وہ مہینہ جس میں اللہ رب العزت نے اپنی مخلوق کے لیے نبی آخر الزمانؐ مبعوث فرما کر کائنات پر احسان عظیم کیا اورجس کے آتے ہی ہر مؤمن کا دل خوشیوں سے کھل اٹھتا ہے، اس ماہِ ربیع الاول کا آغاز ہو چکا ہے۔اس ماہ میں بالخصوص محافلِ میلاد کا انعقاد کرنا اور ذکر و نعت کا اہتمام کرنا، مسلمان اپنے ایمان کا حصہ سمجھتا ہے۔ اور جہاں ہم حضورؐ کی ذات کے ساتھ اپنی محبتوں کا اظہار محافل کے انعقاد کی صورت میں کرتے ہیں، وہاں حضورؐ کے اسوہ کو اپنے روزمرہ کے امور میں عملی صورت میں اپنا کر اپنے عمل، کردار و گفتار میں تبدیلی لائیں اور معاشرے کو امن و سلامتی اور خیر و برکت کا گہوارہ بنائیں جہاں انسان انسان سے وحشت کھانے کے بجائے اُنسیت محسوس کرے۔ آپؐ حسن سلوک کا ایک اعلیٰ نمونہ تھے، آپؐ کی زندگی پر عمل پیرا ہو کر ہم اس دنیا کو امن کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔ آپؐ نے ریاست مدینہ تشکیل دے کر دنیا کو زندگی گزارنے کے احسن اصول دیے۔ جنہیں مغرب نے تو اپنا لیا مگر ہم اپنانے سے قاصر رہے۔ آپؐ مغرب کے لیے رول ماڈل بن گئے مگر ہم نے آپ ؐ کی تعلیمات کو بھلا دیا۔ مغربی مصنف مائیکل ہارٹ نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب The Hundredمیں دنیا کے ان سو عظیم ترین شخصیات کا ذکر کیا ہے جنہوں نے دنیا کی تشکیل میں بڑا کردار ادا کیا۔ اس نے حضورؐ کو سب سے پہلے نمبر پر رکھا ہے۔ مصنف ایک عیسائی ہوکر بھی اپنے دلائل سے یہ ثابت کرتا ہے کہ آپؐ پوری نسل انسانی میں سیّد البشرکہنے کے لائق ہیں۔
تھامس کارلائیل نے 1840ء کے مشہور دروس (لیکچرز) میں کہا کہ ’’میں محمد سے محبت کرتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ آ پ کی طبیعت میں نام و نمود اور ریا کا شائبہ تک نہ تھا۔ ہم انہی صفات کے بدلے میں آپ کی خدمت میں ہدیہ اخلاص پیش کرتے ہیں‘‘۔ فرانس کا شہنشاہ نپولین بوناپارٹ کہتا ہے ’’محمد دراصل سرور اعظم تھے۔ 15سال کے قلیل عرصے میں لوگوں کی کثیر تعداد نے جھوٹے دیوتائوں کی پرستش سے توبہ کرڈالی۔ مٹی کی بنی دیویاں مٹی میں ملا دی گئیں۔ یہ حیرت انگیز کارنامہ تھا آنحضرتؐ کی تعلیم کا‘‘۔ جارج برناڈشا لکھتا ہے ’’موجودہ انسانی مصائب سے نجات ملنے کی واحد صورت یہی ہے کہ محمدؐ اس دنیا کے رہنما بنیں‘‘۔ گاندھی لکھتا ہے کہ ’’بانی اسلام نے اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دی جس نے انسان کو سچائی کا راستہ دکھایا اور برابری کی تعلیم دی۔ میں اسلام کا جتنا مطالعہ کرتا ہوں اتنا مجھے یقین راسخ ہو جاتا ہے کہ یہ مذہب تلوار سے نہیں پھیلا‘‘۔ جرمنی کا مشہور ادیب شاعر اور ڈرامہ نگار ’’گوئٹے‘‘ حضورؐ کا مداح اور عاشق تھا۔ اپنی تخلیق ’’دیوانِ مغربی‘‘میں گوئٹے نے حضور اقدس کی بارگاہ میں جگہ جگہ عشق محمدؐ کا اظہار کیا ہے اور آپؐ کے قدموں میں عقیدت کے پھول نچھاور کئے ہیں۔ فرانس کے محقق ڈی لمرٹائن نے اپنی کتاب ’’تاریخِ ترکی‘‘ میں انسانی عظمت کے لئے جو معیار قائم کیا اس ضمن میں فاضل تاریخ دان لکھتاہے ’’ اگر انسانی عظمت کو ناپنے کے لئے تین شرائط اہم ہیں جن میں (۱) مقصد کی بلندی ، (۲) وسائل کی کمی، (۳) حیرت انگیر نتائج تو اس معیار پر جدید تاریخ کی کون سی شخصیت محمد سے ہمسری کا دعویٰ کرسکتی ہے‘‘۔ فرانسیسی مصنف دی لمرتین لکھتا ہے ’’فلسفی، مبلغ، پیغمبر، قانون ساز، سپاہ سالار، ذہنو ں کا فاتح ، دانائی کے عقائد برپا کرنے والا، بت پرستی سے پاک معاشرہ تشکیل دینے والا۔ بیسیوں ریاستوں کو ایک روحانی سلطنت میں متحد کرنے والا، وہ محمدؐ ہیں، جہاں تک انسانی عظمت کے معیار کا تعلق ہے ہم پوچھ سکتے ہیں کہ ان معیاروں پر پورا اُترنے والے محمد سے بھی کوئی برتر ہو سکتا ہے‘‘۔ ڈاکٹر شیلے پیغمبر آخرالزماںؐ کی ابدیت اور لاثانیت کا اقرار کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’ محمدؐ گزشتہ اور موجودہ لوگوں میں سب سے اکمل اور افضل تھے اور آئندہ ان کا مثال پیدا ہونا محال اور قطعاً غیر ممکن ہے‘‘۔ محسن انسانیت ، رہبر آدمیت، سیّد عرب و عجم، ہادی عالم، حضرت محمدؐ کی ولادت باسعادت اور دنیا میں تشریف آوری ایک ایسا تاریخ ساز لمحہ اور عظیم انقلاب ہے، جس نے کائنات کو ایک نئی جہت، نیا موڑ اور فلاح و کامرانی کا ایک نیا دستور عطا کیا۔اس کے علاوہ ہندو شعراء نے آپؐ کی شان میں قصیدے پڑھے ہیں مثلاََ بقول جگن ناتھ آزاد
سلام اس پر جو آیا رحمت للعالمینؐ بن کر
پیام دوست لے کر صادق و وعدو امیں بن کر
سلام اس پر جو حامی بن کے آیا غم نصیبوں کا
رہا جو بے کسوں کا آسرا مشفق غریبوں کا
مذکورہ بالا وہ فرمودات ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ آپؐ اس کائنات کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں۔آج فی زمانہ دنیا میں جو رسہ کشی ہے اور ایک دوسرے کو غلط ٹھہرانے پر غاصبانہ قبضہ کرنے (خواہ وہ چین کا ارونا چل کے علاقہ میں پانی کے راستہ کا روکنا ہو، یا کشمیر کے علاقوں میں دراندازی، ہند و پاک کے جھگڑے ہوں، ایران اور امریکہ کی چپقلش، اسرائیل کا فلسطینی عوام کو بے دریغ قتل کرنا، افغانستان میں امریکی فوجوں کی اسے تخت و تاراج کرنے کی کوشش یا عراق کو ظالم بتا کر اس کے معدنیات یا قدرتی ذخائر پر قبضہ کرنا، یا پھر تبت کا اپنی آزدی کے لئے جدوجہد کرنا) کی کوشش گویا سبھی اپنے مفاد کی خاطر ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہیں۔ایسے میں حضرت محمدؐ کی تعلیمات میں ان سب کا حل موجود ہے۔ لیکن اس وقت پوری دنیا میں ان کے ذریعہ لائے گئے پیغام کو ایک عجیب سوالیہ نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ اس وجہ سے نہیں کہ لوگوں نے اس کو جانا ہے بلکہ اس وجہ سے کہ میڈیا اور جدید ذرائع ابلاغ نے ان کے خلاف اس قدر پروپیگنڈہ کیا کہ لوگوں کو کبھی ان کے بارے میں پڑھنے اور سمجھنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ حالانکہ نبی کریم محمدؐ محسن انسانیت تھے اوران کا پیغام بھی ابدی تھا آپؐ نے دنیا میں امن کے قیام کے لئے کوشش کی اور فرمایا: ’’تم میں سے جو کوئی اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ امن سے ہو ،اپنے جسم کے اعتبار سے صحت مند ہو۔اس کے پاس ایک دن کا کھانا پانی موجود ہو تو سمجھو اسے ساری دنیا کی دولت حاصل ہو گئی‘‘
اسی طرح ایک اور حدیث میں آپ نے فرمایا: ’’لوگوں کے درمیان قیامت کے دن جس چیز کا سب سے پہلے فیصلہ کیا جائیگا وہ ناحق بہایا گیا خون ہوگا‘‘۔ (بخاری)
اور حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے جو کچھ فرمایا وہ عالمی امن کے منشور کی حیثیت رکھتا ہے آپ کے مطابق: کسی بھی عربی کو عجمی پر، کالے کو گورے پر کوئی امتیاز حاصل نہیں، تمام لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنے ہیں‘‘ یہ خطبہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ مخالفین اسلام کی نگاہ میں بھی انسانیت کی بقا اور عالمی امن و اخوت کی ایک اہم مثال رکھتا ہے اس کی ایک مثال ایچ جی ویلز کا اعتراف ہے۔ ویلز نے رسول محمدؐ کی ازدواجی زندگی پر نہایت رکیک حملہ کئے ہیں، لیکن جہاں تک اس خطبہ کا تعلق ہے اس نے اپنی کتاب ’’اے کنسائز ہسٹری آف دی ورلڈ‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’انسانی حریت، اخوت اور مساوات کے وعظ تو دنیا میں پہلے بھی بہت کہے گئے تھے چنانچہ مسیح ناصری کے یہاں بھی وہ بکثرت موجود ہیں لیکن اس حقیقت کو تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں ہے کہ ان اصولوں پر بالفعل ایک معاشرہ تاریخ انسانی میں پہلی بار محمدؐ نے قائم کیا‘‘۔ عالمی تناظر میں بھی اس وقت عام طور پر جنگ کا مفہوم لوٹ مار، قتل و غارت گری، تباہ کاری کے سوا دنیا نے کچھ نہیں سمجھا اور امن کے نام پر لوگوں نے مزید خونریزی برپا کی مگر نبی اکرمؐ نے اپنی تعلیمات میں فی سبیل اللہ کی قید لگائی اور فرمایا: ’’تلوار اٹھاؤ مگر بدی کے انسداد کے لئے، معاصیت، ظلم و طغیان اور فتنہ و فساد مٹانے کے لئے نیز سر کش لوگوں سے خلق خدا اور معابد و مساجد کی بے حرمتی سے بچانے کے لئے اور جب فتنہ و فساد مٹ جائے تو ہاتھ روک لو حتیٰ کہ عین میدان جنگ میں دشمن صلح کی درخواست کرے تو اسے رد نہ کرو، عورتوں بچوں، گرجوں میں عبادت کرنے والوں اورصو معہ کے راہبوں۔ سن رسیدہ لوگوں ،اپاہجوں بیماروں اور ان لوگوں کو جنھوں نے جنگ میں کوئی حصہ نہیں لیاان کو قتل کرنا کسی بھی حال میں جائز نہ ہو گا۔ غلاموں نوکروں، تیمارداروںاور سفیروں کے ساتھ مداہنت کا رویہ اختیار کرو، دھوکہ دہی اور مقتولین کا مثلہ بنانا ممنوع قرار دیا اسی طرح زندہ جلانا، پھلوں کو خراب کرنا ؛کھیتیوں کو برباد کرنا گھروں کو آگ لگانا ،درختوں کو کاٹنا ؛پانی میں زہر ملانا اس کے علاوہ کوئی نازیبا ہلاکت انگیز کام کرنے سے سختی سے روکا‘‘۔ بہرکیف اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں سب سے زیادہ رحمت اللعالمین حضرت محمدؐ کی محبت پیدا فرمائے، ہمیں اُن کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں نبی کریمؐ کی سیرت و کردار کو اپنا کر دین اسلام کی تبلیغ و ترویج اور معاشرے کی اصلاح کا ذریعہ بنائے (آمین)
٭٭٭٭٭٭
قصّہ جونیجو کی وزارتِ عظمیٰ کا
Mar 26, 2024