امریکہ میں قید پاکستانی عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کا کہنا ہے کہ امریکہ پاکستان سے کچھ چیزیں چاہتا ہے اور ان کے عوض وہ عافیہ صدیقی کو پاکستان لوٹانے کے لیے تیار ہے۔۔۔ اور یقینا وہ چیز سی آئی اے کا ایجنٹ ڈاکٹر شکیل آفریدی ہو سکتا ہے۔امریکہ کو آسیہ مسیح کو لینے سے دلچسپی نہیں کہ وہ اس کے بدلے عافیہ واپس کریں۔ امریکہ اپنے ہیرو شکیل آفریدی کامطالبہ کر رہا ہے۔ پاکستانی حکومت کو عافیہ کی واپسی پر اعتراض نہیں قیدیوں کے تبادلے پر دونوں ملکوں کی ایجنسیوں کو تحفظات لاحق ہیں۔
شکیل آفریدی صوبہ خیبر پختونخوا میں بحیثیت معالج سرکاری ملازم تھا۔ 2011 میں اس نے بطورCIA کارندہ، ایبٹ آباد کے علاقہ میں بقریہ کی مہم چلائی جس کا اصل مقصد اسامہ بن لادن کے خاندان کا ڈی این اے حاصل کرنا تھا۔ جاسوسی کے الزام میں اسے پاکستانی پاسبان نے گرفتار کر لیا۔ امریکا نے اس کی رہائی کے لیے دباو¿ ڈالا۔ مئی 2012کو قبائل علاقہ جات کے منتظم نے آفریدی کو غداری کے ج±رم میں 30 سال قید کی سزا سنائی۔شکیل آفریدی امریکہ کی نظر میں ہیرو جبکہ عافیہ صدیقی دہشت گرد ہے۔ امریکہ شکیل آفریدی کا مطالبہ تو کرتا ہے لیکن عافیہ صدیقی کی پاکستان کو حوالگی سے متعلق خاموش ہے۔ نواز شریف اور اوبامہ دور میں قیدیوں کے تبادلے کی امید نظر آئی تھی مگر عافیہ صدیقی کی فیملی کے بقول نواز شریف نے عافیہ ایشو کو سنجیدہ نہیں لیا۔ لیکن اب عمران خان کی حکومت میں عافیہ کی واپسی کی امید پھر سے جاگ اٹھی ہے۔ عافیہ صدیقی 2 مارچ، 1972 کراچی میں پیدا ہوئی۔ 8 سال کی عمر تک زیمبیا میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد کراچی میں ابتدائی اور ثانوی تعلیم مکمل کی۔ اس کے بعد امریکہ جامعہ ٹیکساس میں کچھ عرصہ رہیں پھر وہاں سے میساچوسٹس ادارہ ٹیکنالوجی (MIT) یونیورسٹی چلی آئیں اور اس ادارہ سے (.Ph.D) کی ڈگری حاصل کی۔ریاست میریلینڈ میں ڈاک وصول کرنے کے لیے ڈاک ڈبہ کرائے پر لیا اور 2003ءمیں کراچی واپس آ گئیں۔ FBI نے شک ظاہر کیا کہ یہ ڈاک ڈبہ دراصل القاعدہ سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کے لیے کرائے پر لیا گیا تھا۔ امریکی ابلاغ میں عافیہ صدیقی کی بطور دہشت گرد تشہیر کی گئی۔ یہ دیکھ کر عافیہ کچھ دیر کراچی میں روپوش ہو گئی۔ 30 مارچ، 2003ءکو اپنے تین بچوں سمیت راولپنڈی جانے کے لیے ٹیکسی میں ہوائی اڈا کی طرف روانہ ہوئی مگر راستے سے غائب ہو گئیں بعد میں خبریں آئیں کہ ان کو امریکنز نے اغوا کر لیا ہے۔ اس وقت ان کی عمر 30 سال تھی اور بڑے بچے کی عمر چار سال اور سب سے چھوٹے کی ایک ماہ۔ مقامی اخباروں میں عافیہ کی گرفتاری کی خبر شائع ہوئی مگر بعد میں مشرف حکومت نے لاعلمی کا اظہار کیا اور ان کی والدہ کو دھمکیاں دی گئیں۔پھر خبر آئی کہ افغانستان میں امریکی جیل بگرام میں قیدی نمبر 650 شاید عافیہ صدیقی ہی ہے جو وہاں بے حد بری حالت میں قید تھی۔ایک برطانوی خاتون صحافی کے اس انکشاف پر اس وقت کی اپوزیشن عمران خان نے پریس کانفرنس میں عافیہ صدیقی کی حقیقت سے پردہ اٹھایا۔پاکستانی اخبارات میں شور مچنے کے بعد امریکیوں نے اچانک اعلان کیا کہ عافیہ کو 27 جولائی 2008ءکو افغانستان سے گرفتار کر کے نیویارک پہنچا دیا گیا ہے تاکہ ان پر دہشت گردی کے حوالہ سے مقدمہ چلایا جا سکے۔ افغانستان میں امریکی فوجیوں نے دوران گرفتاری عافیہ کو گولیوں کا نشانہ بنا کر شدید زخمی کر دیا، تب امریکی فوجی معالجین نے عافیہ کی طبی حالت نازک بتائی ،تاہم امریکیوں نے الزام لگایا کہ عافیہ نے امریکی فوجی کی بندوق اٹھانے کی کوشش کی تھی جس پر انھوں نے اس پر گولیاں چلا دیں۔۔۔یاد رہے کہ عافیہ کا1995میں امجد محمد خان نامی شخص سے نکاح ہوا۔ 1996ء میں ایک لڑکا محمد احمد اور 1998ء میں ایک لڑکی مریم پیدا ہوئی۔ 2002ءمیں امجد خان نے طلاق دے دی۔ اپریل 2010ء میں گیارہ سالہ لڑکی جس کے بارے میں خیال ہے کہ وہ عافیہ کے ساتھ لاپتہ ہونے والی ایک بیٹی ہے کو نامعلوم افراد کراچی میں عافیہ کی بہن فوزیہ صدیقی کے گھر چھوڑ گئے جبکہ بیٹا احمد زرداری حکومت کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے افغانستان سے بازیاب کرایا۔ عافیہ 1990ءسے 2002ءتک امریکہ میں مقیم رہی۔ اس نے وہاں اعلیٰ تعلیم حاصل کی لیکن امریکی ایجنسیوں کے مطابق اس دوران انتہا پسند اسلامی گروہوں کے ساتھ اس کے روابط بڑھے اور اس نے ان کے لئے کام کرنا شروع کر دیا۔ 2003ء سے 2008ء کے درمیان 5 برس غائب رہنے کے بارے میں امریکہ اور عافیہ صدیقی کے اہل خاندان کی کہانی مختلف ہے۔امریکہ کا کہنا ہے کہ عافیہ صدیقی از خود روپوش ہوئی تھی اور اس دوران وہ دہشت گردوں کے لئے کام کرتی رہی۔ گرفتاری کے وقت بھی وہ القاعدہ کے لئے کام کر رہی تھی۔ اس لئے مشکوک حرکات پر اتفاقاً اسے گرفتار کر
لیا گیا۔ اس کے برعکس عافیہ کے خاندان کا کہنا ہے کہ اسے پاکستانی اور امریکی خفیہ ایجنسیوں نے اغوا کیا تھا اور 5 برس تک حبس بے جا میں رکھا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ امریکہ کے نزدیک عافیہ صدیقی کو قید رکھنا اور شکیل آفریدی کو رہا کروانا ایک ہی کہانی کے دو مختلف حصوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ عافیہ کی دردناک کہانی، پاکستان کی تاریخ کی ایک ڈراﺅنی حقیقت ہے۔ سوال یہ نہیں کہ عافیہ صدیقی بےگناہ ہے یا مجرم، سوال یہ ہے کہ وہ پاکستان کی ایک شہری ہے اس کا مقدمہ پاکستان میں چلاناچاہئے تھا۔سوال یہ ہے کہ سابقہ حکومت نے اپنی شہری کو واپس لانے کے لئے مخلصانہ کوششیں ہی نہیں کیں۔ڈاکٹر عافیہ
صدیقی امریکی شہری نہ ہوتے ہوئے بھی امریکہ کی جیل میں پڑی ہوئی ہے۔ فیملی کے بقول عافیہ امریکی گرین کارڈ ہولڈر بھی نہیں ہے۔اس کے پاس پاکستانی پاسپورٹ ہے اسکے باوجود اس کی حوالگی کے لئے امریکہ پر دباﺅ کیوں نہیں ڈالا گیا؟ پاکستان کی سفارتکاری اس بری طرح ناکام کیوں ہو ئی ؟لال مسجد ،جامعہ حفصہ ، عافیہ صدیقی اگر مجرم تھے تو ان کو پاکستان کی عدالتوں میں پیش کیا جاتا۔ان کے خلاف شواہد پیش کئے جاتے۔ان کو معروف طریقہ عدالت کے مطابق مجرم ثابت کیا جاتا مگر ان لوگوں کے ساتھ ”دہشت گردی“ کی گئی ؟ مجرمانہ سلوک کیا گیا؟ اور پھر سیاسی بنیادوں پر ان کی زندگی کے فیصلے کر دیئے گئے؟ یاد رہے کہ 30 مارچ 2003 کے روز عافیہ صدیقی کو اغواءکیا گیا۔ عافیہ کی گمشدگی کے چند روز بعد امریکہ کے چینل NBC پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی القاعدہ سے تعلق کے الزام میں پاکستان سے گرفتاری کی خبر نشر ہوئی مگر پاکستانی ایجنسیوں نے اس خبر کی تردید کر دی۔ پاکستان کے میڈیا نے مشرف حکومت کے وزیر داخلہ فیصل صالح حیات سے اس خبر کی تصدیق چاہی تو انہوں نے بھی لا علمی کا اظہار کر دیا۔ عافیہ کی کہانی میں بے شمار جھول پائے جاتے ہیں جس کا جواب امریکی عدالت کے پاس ہے اور نہ ہی پاکستان کی ایجنسیاں کچھ بتانے کی حیثیت میں ہیں۔ عافیہ پرالقاعدہ کے ساتھ تعلق کی فرد جرم عائد تھی جبکہ مقدمہ اس جرم کی بنیاد پر نہیں چلا یا گیا بلکہ اس پر بگرام جیل میں امریکی فوجیوں پر گولی چلانے کی فرد جرم عائد کی گئی۔گرفتاری کسی اور جرم میں اور سزا کسی اور جرم میں دی گئی۔ فوجی اہلکاروں پر گولی چلانے کی نوبت کیوں کر پیش آئی؟جج برمن کوعافیہ کا بیان تو سنائی دے گیا مگر اس کے خلاف شواہد اکٹھے نہ کر سکے؟ نیویارک عدالت میں سنایا گیا فیصلہ تعصبانہ بنیاد پر مبنی تھا۔ امریکی عدالت نے غیر منصفانہ فیصلہ دیا۔گرفتاری اور اغوا میں فرق ہوتا ہے۔ اغوا ایک سنگین جرم ہے۔عافیہ کو کراچی سے گرفتار نہیں بلکہ اس کے بچوں سمیت اغوا کیا گیا تھا۔ ان تین معصوم بچوں کے اغواکے گھناﺅنے جرم میں ملوث مہذب ملکوں کے خلاف مقدمہ کس عدالت میں چلایا جائے؟عافیہ نے اپنی امریکی وکیل کوبتایا کہ اسے ٹیکسی میں بےہوش کیا گیا تھا اور اس دوران اس کا چھ ماہ کا بچہ اس کی گود سے گر گیا تھا۔ پاکستان نے اپنا سب کچھ امریکہ کے سپرد کر دیاکہ کہیں وہ اسے پتھر کے زمانے میں نہ دھکیل دے لیکن اس کے بدلے میں پاکستان کو کیا ملا؟ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ اس مہذب ملک کی عدالت
نے جو سلوک کیا ہے،وہ کہیں سے بھی ”انسانوں کی عدالت“ معلوم نہیں ہوتی۔مشرف کا دعویٰ ہے کہ اس نے پاکستان کو پتھر کے دور سے جانے سے بچایا لیا مگردردندگی کے منہ سے جانے سے نہ بچا سکا۔۔۔عافیہ نے عمران خان سے رحم کی اپیل کی ہے دیکھیں یہ رحم کہاں تک اثر دکھاتا ہے۔ امریکہ اپنی دہشت گرد اور غدار کو پاکستان کے حوالے کرنے پر آمادہ ہو جائے تو پاکستان بھی اپنے غدار اور جاسوس کو امریکہ کے حوالے کرنے پر راضی ہو سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024