ہفتہ ‘ یکم ربیع الاوّل 1440 ھ ‘ 10 ؍ نومبر2018ء
لیبیا کی بہاد معلمہ نے جان پر کھیل کر بیسیوں طلبا کو مسلح حملے سے بچا لیا
یہ واقعہ گزشتہ روز شجاعوں اور دلاوروں کی سرزمین لیبیا کے ساحلی شہر، صبراتہ میں پیش آیا۔ مسلح جنگجوئوں نے سکول پر حملہ کیا تو اس وقت طلبا اور اساتذہ بھی موجود تھے۔ مگر معلمہ مذکورہ نے شجاعت کی ایک نئی داستان رقم کر دی۔ اس خبر نے لیبیا کی تاریخ کے کئی دریچے وا کر دئیے۔ اطالویوں نے بیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں لیبیا پر حملہ کیا تو اُس وقت شمالی افریقہ خلافت عثمانیہ کے ماتحت تھا۔ باب عالی، خود یورپ کا ’’مرد بیمار‘‘ بن چکا تھا۔ لیبیا کا دفاع کیسے کرتا۔ تاہم ’’لیبی بطل جلیل عمرالمختار اور اُس کے ساتھیوں اور السنوسی درویشوں نے حملہ آوروں کے دانت کھٹے کر دئیے اور ایسے ا یسے کارنامے انجام دئیے کہ اٹلی برسوں تک اپنے عزائم میں کامیاب نہ ہو سکا۔ انہی لڑائیوں کے دوران فاطمہ بنت عبداللہ نامی لڑکی جسے ’’بنت لیبیا‘‘ بھی کہا جاتا ہے طرابلس کی جنگ (1912ئ) میں غازیوں کو پانی پلاتے ہوئے شہید ہو گئی، فاطمہ کی شہادت کی خبر نے دُنیا بھر کے مسلمانوں کو تڑپا کر رکھ دیا۔ علامہ اقبالؒ نے فاطمہ کی شہادت سے متاثر ہو کر ’’فاطمہ بنت عبداللہ‘‘ کے عنوان سے شہرۂ آفاق نظم لکھی جو بانگ درا کے صفحہ 128 پر شائع ہوئی۔ نظم کیا ہے، ادب کا شاہپارہ اور ایک مجاہدہ کو بھرپور خراج عقیدت …؎
فاطمہ ! تو آبروئے ملت مرحوم ہے
ذرہ ذرہ تیری مشت ِخاک کا معصوم ہے
یہ سعادت، حورِ صحرائی تری قسمت میں تھی
غازیان دیں کی سقائی تری قسمت میں تھی
یہ جہاد اللہ کے راستے میں بے تیغ و پر
ہے جسارت آفرین شوق شہادت کس قدر
سرزمین لیبیا پر دوسری جنگ عظیم کے دوران العالمین کے مقام پر ٹینکوں کی تاریخ کی سب سے بڑی لڑائی ہوئی۔ اسی سرزمین پر یکم ستمبر 1969ء کو کرنل معمر قذافی نے درویش بادشاہ ادریس السنوسی کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ قذافی مرحوم اگرچہ کئی خوبیوں کے مالک تھے لیکن سفاکیت نے اُن کی ان تمام خوبیوں پر پانی پھیر دیا تھا۔ پچھلی صدی کے آٹھویں عشرے میں ایک سیاح لکھتا ہے: طرابلس جانے کا اتفاق ہوا۔ کئی دن تک فاطمہ بنت عبداللہ کی قبر ڈھونڈتا رہا مگر قبر تو رہی ایک طرف بڑ ے بوڑھوں کو بھی، لیبیا کی اس بہادر بیٹی کے نام تک کا علم نہیں تھا۔ جس نے جان کا نذرانہ دے کر دُنیا بھر میں اطالوی سامراج کے سفاکانہ چہرے کو بے نقاب کر دیا۔
٭٭٭٭
اداکارہ روحی بانو پُراسرار طور پر لاپتہ
نیرنگئی دوراں ملاحظہ ہو، ایک زمانہ تھا کہ لوگ روحی بانو کا ڈرامہ دیکھنے کے لئے دکانیں اور کاروبار چھوڑ چھاڑ گھر پہنچنے کی کرتے ۔ اُس زمانے میں صرف پی ٹی وی تھا ا ور اس پر چلنے والے ڈراموں نے پاکستان ہی نہیں ، بھارت میں بھی دھوم مچا رکھی تھی اور اس کا سہرا روحی بانو ایسے اداکاروں کے سر ہے۔ کیا اداکاری تھی، جس رول کو لیا، اُس میں جان ڈال دی۔ یہ موبائل اور کیبل سے پہلے کا زمانہ ہے ، بھارت سے آنے والے انار کلی (اُس وقت کا سب سے بڑا کاروباری مرکز) بازار میں پاکستانی ڈراموں اور بالخصوص روحی بانو کی کیسٹیں خریدتے نظر آتے تھے۔ وہ جو کہتے ہیں زمانہ سدا کسی کا یا ایک سا نہیں رہتا ، یہ بات روحی بانو پر صادق آتی ہے، نئی نسل روحی بانو کے کام سے تو کیا نام سے بھی کم ہی واقف ہے۔ اُسے جواں سال اکلوتے بیٹے علی کے قتل نے دُنیا و مافیہا سے بے خبر کر دیا۔ بہن کے گھر رہ رہی ہیں۔ علاج کے لئے فائونٹین ہائوس میں آتی جاتی رہتی ہیں جہاں وہ ایک عرصہ داخل بھی رہیں، روحی بانو کے لاپتہ ہونے کی خبرنے کئی اہل ذوق کے سینے شق کر دئیے ہوں گے۔ ایک وہ زمانہ تھاکہ گھر سے نکلتی تھیں تو ایک جھلک دیکھنے کے لئے مداحوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ ہوجاتے تھے ، آج یہ عالم ہے کہ کسی کو خبر نہیں کہ اُسے زمین نگل گئی یا آسمان نے اُچک لیا۔ رہے نام اللہ!
٭٭٭٭
عراقی وزیراعظم کا انوکھا اقدام، آن لائن درخواستوں سے 5 وزراء کا انتخاب
عراق کے وزیراعظم عادل عبدالمہدی ، سابق وزیراعظم نورالمالکی کے جانشین ہیں۔ خبرمیں تشنگی محسوس ہوتی ہے، لگتا ہے کہ رپورٹر سے کچھ چھوٹ گیا ہے ، ورنہ پارلیمنٹ کے ہوتے ہوئے اور کابینہ کے انتخاب کا معروف طریقہ چھوڑ کر 14 رُکنی کابینہ کی تکمیل کیلئے آن لائن چنائو ، ناقابل یقین ہی نہیں بے معنی سا لگتا ہے۔ خبر پڑھ کر پہلا تاثر یہ پیدا ہوا کہ عراقی وزیراعظم عادل نے کابینہ کے لئے وزیر نہیں کلرک بھرتی کئے ہیں، جن کا میٹرک پاس ہونے کے علاوہ ٹائپ اور شارٹ ہینڈ کی مطلوبہ رفتار کا رکھنا بھی لازمی اور کسی دفتر میں کلرکی کا پانچ سالہ تجربہ بھی ضروری ہو۔ بعض قارئین نے خبر کی وضاحت چاہی ہے اگر وزیراعظم عادل سے کوئی واسطہ ہوتا تو ہم بھی پوچھ لیتے کہ درخواست دہندہ کا عراقی شہری ہونا ضروری ہے یا غیر ملکی ’’ٹیکنالوجی‘‘ سے بھی فائدہ اُٹھایا جا سکتا۔ چنانچہ ہم ہاتھ مل رہے ہیںکہ سنہری موقعہ ہاتھ سے نکل گیا۔ آئندہ شاید کبھی قسمت دروازے پر دستک دے یانہ دے!
٭٭٭٭
کیلی فورنیا: سابق امریکی فوجی کی نائٹ کلب میں فائرنگ12 افراد ہلاک 10 زخمی
اس مردِ میداں کا، جس نے دادِ شجاعت دینے کے لئے کیلی فورنیا کے بار کلب کا انتخاب کیا، نام ڈیوڈ لانگ اور بحریہ کا سابق افسر تھا۔ بار میں تقریباً 200 افراد تھے جن کا تعلق ایک مقامی یونیورسٹی سے تھا، جن میں سے بارہ آنجہانی ہوگئے ۔ ملزم جوابی کارروائی میں مارا گیا۔ ڈیوڈ لانگ افغانستان میں بھی ڈیوٹی سرانجام دے چکا ہے۔ امریکی ذرائع ابلاغ اُسے سر پھرا قرار دے رہے ہیں۔ اگر کوئی مسلمان ہوتا تو دہشت گرد کا لیبل لگتا۔ نہ صرف اُس کی شان میں ’’قصیدے‘‘ لکھے جاتے بلکہ مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں دریدہ دینی کے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ دئیے جاتے، اس واقعہ کی صدر ٹرمپ کو اطلاع دے دی گئی ہے، صدر موصوف کا ردعمل سامنے نہیں آیا، لیکن وہ پچھلے ایک دو دن سے بہت تپے ہوئے ہیں۔ گزشتہ دنوں وہ وائٹ ہائوس میں پریس کانفرنس کر رہے تھے کہ شامت کا مارا سی این این کا نمائندہ کچھ انٹ شنٹ پوچھ بیٹھا۔ تلخ و ترش سوال سُن کر عالم پناہ کا مزاج بگڑ گیا اور حکم دیا کہ اس گستاخ کو وائٹ ہائوس سے دھکے دے کر نکال دیا جائے ، اس کا پریس کارڈ منسوخ کر کے اسے بتا دیا جائے کہ آئندہ ادھر کا رُخ نہ کرے۔ ورنہ، قلمرو سے ہی خارج کر دیا جائے گا۔ اس عالم میں جہاں پناہ نے عیش منغض کرنے والی یہ خبر سُن کر جس طرح کے ردِعمل کا اظہار کیا ہو گا اُس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔
٭٭٭٭