8خالصتان ریفرنڈم اور گرو گوبندسنگھ کی پیشینگوئی …! 

May 10, 2022

 مئی 2022 کو اٹلی میں خالصتان کیلئے ریفرنڈم ہوا جس میں 40 ہزار سے زائد سکھ مرد و خواتین نے علیحدہ مملکت کے قیام کیلئے حق رائے دہی استعمال کیا۔ اس سے قبل یہ ریفرنڈم 8 مراحل میں برطانیہ میں منعقد ہو چکا ہے جس میں 2 لاکھ سے زائد افراد نے بھارت سے آزادی کے حصول کیلئے ووٹنگ کی۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ خالصتانی کے حامیوں نے 8 مئی کو ہی بھارتی صوبے ہماچل پردیش میں قانون ساز اسمبلی کے دروازے پر خالصتانی پوسٹر آویزاں کر دیئے جس پر سکھوں کیلئے علیحدہ خطے کے قیام کا مطالبہ درج تھا۔ اس ساری صورتحال پر قابو پانے کیلئے دہلی سرکار بھی متحرک ہو گئی ہے اور 10 دنوں میں اس نے سکھ حقوق کیلئے سرگرم تنظیم ببر خالصہ ( جسے بھارت و دیگر بعض ممالک نے کالعدم قرار دے رکھا ہے) کے 5 کارکنان کی گرفتاری کا دعویٰ کیا ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ دہلی بی جے پی کے ترجمان جتندر پال سنگھ بگا نے عام آدمی پارٹی کے سربراہ اور دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال کو خالصتان کا حامی قرار دیتے کہا کہ وہ دہلی ، ہریانہ اور پنجاب کو ملا کر ایک علیحدہ مملکت کے قیام کے خواہشمند ہیں ۔ ان کے اس بیان پر ہندوستانی داخلی سیاست میں ایک بھونچال آیا اور پنجاب پولیس نے دہلی سے جا کر انھیں گرفتار کیا،  پولیس انھیں لے کر واپس آ رہی تھی کہ ہریانہ سرکار نے کروکشیتر کے مقام پر کانوائے کو روکا اور جتندر بگا کو پنجاب پولیس سے چھڑا کر واپس دہلی پہنچا دیا۔ صرف یہی نہیں دہلی پولیس نے پنجاب پولیس کیخلاف اغوا سمیت دو مقدمات بھی درج کر لئے ہیں۔ یوں بھارتی پنجاب، دہلی اور ہریانہ میں سیاسی حرارت ہر آنے والے دن کیساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق سکھ دانشور اس امر کا بر ملا اظہار کر تے آئے ہیں کہ بھارت کی آزادی کے تھوڑے عرصے بعد ہی سکھ خواص و عوام کو احساس ہونا شروع ہو گیا تھا کہ انھوں نے کانگرسی رہنمائوں کی باتوںکے بہکائوے میں اگر چہ ہندوستان میں شمولیت تو اختیار لی مگر سکھ قوم کا مستقبل کسی بھی حوالے سے بھارت میں محفوظ نہیں  لہذا انھوں نے مختلف سطحوں پر پہلے الگ پنجابی صوبے کے قیام اور بعد میں بھارت سے آزادی کی تحریک شروع کر دی اور یہ تحریک کسی فرد واحد یا گروہ کی جانب سے نہیں بلکہ سکھوں کی واحد نمائندہ تنظیم ’’ گرودوارا پربندھک کمیٹی ‘‘ اور اس کے سیاسی ونگ ’’ اکالی دل ‘‘ کے زیر سایہ شروع ہوئی ۔ البتہ اس کے بعد مشرقی پنجاب میں ہندوئوں کے آلہ کار پولیس چیف ’’ کنور پال سنگھ گل ‘‘ کے ہاتھوں بے گناہ سکھوں کو ختم کرنے کے بعد بھارت کی ہندو قیادت نے بظاہر اطمینان کا سانس لیا تھا اور یہ سمجھ لیا گیا کہ ہندو بربریت کی بنیاد پر سکھوں کی مذہبی ، معاشرتی اور سیاسی زندگی کو افراتفری کے ایسے محیب غار میں دھکیلا جا چکا ہے جہاں سے اب کوئی حریت پسند تحریک بر آمد نہیں ہو گی ۔ مگر کچھ عرصہ قبل ’’ سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ ‘‘ کے جنم دن کی تقریبات میں جس پیمانے پر سکھ نوجوانوں نے شرکت کی اور بھنڈرانوالہ کو ’’ سن آف دی سینچری ‘‘ قرار دیا ، اس نے بھارتی حکمرانوں کی نیندیں حرام کر دیں ۔ جس سے بوکھلا کر RSS کے سابقہ چیف ’’ سُو درشن ‘‘ اور حالیہ سربراہ ’’ موہن بھاگوت ‘‘ نے برملا کہا کہ ہندوئوں اور غیر ہندوئوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی اس امر کی غماز ہے کہ ہندوئوں اور دیگر تمام بھارتی اقلیتوں کے مابین ’’ مہا بھارت ‘‘ نا گزیر ہو چکی ہے اور اس مہا بھارت میں مسلمانوں ، سکھوں ِ، عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کا کچلا جانا تقریباً طے شدہ ہے ۔
مبصرین کی رائے میں سکھ سیاست جس نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے وہاں کسی نئے بھنڈرانوالہ کا ظہور ہو سکتا ہے ۔ بعض حلقوں میں ’’ سمرن جیت سنگھ مان ‘‘ اور ’’ بھائی پورن سنگھ ‘‘ کو مستقبل کا بھنڈرانوالہ قرار دیا جاتا ہے ۔ اکثر سکھ دانشور اس امر کا کھلے عام اظہار کرتے آئے ہیں کہ جون 1984 میں بھارتی حکومت نے اندرا گاندھی کی زیر قیادت جس طرح دربار صاحب امرتسر کا تقدس پا مال کیا تھا اس ضمن میں سکھ دھرم کے دسویں اور آخری گرو ’’ گوبند سنگھ ‘‘ تقریباً سوا چار سو سال پہلے پیش گوئی کر گئے تھے ۔ قارین کی دلچسپی اور معلومات کے لئے مذکورہ پیش گوئی کا تذکرہ یہاں بے محل نہیں ہو گا ۔ یہ پیش گوئی سکھ عوام میں زبان زدِ عام ہے ۔ روایت کے مطابق’’ گرو گوبند سنگھ ‘‘ فرمایا کرتے تھے کہ ’’ سکھ پنتھ اور قوم پر مصیبت کا ایسا وقت آئے گا جب در بار صاحب امرتسر کا مقدس تالاب سکھوں کے خون سے اتنا تر بتر ہو گا کہ گھوڑے کے سم اس لہو میں ڈوب جائیں گے ۔ اس وقت ایک تریا ( چالاک عورت (غالباً اندرا گاندھی) کا راج ہو گا لیکن یہ آزمائش سکھوں کیلئے وقتی ہو گی ۔ حتمی اور فیصلہ کن مستقبل سکھوں کا ہی ہو گا  ۔ تب پڑوس کے توحید پرست( مسلمان ) مذہبی سکھوں کی مدد کریں گے اور نتیجتاً خالصہ راج دہلی میں قائم ہو جائے گا ‘‘ ۔ گرو گوبند سکھ کی اس پیشین گوئی کے اصل الفاظ درج ذیل ہیں ۔ ’’ جن کے کارن پنتھ کا ہو پرکاش اوٹ تھکاون جائیں گے سنگھ انہاں کے پاس ورپ ملک کی  مان کے کھاویں گے ۔ آپ تب کروپ ہوے پرماتما، آپ جھگڑا چلے ہرمندر ( در بار صاحب ) میں آن تبھی ایک خالصہ پرگٹ ہوے ، قلعہ بنا دے ہر مندر صاحب کو آن راج چلیسی تریا کا ،فوج چڑھے ہر مندر میں آن اتنا خون بہاوے ، گھوڑے کا کھر خون میں بھج جاوے ، ماجھا، مالوہ ، دوابہ بس دکھی ہون دیہات تبھی خالصہ ’’ اٹاری ‘‘ میں سے چڑھ آوے ، امرتسر پہنچ اتنا خون بہاوے، ڈھائی  لاکھ خالصہ شہید ہووے سترہ لاکھ ہندو مر جاوے تبھی ، روس ، چین ہند میں چڑھ آوے، تبھی تخت دہلی پر بہہ جاوے گرو کی فوج ، بڑی کرے گی موج ۔ ننگا بھوکا کوئی نہ رہوے ، لنگر گرو کا کھاوے ، واہ گروہ جی کا خالصہ ، واہ گرو جی کی فتح ‘‘ گورو گوبندھ سنگھ کی پیشین گوئی کا پہلا حصہ تو غالباً پورا ہو چکا ، ہندئوں کے ہاتھوں ہزاروں سکھوں نے جان دے کر گویا ان کے ساتھ’’ خونی رشتہ ‘‘ تو قائم کر ہی لیا ہے ، اب بھائی رنجیت سنگھ ، سمرن جیت سنگھ مان ، گیانی پورن سنگھ ، یا کسی دوسرے کی زیر قیادت ہندوئوں اور سکھوں کے مابین قائم ہوا یہ نیا ’’ خونی رشتہ ‘‘ کیا رنگ لاتا ہے ۔ اس کا صحیح فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا مگر یہ تقریباً طے ہے کہ بھارت سرکار اور سکھوں کے مابین پھر نیا محاذ کھلنے والا ہے ۔ یہ اندازے اور پیش گوئیاں کہاں تک صحیح یا غلط ثابت ہوں گی ، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔ 

مزیدخبریں