ ڈاکٹر پروین خان‘ ناصرہ جاوید اقبال‘ نائیلہ عمر اور مہنازرفیع کے علاوہ بڑی تعداد میں خواتین نے شرکت کی۔ انہوں نے دوسرے اجلاس میں بھی شرکت کی جہاں مردوں کی تعداد زیادہ تھی۔ یٰسین وٹو خاص طورپر شریک ہوئے۔ ان کی شرکت پر خواتین کو بھی اعتراض نہیں ہوتا۔
اس کے علاوہ دو رسالے بھی شائع ہوتے ہیں جس میں ذکر اقبال کو اہمیت دی گئی ہے۔ رسالوں کا نام ”نظریہ پاکستان“ اور ”نونہال“ ہے۔ دونوں کے ایڈیٹر شاہد رشید ہیں۔ چیف ایڈیٹر ڈاکٹر رفیق احمد اور منیجنگ ایڈیٹر میاں فاروق الطاف ہیں۔ نگرانی کے فرائض محمد رفیق تارڑ کے سپرد ہیں۔ نظریہ¿ پاکستان میں نامور دانشور اور ادیب شاعر محمود شام بھی شامل ہیں۔ ڈپٹی ایڈیٹر کے فرائض نعیم احمد سرانجام دیتے ہیں۔ مجھے بچہ سمجھ کر نونہال کی مجلس مشاورت میں رکھا گیا ہے حالانکہ مجھ سے کوئی مشورہ کبھی نہیں کیا گیا۔ میں اس کیلئے شاہد رشید کا شکرگزار ہوں۔ ایک بہت اچھا مضمون ”اقبال کیسا پاکستان چاہتے تھے۔“ نوائے وقت میں ایک دانشور اور ادیب مسرت قیوم نے لکھا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024