معزز قارئین! خدا پاکستان کی حفاظت کرے لیکن پچھلے چند ماہ سے پاکستان کے متعلق غیر ملکی میڈیا میں کچھ ایسی خبریں گردش کررہی ہیں جنہیں پڑھ کر یا سن کر ہر محب وطن شہری کا خون خشک ہوجاتا ہے۔ابھی تک ہم مشرقی پاکستان کا زخم نہیں بھولے کہ فضا میںایکدفعہ پھر موجودہ پاکستان کے بارے اسی قسم کی خبریں پھیلائی جارہی ہیں۔ اسدفعہ یہ مہم برطانیہ میں شروع کی گئی ہے۔ وہاں ٹیکسیوں، کاروں پر بڑے بڑے اشتہارات لگے ہیں ’’ بلوچستان کو آزاد کرو‘‘ ۔ایسی تحریک خود بخود تو شروع نہیں ہو سکتی یقیناً اس تحریک کی پشت پر کوئی نہ کوئی منظم گروپ کام کررہا ہے اور یہ گروپ ’’ آزاد بلوچستان تحریک ‘‘ ہے ۔لندن کی مختلف شاہراوں اور پبلک ٹرانسپورٹ پر اس قسم کے پاکستان مخالف اشتہارات اور سٹکرز لگانا یقیناً پاکستان دشمنی کے مترادف ہے جبکہ پاکستان برطانیہ کے دوست ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی ہمیں ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ کچھ میڈیا اطلاعات کے مطابق برطانوی انٹلیجنس MI6 افغانستان میں بھی بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کے ساتھ مل کر پاکستان میں دہشتگردی کرانے میں ملوث ہے۔ گو ظاہری طور پر برطانیہ پاکستان سے دوستی کا مظاہرہ کرتا ہے لیکن اسے امریکہ کی طرح ہندوستان سے زیادہ محبت ہے۔
آج سے ایک ماہ پہلے یہ تحریک سوئٹزر لینڈ کے شہر جنیوا میں بھی اسی طرح اچانک شروع ہوئی تھی۔ وہاں بھی پبلک ٹرانسپورٹ اور ٹرانسپورٹ اڈوں پر اسی قسم کے اشتہارات اور سٹکرز لگائے گئے تھے۔ پاکستان کو سوئٹزر لینڈ کے سفیر سے سخت احتجاج کرنا پڑا اور اب کی دفعہ برطانوی ہائی کمشنر سے احتجاج کیا گیا ہے۔ ایسے نظر آتا ہے اس تحریک میں آہستہ آہستہ شدت پیدا کی جارہی ہے اور اب جبکہ امریکہ بھی پاکستان مخالف ہو چکا ہے۔پاکستان کو مستقل دھمکیاں دے رہا ہے تو یقیناً وہ بھی کسی نہ کسی صورت میں اسکا سرپرست بن سکتا ہے کیونکہ کافی سارے امریکی سینیٹرز بھی آزاد بلوچستان کے حق میں ہیں۔ امریکہ سی پیک سے بھی خوش نہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ امریکہ افغانستان میں طویل قیام کا خواہش مند ہے۔ اسکی فوجوں کیلئے اور فوجی سامان کیلئے افغانستان تک سب سے کم اور محفوظ راستہ بلوچستان ہی ہے۔ یہاں یہ سوال بھی سامنے آتا ہے کہ بہت سے باغی بلوچ سردار کافی عرصہ سے یورپ میں رہ رہے ہیں ۔آخر انہیں کون سپورٹ کررہا ہے۔کون فنڈنگ کررہا ہے؟ اطلاعات کے مطابق یہ بھارت ہے جس نے ان لوگوں کو پناہ دی ہے۔ بھارتی شہریت بھی آفر کی ہے اور مختلف باغی سرداروںکو ایک پلیٹ فارم پر لا کر انہیں متحد کیا ہے اور اب اپنی سر پرستی میں یہ تحریک چلا رہا ہے۔بھارت کے اسوقت دو مقاصد ہیں ۔اول پاکستان کو ایٹمی اثاثوں سے محروم کرنا اور دوم پاکستان کو (خدانخواستہ) توڑ کر چار ٹکڑوں میں تقسیم کرنا ۔
آج سے دو ماہ پہلے وزیر داخلہ جناب چوہدری نثار علی خان نے ملکی حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ :’’ ملکی حالات 1970سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔لہٰذا مسلم لیگ ن کو ذاتیات کی بجائے مجموعی مفاد پر فوکس کرنا چاہیے‘‘ چوہدری نثار ایک ذمہ دار محبِ وطن اور زیرک سیاستدان ہیں۔ انکی کہی ہوئی باتوں کو اگنور نہیں کیا جا سکتا ۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ چوہدری صاحب کا اشارہ ہمارے ایٹمی اثاثوں کی طرف ہے کیونکہ بہت سی طاقتیں ہاتھ دھو کر اسکے پیچھے پڑی ہیں۔ جب سے پاکستان ایٹمی طاقت بنا ہے پاکستان ان کیلئے نا قابل برداشت ہے۔ ہمیں ایٹمی اثاثوں سے محروم کرنے کیلئے دو طرح کی منصوبہ بندی کی گئی ہے ۔ایک تو وہ ہے جس کی تفصیل میں نے اپنے 3نومبر کو شائع ہونیوالے کالم میں دی ہے اور دوسری وہ ہے جس سے پردہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اٹھایا تھا۔ انہوں نے دو جر نیلوں کی موجودگی میں کہا تھا کہ :’’ پہلے پاکستان میں کارساز ،آرمی پبلک سکول، راولپنڈی جی ایچ کیو جیسے حملے کرائے جاتے ہیں اور پھر ہنگامی بنیادوں پر سلامتی کونسل کا اجلاس بلا کر یہ واویلا کیا جاتا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے غیر محفوظ ہیں ۔لہٰذا وہاں امن فوج بھیجی جانی چاہیے‘‘۔
دوسری منصوبہ بندی پاکستان کو توڑنے کی ہے۔ بھارتی لیڈرز بمعہ نریندرا مودی کئی بار اسکے متعلق بیان دے چکے ہیں۔ اسکی ابتداء بلوچستان سے کی گئی ہے۔ یورپ میں اشتہار اسی سلسلے کی کڑی ہیں ۔یہ مقصد حاصل کرنے کیلئے دو راستے اختیار کئے گئے ہیں۔ اول پاکستان کو دہشتگردی کے ذریعے عدم استحکام کا شکار کرنا جو اسوقت بلوچستان میں ہو رہا ہے ۔دہشتگرد یہاں تک طاقتور ہو گئے ہیں کہ وہاں کئی دنوں تک اخبارات تک تقسیم نہ ہو سکے۔حکمرانوں سے گزارش ہے کہ حالات کی سنگینی کا ادراک کریں اور بقول چوہدری نثار’’ ذاتی مفادات کی بجائے اجتماعی مفادات پر فوکس کریں‘‘ کیونکہ قومی سلامتی سب سے زیادہ مقدم ہے۔