کراچی میں جو پیٹرولیم کمپنیاں پیٹرولیم مصنوعات امپورٹ کررہی ہیں ان میں سے اکثر غیر معیاری ہوتی ہیں اور مبینہ طور پر فی جہاز کسٹم حکام کلیئرنس کے 15-25لاکھ روپے رشوت لیکر جہاز کلیئرکردیتے ہیں اور وہ غیر معیاری پیٹرولیم مصنوعات فروخت کرکے پیٹرولیم کمپنیاں اپنے منافع میں نمایاں اضافہ تو کرلیتی ہیں لیکن ملک بھر میں چلنے والی گاڑیوں کے انجن و دیگر مسائل کی شرح میں اضافہ ہوا ہے جس کی زیادہ تر ذمہ داری پیٹرولیم کمپنیوں پر عائد ہوتی ہے جو اپنے معاشی مفاد کی خاطر اور چند کرپٹ کسٹم اہلکاروں کی ملی بھگت کی وجہ سے اپنے کسٹمرز کو دھوکہ دے رہی ہیں۔ اس معاملے پر حکومت کو چاہئے کہ وہ خصوصی کمیٹی بناکر جانچ پڑتال کرے۔
اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ جنرل مشرف نے جب اقتدار سنبھالا تھا تو بالکل آج کی طرح قومی خزانہ خالی تھا اور اس وقت تو آئے روز یہ خبریں آرہی تھیں کہ خدانخواستہ پاکستان ڈیفالٹر یا دہشت گرد ملک قرار دیا جانے والا ہے لیکن جنرل مشرف نے ڈاکٹر عشرت حسین سمیت موجودہ حکومت کی معاشی ٹیم میں موجود قابل‘ محب وطن اور باصلاحیت و تجربہ کار افراد کو اپنی ٹیم میں شامل کرکے مشکل ترین معاشی حالات کا نہ صرف مقابلہ کیا بلکہ اس بات سے بھی کوئی انکا ر نہیں کرسکتا کہ جنرل مشرف کے دور میں خام تیل کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر تھیں لیکن انہوں نے ملک میں نہ تو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں غیر ضروری اضافہ ہونے دیا اور نہ ہی ملک میں کبھی پیٹرولیم مصنوعات کی قلت پیدا ہوئی۔ جنرل مشرف نے اپنے دور میں3ماہ کے کریڈٹ پر پیٹرولیم مصنوعات لیں اور انہیں ریفائنریز میں ریفائن کرکے پیٹرولیم مصنوعات اور ریفائنریز سے ٹیکس بھی وصو ل کئے اور ساتھ ہی ساتھ پٹرولیم مصنوعات کی خریداری اور ادائیگی کا قومی خزانے پر کم از کم بوجھ پڑنے دیا۔
جنرل مشرف کی اچھی معاشی پالیسیوں کو اپنانا ضروری ہے کیونکہ انہوں نے ایشیائی ترقیاتی بینک کو قبل ازوقت ادائیگی کرکے ملک کی جان چھڑانے کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو بھی قرضہ دیکر فارغ کردیا تھااور ملکی خزانے میں 18ارب ڈالرز تھے۔ جنرل مشرف کے دور میں ڈیزل‘ پیٹرول‘ کیروسین اور لائٹ ڈیزل کی قیمت تقریباً برابر تھی جس کی وجہ سے مکسنگ نہیں ہوتی تھی۔ جنرل مشرف نے شیل کے ایم ڈی کے کہنے پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کی شرح سے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں اور ڈیلرز کی کمیشن میں اضافہ کردیا تھاجس کی وجہ سے آئل مارکیٹنگ کمپنیاں اور پیٹرول پمپ مالکان خوشحال بھی تھے اور مکسنگ کا مکمل خاتمہ ہوگیا تھا کیونکہ کمیشن میں اضافے کے بعد انہوں نے اعلان کررکھا تھا کہ اب اگر کوئی پیٹرول پمپ مکسنگ میں ملوث پایا گیا تو اسکا پمپ سیل کردیا جائیگا۔ اگر یہی پالیسی جاری رہتی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت کی شرح سے ڈیلرز کمیشن میں اضافہ ہوتا تو مکسنگ نہ ہوتی۔
بدقسمتی سے دیگر شعبوں میں جس طرح ملک کا معاشی استحصال کیا جاتا رہا ہے بالکل اسی طرح پیٹرولیم انڈسٹری میں بھی ملک کو بھاری نقصان پہنچایا جارہا ہے اور یہ سلسلہ گزشتہ 10سال سے جاری ہے۔ اس وقت تو یہ صورتحال ہے کہ ریفائنریز کی پروڈکشن اور آئل مارکیٹنگ کمپنیز کی مارکیٹنگ بہت کم رہ گئی ہے کیونکہ ماضی میں جو ایرانی ڈیز ل اور پیٹرول صرف بلوچستان کے ایرانی سرحدی علاقوں میں فروخت ہوتا تھا وہ گزشتہ 10سالوں میں مرحلہ وار پہلے پورے بلوچستان پھر کراچی و اندرون سندھ اور اب اس کا دائرہ بڑھ کر پورے ملک تک پھیل گیا ہے اور پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی کھپت کا بھاری حصہ غیر قانونی ایرانی پیٹرولیم مصنوعات سے پورا ہورہا ہے اور حکومت کو بھاری ٹیکس دینے والی 5آئل ریفائنریز کی پروڈکشن بہت کم ہوگئی ہے اور کسٹم اہلکاروں و دیگر اداروں کی ملی بھگت سے اب پورے ملک میں ایرانی پیٹرولیم مصنوعات کھلے عام فروخت ہورہی ہیں جس سے حکومت کو روزانہ کی بنیاد پر کروڑوں روپے کم ٹیکس مل رہا ہے۔کروڑوں لیٹرز روزانہ ایرانی پیٹرولیم مصنوعات ملک بھر میں ترسیل ہورہی ہے اور ادارے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں لیکن ملک کا نقصان ہورہا ہے اور معیشت کو اس غیر قانونی تجارت سے بھاری نقصان ہورہا ہے۔
بعض ایرانی مصنوعات سے بھرے آئل ٹینکرز کے پاس تو کسٹم کلیئرنس کے جعلی کاغذات تک ہوتے ہیں لیکن کوئی پرسان حال نہیں۔ اس بارے میں وزیراعظم عمران خان اور وفاقی وزیر پیٹرولیم کو فوری نوٹس لیکر موثر اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ ہماری ریفائنریز کی پروڈکشن میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ حکومت کو ٹیکس وصول ہوسکے اور معیشت کو استحکام ملے۔
ایران سے اگر بھارت کو تجارت کی اجازت ہے تو ہمیں بھی اس معاملے میں غیر ضروری دباؤ کا شکار نہیں ہونا چاہئے اور ایران سے ہر ممکن حد تک تجارت کو فروغ دینا چاہئے۔ ایران نے اپنی حدود میں گیس پائپ لائن مکمل کرلی ہے اور پی پی کی حکومت نے یہ اہم معاہدہ کیا تھا اگر اب بھی پی پی کی حکومت ہوتی تو شاید ایران گیس پائپ لائن مکمل ہوچکی ہوتی۔اب حکومت کو پارلیمنٹ میں افہام و تفہیم کے ساتھ پی پی اور ن لیگ سے ملکر کرپشن و ہر قسم کی ملاوٹ پر سزائے موت کا قانون نافذ کرنا چاہئے بے شک اس قانون کے تحت سزائیں قانون کے نفاذ کے بعد ہونیوالی کرپشن اور ملاوٹ پر ہی کیوں نہ ہوںلیکن ایک بار سخت ترین سزاؤں کا آغاز بھی سدھار کے لئے بہت ضروری ہے۔ وزیراعظم کو چاہئے کہ وفاقی و پنجاب کے صوبائی وزراء اطلاعات کو بھی غیر ضروری بیان بازی سے روکیں کیونکہ اب اپوزیشن کی طرح کی شعلہ بیانی کے بجائے عملی اقدامات کی زیادہ ضرورت ہے اور اہم قوانین کی منظوری میں ان وزراء کے بیانات رکاوٹ بن سکتے ہیں ۔
جب سے ایک نامور صنعتکار‘ نے تھرمل پاور اسٹیشنز لگائے ہیں تب سے فرنس آئل کی کیرج میں ماہانہ اربوں روپے کے گھپلے جاری ہیں اور خصوصاً گزشتہ 10سال کا ریکارڈ اگر نیب قبضے میں لیکر تھرمل پاور اسٹیشنز کے فرنس کیرج کے گھپلوں کی تحقیقات کرے تو سب کچھ قوم کے سامنے آجائے گا ۔
حکومت تھرمل پاورز کو فرنس آئل کی قیمت بمع سرکاری ریٹ پر کیرج ادا کرتی ہے لیکن گزشتہ 10سالوں میں تھرمل پاورز نے بعض فرنٹ مین رکھ کر فرنس آئل کے کیرج میں 1500-1600روپے فی میٹرک ٹن کم کرایہ ادا کیا حالانکہ حکومت سے پورا کرایہ وصول کیا گیا لیکن فرنس آئل کیرج کرنے والے آئل ٹینکرز کوکم کرایہ دیا جاتا رہا اور ماہانہ اربوں روپے ناجائز طریقے سے کمائے گئے اور آئل ٹینکرز کا معاشی استحصال کرکے ذاتی جیب بھرے گئے۔
وزیراعظم عمران خان کا دورہ سعودی عرب اور چین کامیاب رہا ہے اور وفاقی وزیر خزانہ نے پریس کانفرنس کرکے کہہ دیا ہے کہ قومی خزانے پر ادائیگیوں کا بوجھ ختم ہوچکا ہے اور اب ہماری وقتی معاشی مشکلات حل ہوچکی ہیں جبکہ حکومت مستقل معاشی استحکام کی جانب گامزن ہے۔
مستقل معاشی استحکام کے لئے ضروری ہے کہ کرپشن و ملاوٹ پر جلد ازجلدسزائے موت مقرر کی جائے اور ساتھ ہی ساتھ ہر شعبے میں ہونیوالی کرپشن کی روک تھام کو اولین ترجیح بنایا جائے۔ اسی طرح پیٹرولیم انڈسٹری میں جن معاملات اور اصلاحات کی ضرورت ہے اس کو اولین ترجیح رکھ کر روزانہ کی بنیاد پر حکومت کروڑوں روپے ٹیکس آمدن میں اضافہ کرسکتی ہے۔ایران گیس پائپ لائن فوری مکمل کرکے آپریشنل کی جائے اور امریکی غلامی اور غلط پابندیوں کی پرواہ نہیں کی جانی چاہئے کیونکہ بھارت ایران سے تجارت کر رہا ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024