ملک و قوم کے تحفظ کیلئے پاک فوج میں جاری شہادتوں کا سلسلہ !
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب مغربی سرحد سے پاک فوج کے جوانوں پر بلااشتعال فائرنگ کی گئی ہو۔اس کا سلسلہ 1973سے جاری ہے ،جس میں کبھی کمی تو کبھی تیزی آتی رہی ۔ افغانستان کی طرف سے پاکستان دشمنی کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے ۔ جتنی پاکستان کی عمر ہے۔ گزشتہ سات دہائیوں پر مشتمل طویل عرصے میں افغانستان میں پنپنے والی سازشوں کا علم رکھنے کے باوجود پاکستان نے ہمیشہ افغان بھائیوں کیلئے خیر سگالی کا اظہار کیا ہے ۔لیکن ان تمام کوششوں کا جواب پاکستان کو ہمیشہ نفرت و دشمنی کی صورت میں ملا ۔ جس کا بنیادی سبب افغانستان میںماضی کے کیمونسٹوںو سرخوں کے مضبوط دھڑے کی موجودگی ہے۔ جو اپنے حقیقی آقا سویت یونین کی موت کے بعد قبلہ تبدیل کرکے اسی سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرست امریکہ کی گود میں جا بیٹھے جس کے خلاف سوشلسٹ تحریک کے نام پر انہوں نے پہلے تو پاکستان کے قیام کو قبول کرنے سے انکار کیابعد ازاں پاکستان کی سلامتی کے خلاف عملی کوششوں میں جت گئے۔ بلوچستان کی علیحدگی سے لے کر صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخواہ)و قبائلی علاقوں کو افغانستان میں شامل کر کے گریٹر پختونستان کا قیام ان کا ہدف اور تحریک کا مقصدرہا۔ ان کے اس بھیانک منصوبے کو بھارت کی مدد تقسیم ہندکے وقت سے جاری تھی۔ اس مقصد کیلئے سویت خفیہ ادارے KGB، افغان خاد اور بھارتی را نے ایک طرف بلوچستان میں دہشت گردی پر مبنی کاروائیوں کو فروغ دیا تو ساتھ ہی پاکستان کے طول وعرض میں ریموٹ کنٹرول و ٹائم بم دھماکوں کے ذریعے معصوم پاکستانی شہریوں کو نشانہ بنایا گیا ، وجہ پاکستان کو توڑنا تھا ۔ سوشلسٹ و کمیونسٹ ریاست کے قیام کیلئے بلوچستان میں بھارتی اسلحہ کے ساتھ پاک فوج کے خلاف لڑنے والے بہت سے ہمارے ہم وطن ماضی کے سرخے آج بھی پاکستان کے اندر معزز شہریوں کے طور پر پہچانے جاتے ہیں، ان میںسے بعض تونامور دانشور ہیں جن کا کام اپنے تبصروں و تجزیوں کے ذریعے پاک فوج کے خلاف نفرت پھیلانا ہے۔ اس کاروائی کو وہ آزادی اظہار کے نام پر اپنا دیرینہ حق سمجھتے ہیں کہ جومقصد وہ پاکستان کے خلاف بندوق کے ذریعے حاصل نہ کر سکے اسے پاکستانی عوام کو اپنی مسلح افواج سے بدزن کر کے حاصل کیا جائے ۔
1979میں سویت سرخ افواج کو افغانستان پر قبضے کی دعوت پاک فوج یا پاکستان کی حکومت نے نہیں دی تھی۔ یہ افغانستان میں برسراقتدار سویت یونین نواز سرخے ہی تھے جنہوں نے صرف اپنے مذموم مقاصد یعنی مسلمان آبادی پر مشتمل مملکت خدادادافغانستا ن کو ملحہ ریاست میں بدلنے جیسے ناپاک منصوبے کو ناکامی سے دوچار ہوتا دیکھ کر اپنی پوری قوم کو سویت یونین کا غلام بنانے کیلئے ماسکو کو اپنا کندھا فراہم کیا ۔ کیونکہ ان کے منصوبوں کے خلاف افغانستان میں جاری مزاحمت دن بدن زور پکڑ تی جارہی تھی ۔ جس پر قابو پانا برسراقتدار افغان کیمونسٹوںکیلئے مشکل ہوتا جارہا تھا۔ سرخ فوج کے خلاف افغانستان میں مزاحمت افغان مزاج کے عین مطابق تھی جسے پاکستان میں خود کو کامریڈ ثابت کرنے کے خبط میں مبتلا قلم کے شیروں نے سمجھنے میں غلطی کی ۔ انہیں ادراک ہونا چاہیے تھا کہ اگر ایک طرف سویت یونین تاریخ رکھتا تھا کہ اس کی سرخ فوج جس ریاست میں داخل ہوئی وہاں سے واپس نہیں گئی تو دوسری طرف افغان قوم نے بھی بندوق کے خوف سے غلامی قبول کرنے کی بجائے ہمیشہ مرنے کو ترجیح دی اور افغانستان کو بیرونی حملہ آوروں قبرستان میں بدلنے کی تاریخ رقم کی ۔ یہی کچھ ان افغانیوں نے سویت سرخ افواج کے ساتھ کیا جو ظاہر شاہ کے زمانے سے افغانستان کی اسلامی شناخت تبدیل کرنے کے خلاف نہ صرف زبانی کلامی سراپا احتجاج تھے بلکہ اپنی جان تک قربان کرنے کو تیار تھے۔
سویت افواج کے خلاف گوریلہ جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی پاکستانی قبائلی علاقوں میں افغان مہاجرین کی آمد شروع ہوچکی تھی ۔ پاک افغان پیچیدہ پہاڑوں و پر بیچ دروں پر مشتمل سرحد پر پاکستان کی طرف سے کوئی ایسا بندوبست نہیںتھا جس سے آزادانہ آمدو رفت کو روکا جاسکتا ۔ اس کی ضرورت بھی نہیں تھی کیونکہ بہت سے قبائل سرحد کے دونوں طرف آباد تھے۔ ان میں رشتے داریاں بھی تھیں اور مشترکہ کاروبار بھی ۔ سویت سرخ افواج کے خلاف افغان مجاہدین کی مدد پاکستان نہ بھی کرتا توبھی انہوں نے اپنے وطن کو سویت فوج کیلئے جہنم بنانا ہی تھا۔اس فرق کے ساتھ کہ سویت شکست خردہ فوج جو 10برسوں بعد وہاں سے رسوا ہوکر نکلی وہ مزید 10سال وہاں لڑتی رہتی لیکن شکست بر حال اس کا مقدر تھی ۔ سرخ فوج کے انخلاء کے بعدا فغانستان میں پھوٹ پڑنے والی خانہ جنگی اپنی الگ ایک تاریخ رکھتی ہے جو آخر کار افغان طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد انجام کو پہنچی ۔اس کے بعد پاکستان کے کامریڈ ہوں یا افغانستان کے سرخے انہوںنے اپنی وفاداری کا رخ امریکہ و مغربی دنیا کی طرف پھیرلیا لیکن پاک فوج سے نفرت اور اس کے خلاف بغض کا اظہار ماضی کی طرح ان کا اولین مقصدرہا کیونکہ یہ خطے میں بھارت کی ضرورت تھی ۔ اس کے بعد نائن الیون دہشت گردی کی آڑ میں امریکہ اپنے مغربی اتحادی ممالک کے ہمراہ افغانستان پر قابض ہوا تو بھارت کے وارے نیارے ہوگئے۔ بھارت نے کمال ہوشیاری سے امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو پاکستان کی سلامتی کے خلاف جنگ میں بدل کر پاکستان پرخود کش دھماکوں کا طوفان برپا کردیا۔ جسے پاک فوج کے بہادر افسران و جوانوں نے اپنی جانوں کی قربانی دے کر ناکام بنایا اورآئندہ کیلئے پاکستان کی مغربی سرحد کو محفوظ بنانے کیلئے پاک فوج نے ملک کی پوری مغربی سرحدپرخاردار باڑ کی تنصیب کا فیصلہ کیا تاکہ دہشت گردوں کی آمد کو روکا جاسکے۔
لیکن یہ فیصلہ پاکستان دشمنوں کو پسند نہیں آیا اس کے خلاف پاکستان میں بھی مخصوص عناصر نے اعتراضات اٹھائے اور افغانستان کی طرف سے کبھی افغان فوج تو کبھی ان کے زیر سرپرستی وہاں موجودبھارتی تربیت یافتہ دہشت گردوں نے پاک
افغان سرحد پر خاردار باڑ کی تنصیب میں مصروف پاک فوج کے جوانوں پر گولیاں برسائیں ۔ سرحد پار افغانستان سے ایسی ہی ایک کاروائی 15اپریل 2021 کو ضلع ژوب کے مانر کی سیکٹر پر پاکستانی حدود کے اندر خار دار باڑکی تنصیب میں مصروف ایف سی کے جوانوں پر بلااشتعال فائرنگ کی صورت میں عمل میں لائی گئی ۔ دہشت گردوں کی طرف سے کی گئی فائرنگ کے نتیجے میں 4جوان حوالدار زمان ، سپاہی شکیل عباسی ، سپاہی احسان اللہ اور نائیک سلطان شہید ہوگئے ۔ جبکہ 6جوان زخمی بھی ہوئے ۔ اسی طرح 5 اپریل کو ہی شمالی وزیرستان کے علاقے دو سلی میں دہشت گردوں کی موجوگی کے حوالے سے خفیہ اطلاعات پر پاک فوج کے آپریشن کے دوران دہشت گردوں کے ساتھ مقابلے میں کیپٹن فہیم ، سپاہی شفیع اور سپاہی نسیم نے جام شہادت نوش کیا ۔ اس آپریشن میں2دہشت گرد بھی مارے گئے۔ یوں ایک ہی دن میں وطن کے 7بیٹے دھرتی ماں پر نچھاور ہوگئے۔ لیکن افسوس ہمارے تمام نجی ٹیلی ویژن چینلوں نے آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری کی گئی خبر تو نشر کر دی لیکن ان سب کیلئے اہمیت سیاستدانوں کو بٹھا کر ایک دوسرا کو نیچا دکھانے اور ناظرین کو حسب معمول مایوسی کے اندھیرے میں دھکیلنے تک محدود رہی۔ شاید ان کیلئے شہید ہونے والے پاک فوج کے افسران و جوانوں کے والدین کے احساسات سے زیادہ دن رات ایک دوسرے کو برابھلا کہنے والے معزز سیاستدانوں کے جذبات کی اہمیت زیادہ ہے۔