پی آر کی پکار
کہا جاتا ہے کہ ایک طاقتور خوردبین ایک بٹیر کو جیٹ ہوائی جہازکے برابر بڑا کر کے دکھا سکتی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ایک ماہر پی آر او (افسر تعلقات عامہ) اپنے باس کو پورے ہوائی اڈے کی وسعت دے سکتا ہے لیکن اتنی بڑائی حاصل کرنے کے بعد باس کا کیا ہوتا ہے، ملاحظہ فرمائیے۔
ایک امریکی ایکٹریس سے اس کی ساتھی ایکٹریس نے پوچھا’’تمہارا نیا پی آر او کیسا ہے؟‘‘ ’’زبردست‘‘ اس نے جواب دیا ’’جب سے وہ میری ملازمت میں آیا ہے میرے گھر میں دو ڈاکے پڑ چکے ہیں، ایک بار آگ لگ چکی ہے، میری تین گاڑیاں اسلحے کے زور پر چھینی جا چکی ہیںاور ممکن ہے عنقریب میں خود بھی اغوا برائے تاوان کا کیس بن جائوں۔‘‘
پی آر او باس کو چڑھاتے وقت اس بات کا خیال نہیں رکھتا کہ زیادہ بلندی پر چڑھ جانے والا اتنی ہی زیادہ بلندی سے نیچے گرتا ہے۔ پی آر او کی تمام محنت اور صلاحیت اس بزرگانہ نصیحت کی نفی کرنے میں صرف ہوتی ہے کہ ع اب اس قدر بھی نمایاں نہ ہر خبر میں رہو۔حسن اتفاق، سوئے اتفاق یا محض اتفاق سے ہمیں ایک نیم سرکاری ادارے میں اپنی طویل سروس کے دوران لگ بھگ پندرہ سال بحیثیت ڈائریکٹر تعلقات عامہ کام کرنے کا موقع ملا جس کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ پی آر او کا قلم اور زبان اس کے باس کے پاس گروی ہوتے ہیں۔ وہ بسوں میں لکھے ہوئے اس شعر پر حرف بہ حرف عمل کرتا ہے ؎
مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے
لطف کی بات یہ ہے کہ دانہ تو خاک میں مل کر بہر حال گل و گلزار ہوجاتا ہے ، پی آر او بچارہ ذلیل و خوار ہی ہوتا ہے۔ اپنے ذاتی قلم سے باس کے نام پر مضامین، پیغامات، رپورٹیں، کتابچے اور کبھی کبھار پوری پوری کتابیں لکھنا پی آر او کے ’’فرائضِ منقبتی‘‘ میں شامل ہے۔ پھر باس تقریبات میں جو تقریریں کرتا ہے اور ان تقریروں میں ’’میرے خیال میں‘‘ اور ’’میرے نزدیک‘‘ کی تکرار کے ساتھ جو بقراطیت بگھارتا ہے اس کے پیچھے پی آر او کی دانش بول رہی ہوتی ہے اور پی آر او سن سن کر کَھول رہا ہوتا ہے۔وہ روزی اسی کَھولنے کی کماتا ہے۔دوسری طرف باس پر سلیم کوثر کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ ؎
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سرِ آئینہ مرا عکس ہے پسِ آئینہ کوئی اور ہے
ایک مرتبہ ہمارے باس کو جو ایک ریٹائرڈ فوجی تھے ادارے کی خدمات کے بارے میں ایک ریڈیو پریس کانفرنس سے خطاب کرنا تھا جس کا اہتمام ہماری کوششوں سے ہوا تھا(کیونکہ باس کے پاس ہمارا پروموشن کا کیس پڑا ہوا تھا)۔ ریڈیو پریس کانفرنس کا طریقہ کار یہ طے ہوا کہ پہلے مہمان مقرر اپنے ادارے (اور اس سے زیادہ خود اپنی)کارکردگی کے گن گائیں گے ۔ پھر اسٹوڈیو زمیں موجود صحافی اُن سے ادارے کے بارے میں سوال کریں گے۔ ہم نے پہلا حصہ باس کو لکھ کر دے دیا جس میںیہ ثابت کیا گیا تھا کہ ادارے میں ہر اچھے کام کا آغاز اور ہر برے کام کا اختتام موصوف ہی کے مبارک ہاتھوں ہوا۔ (اللہ معاف کرے یہ جھوٹ ہم نے مکمل اعتماد کے ساتھ سالہا سال بولا۔)باس نے تقریر کی خوب تیاری کر لی لیکن انہیں سوالوں کی فکر کھائے جا رہی تھی۔اب آپ تو جانتے ہیں، وہ پی آر او ہی کیا جو اپنے باس کو مصیبت سے نہ نکال سکے۔ یہاں ہمیں ایک نواب صاحب کے باکمال پی آر او یاد آ رہے ہیں۔نواب صاحب خاندانی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے مصاحبین کے سامنے اپنے ناکردہ کارنامے بیان کرتے اور پی آر او انہیں درست ثابت کردیتا۔ایک مرتبہ نواب صاحب جھوٹ کی تمام حدود و قیود پھلانگ گئے اور پی آر او کو اپنی نوکری خطرے میں نظر آنے لگی۔فرمایا’’ابھی گذشتہ ماہ ہم شکار پر گئے اور ایک دوڑتے ہوئے ہرن کے پیچھے اپنا گھوڑا ڈال دیا۔ لمحے بھر کے لیے تو وہ جھاڑیوں میں کھو گیا لیکن پھرشاید اس کی موت اسے ہمارے عین سامنے لے آئی۔لو جناب، ہم نے نشانہ تاک کر فیر کھول دیا۔ گولی اس کے کُھر میں لگی اور بھیجے کو پھاڑتی ہوئی باہر نکل گئی۔ہرن وہیں ڈھیر ہو گیا۔‘‘ محفل میں سب سر جھکائے بیٹھے تھے لیکن ایک منطقی قسم کے چمچے سے اتنا بڑا جھوٹ ہضم نہ ہوا۔اس نے دست بستہ عرض کیا’’قبلہ نواب صاحب، ذرا یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ گولی نے کُھر سے سر تک کا سفر کس طرح طے کیا؟‘‘ نواب صاحب نے ایک بوکھلائی ہوئی نگاہ پی آر او پر ڈالی۔ ایک سیکنڈ کے لیے تو وہ بھی چکرا گیا لیکن پھر فوراً ہی پورے اعتماد کے ساتھ بولا’’ بالکل ایسا ہی ہوا تھا۔ میں اس شکار میں نواب صاحب کے ساتھ تھا۔دراصل جس وقت اعلیٰ حضرت نے گولی چلائی ، ہرن کُھر سے اپنا سر کھجا رہا تھا۔بس گولی کُھر پر لگی اور سر کے باہر آگئی۔‘‘
یہ نواب صاحب اور ان کا حاضر دماغ پی آر او تو یونہی درمیان میں آگئے۔ ہم اپنے باس کی ریڈیو پریس کانفرنس کا ذکر کر رہے تھے۔ باس کو سوالات کی فکر تھی۔ اب چونکہ اس آزمائش میں ہم ہی نے انہیں ڈالا تھالہٰذا اس سے نکالنے کا ہم نے پہلے سے انتظام کر لیا تھا۔ ہم نے یہ کیا کہ تقریر سے متعلق دس پندرہ سوال اور ان کے تسلی بخش جواب علاحدہ علاحدہ کاغذوں پر لکھ لیے اور باس کو ان کی بھی ریہرسل کرا دی۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ چند ایک باخبر، ذہین اور تجسّس پسند صحافیوں سے قطع نظر ، بیشتر سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ ہر ادارے کے فرائض اور معیارِ کار سے پوری طرح آگاہ رہتے ہوئے موقع ہی پر اپنے سوال خود مرتب کر کے پوچھیں۔ لہٰذا ہم نے تقریر کے ساتھ دس پندرہ سوال اور ان کے جواب علاحدہ چٹوں پر لکھ لیے تھے۔ باس کی تقریر سے پہلے ہم نے سوالات کی چٹیں میز پر پھیلا دیں اور صحافیوں کو دعوت دی کہ وہ اپنی اپنی پسند کے سوال منتخب کر لیں(کیونکہ پی آر او کا کام پریس کی مدد کرنا ہے)۔صحافی بھائی بھی خوش ہو گئے۔تمام سوالات اس طرح مرتب کی گئے تھے کہ بظاہر اُن میں ادارے کی کارکردگی پر نکتہ چینی تھی مگر باس کے مدلل جواب سے صورت حال پلٹ جاتی تھی۔ جوابات کے پرچے ہم نے اپنے پاس رکھ لیے اور باس کے پہلو میں اپنی سیٹ سنبھال لی۔جیسے ہی لکھی ہوئی تقریر ختم ہوئی صحافیوں نے سوالات پوچھنے شروع کر دیے۔ہم نہایت پھرتی سے متعلقہ جواب کا پرچہ باس کے سامنے رکھتے اور باس وہ جواب پڑھ کر سنا دیتے تھے۔ اس طرح ریڈیو پریس کانفرنس بحسن و خوبی انجام پائی۔ سننے والوں کو کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ ایسے ’’چھبتے ہوئے‘‘ سوالات کے جواب مہمان نے اتنے مستند اعداد و شمار کے ساتھ ’’فی البدیہہ‘‘ کس طرح دے دیے؟ پریس کانفرنس کے اختتام پر کار میں واپس آتے وقت باس نے ہم سے پوچھا ’’کیسا رہا انٹرویو؟‘‘ ہم نے وہی کہا جو وہ سننا چاہتے تھے’’سر،آپ نے سب کا منہ بند کردیا!‘‘ اس حسب خواہش جواب سے حوصلہ پا کر انھوں نے اپنی Performanceپر خود بھی یہ تبصرہ کیا’’مجھے بھی وہ سب میرے جوابوں سے مطمئن اور متاثرلگ رہے تھے۔‘‘ہم نے عرض کیا’’آئندہ وہ کسی سے ایسے سخت سوال کرنے کی جرأت نہیں کر سکتے ۔‘‘ پھر شاید ان کے ضمیر نے چٹکی لی۔کہنے لگے’’سننے والوں کو پتا تو نہیں چل جائے گا کہ مَیں لکھے ہوئے جواب پڑھ رہا تھا؟‘‘ ہم نے انہیں تسلی دی’’انہیں کیسے معلوم ہوگاسر؟ دونوں فریق ایک ہی Frequencyپر تھے۔‘‘
ہم نے کبھی ان کاموں پرنہ فخر کیا (نہ شرمندگی محسوس کی) جنھیں فرض سمجھ کر انجام دیا۔ پنجابی بھائی سچ کہتے ہیں’’نوکری کی تے نخرا کی؟‘‘ہمارے بیشتر باس بھی ہم سے خوش رہے لیکن ایک صاحب اس لیے ناراض رہنے لگے کہ اخبارات ان کی تصویریں ان کی مرضی کے سائز اور مقام پرکیوں نہیں شائع کرتے؟ ہم نے ان کی اس ’’جائز‘‘شکایت کا یہ حل نکالا کہ ایک اخبار میں اپنے ادارے کا ضمیمہ چھپوا دیا جس میں صورت حال یہ تھی کہ ع جدھر دیکھتا ہوں، اُدھر تو ہی تو ہے۔باس کے اگلے پچھلے سارے گلے دور ہو گئے اور ہمارے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف ہو گئے۔ رہے ضمیمے کے اخراجات، تو جان لیجیے کہ پبلک ریلیشنز ،خرچ کرنے کا شعبہ ہوتا ہے کمانے کا نہیں۔
سیاست داں پی آر کے معاملے میں کریلا اور نیم چڑھا ہوتا ہے۔وہ عموماً تقریر سے پہلے کہتا ہے’’ اس موقع کے لیے مجھے لکھی ہوئی تقریر دی گئی ہے جو میں اٹھا کر الگ رکھ رہا ہوں اس لیے کہ میں اہم قومی امور پر اپنی آزادانہ رائے رکھتا ہوں۔‘‘ اس کے بعد وہ جو تقریر کرتا ہے وہ واقعی لکھی ہوئی نہیں ہوتی۔۔۔رٹی ہوئی ہوتی ہے۔آخر میں ہمیں اپنے ایک اور باس یاد آگئے۔ایک روز انھوں نے ہمیں بلاکر حکم دیا ’’مجھے ایک اہم سیمینار میں مقالہ پیش کرنا ہے جس میں سینئر بیوروکریٹس شرکت کر رہے ہیں۔آپ ایک تفصیلی مقالہ تیارکر کے مجھے دو دن میں دے دیں۔‘‘ہم نے پوچھا’’سر، سیمینار کا موضوع کیا ہے؟‘‘ بولے’’خود انحصاری!‘‘