منگل، 8 شوال 1443ھ‘ 10 مئی 2022ء

وزیر اعظم کا کپڑے بیچ کر خیبر پی کے میں آٹا سستا کرنے کا بیان
معلوم نہیں میاں شہباز شریف نے جذبات کی رو میں بہہ کر یہ جملے کہے یا یہ صرف گرمی گفتار کا ایک انداز تھا۔ مگر اس جملے کی بازگشت پورے ملک میں گونج رہی ہے۔ کچھ جی حضوری کرنے والے واہ واہ کر رہے ہیں کچھ مخالف ٹھٹھہ مار رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے اگر یہ کہا ہوتا کہ اپنی یا امرا کی ملیں فروخت کر کے، غیر قانونی الاٹ شدہ اراضی فروخت کرکے خیبر پی کے میں سستے آٹے کی فراہمی یقینی بنائوں گا تو لوگ جی جان سے ان کی یہ بات تسلیم کرتے اور اس پر خوش ہوتے۔ مگر یہ تقریری جذبات اور ہلہ گلہ والی کیفیت سے اب عوام بھی متاثر نہیں ہوتے۔
وقتی مزہ اپنی جگہ، اصل حقائق اپنی جگہ، ورنہ سب جانتے ہیں کہ وزیراعظم کے کپڑوں کی قیمت اگر بہت بھی لگی چند لاکھ ہی لگے گی۔ ویسے بھی سیکنڈ ہینڈ ہونے کی وجہ سے پوری قیمت کوئی نہیں دیتا۔
یہاں میراڈونا جیسے فٹبال کے پرستار موجود نہیں جن کی شرٹ اربوں روپوں میں خریدی گئی۔ بہرحال اب پنجاب کی طرف سے خیبر پی کے میں وزیر اعظم کے حکم سے آٹے کی فراہمی تیز کر دی گئی ہے۔ امید ہے کپڑے فروخت کرنے کی نوبت آنے سے قبل ہی خیبر پی کے میں آٹے کے ریٹ پنجاب کے برابر آ جائیں گے۔ ویسے ان سب مسائل کا حل سب جانتے ہیں صرف اور صرف سمگلنگ روکنا ہے۔ اگر یہ بند ہو جائے تو آٹا، چاول ، چینی ، گھی ، گوشت اور برائلر کی قیمتوں میں خود بخود استحکام آ جائے گا۔ مگر یہ کام کرے کون؟ مفت کی آمدنی کسے بری لگتی ہے۔
٭٭٭٭
عمران خان کے سازشی بیانیے کی تمہید طولانی
شاعر نے کیا خوب کہا تھا ’’تمنا مختصر سی ہے مگر تمہید طولانی ‘‘ یہی صورتحال اس وقت عمران خان کو درپیش ہے۔ وہ اپنے خلاف ہونے والے سازشی بیانیے کے حوالے سے لگتا ہے خود بھی کنفیوژن کا شکار ہیں۔ انہیں ابھی تک اس بارے میں حتمی رائے دیتے ہوئے مشکل پیش آ رہی ہے۔
ان کے خلاف سازش کب شروع ہوئی کہاں اس کے تانے بانے بُنے گئے۔ کون کون اس میں شریک تھا۔ وہ اس حوالے سے بار بار اپنے بیانات بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں مجھے جولائی سے سازش کا علم تھا۔ کبھی نومبر تو کبھی مارچ میں۔ کبھی اس سازش کو اداروں کی کارستانی قرار دیتے ہیں۔ مگر پھر ردعمل کے خوف سے بیانیہ تبدیل کر کے اسے عالمی سازش قرار دیتے ہیں۔ ساری باتوں کی تان اس پر ٹوٹتی ہے کہ امریکہ ان کی آزادانہ خارجہ اور ملکی پالیسیوں سے تنگ آ گیا اور اس نے یہ سازش رچائی ہے۔ مگر اس کا بھی انہیں پہلے سے علم تھا۔ اگر ایسا ہے تو خاموش کیوں رہے۔
٭٭٭٭
برائلر کا گوشت 500 روپے تک پہنچ گیا
بے شک پنجاب میں نہ سہی سندھ اور بلوچستان میں تو برائلر کو ایسے پر لگ گئے ہیں کہ لوگ اس کی قیمت سن کر کانوں کو ہاتھ لگاتے نظر آتے ہیں۔ پنجاب اور خیبر پی کے میں بھی ستے خیراں نہیں۔ یہاں بھی مرغی کا گوشت 450سے نیچے نہیں آتا۔ مخالفین پراپیگنڈا کرتے پھر رہے ہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا اپنا پولٹری کا کاروبار ہے تو اب وہ دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹ کر منافع کما رہے ہیں۔ دروغ برگردن راوی۔
ہم تو سنی سنائی بات بتا رہے ہیں۔ اب اگر حکومت سے برائلر گوشت کی قیمت کنٹرول نہیں ہو رہی تو عوام خود ہی اس حوالے سے ایکشن لیں اور برائلر کے پر کتر کر اس کی پرواز روک لیں۔ ورنہ برائلر کا تذکرہ بھی دستر خوانوں پر صرف چسکے کے لیے ہو گا اور لوگ بکرے اور گائے کے گوشت کی طرح ایک دن برائلر کا ذائقہ بھی بھول جائیں گے۔ وہ برا وقت آنے سے پہلے ہی بہتر ہے لوگ از خود برائلر کا بائیکاٹ کر دیں۔
اس وقت گرمی کا موسم ہے زیادہ دیربرائلر مرغیاں فارمز میں رکھی نہیں جا سکتیں ‘ان میں بیماری پھیل جاتی ہے یا ازخود ہی فوت ہو جاتی ہیں۔ جس تیزی سے ان کا وجود بڑا ہوتا ہے‘ اسی تیزی سے انکے مرنے کے چانسز بھی بڑھ جاتے ہیں۔ یوں منافع خور فارم مالکان اور دکانداروں کو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔
مرغی کی قیمت میں کمی کا واحد کارآمد فارمولا یہی ہے کہ اس کا استعمال کچھ عرصے کے لیے بند کر دیا جائے۔ جس طرح بدتمیزی و غنڈہ گردی کے بعد سیاحوں نے ایک سال مری کی سیاحت کا بائیکاٹ کر دیا تھا اور انکی عقل ٹھکانے آگئی۔
٭٭٭٭
پاکستان کی طرف سے افغان سیلاب متاثرین کے لیے سامان مزار شریف پہنچ گیا
بارش اورسیلاب نے افغانستان میں جو تباہی پھیلائی ہے۔ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان نے حسب سابق نہایت فراخدلی سے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امدادی سامان پہنچانے کی کارروائیاں شروع کردی ہیں۔ امدادی سامان ہوائی جہاز کے ذریعے مزار شریف پہنچا دیاگیا ہے۔
اُمید ہے حکومت یہ سلسلہ جاری رکھے گی تاکہ ہمارے افغان بھائیوں کو ریلیف مل سکے۔ بدقسمتی سے اس وقت موسمی حالات بھی سیاسی حالات کی طرح افغان عوام کے لیے آزمائش کا سبب بن رہے ہیں۔ خدا خدا کر کے طالبان کی حکومت مستحکم ہوئی، مگر ان کی پالیسیوں کی وجہ سے بہت سے طبقات زندگی پریشان ہیں۔ شمالی اتحاد کے علاقوں میں بھی حکومت کے خلاف محاذ گرم ہونے کی اطلاعات ہیں۔
اس کے علاوہ گزشتہ برس سے ناساز گار موسم بھی الگ قیامت ڈھا رہا ہے۔ طویل خشک سالی، بارش کی قلت آبی ذخائر میں کمی نے غریب عوام کو بھوک و ننگ میں مبتلا کر دیا ہے۔ لوگ اپنے گھر کا سامان اور بچے فروخت کرکے زندگی کی گاڑی کو دھکیل رہے ہیں۔ ان صبرآزما حالات میں اب اچانک شدید بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے غریبوں کی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔
حکومت پاکستان نے افغان حکومت کی بہت سی تلخ باتوں کے باوجود جس طرح افغان بھائیوں کا اس مشکل گھڑی میں ساتھ دیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ مسلمان جہاں بھی ہیں‘ وہ جسد واحد کی طرح ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنے بھائیوں کا ہر مشکل گھڑی میں ساتھ دینا چاہئے۔ کبھی نہ کبھی تو ان کے دل بھی نرم ہو جائیں گے۔