نئے وزیر خزانہ
موجودہ حکومت میں موسیقی والی کرسیوں کو نئی اہمیت حاصل ہوگئی ہے اور وزارت خزانہ میں تو یہ اب ایک محبوب مشغلہ ہے تو اسی کے تسلسل میں اب ایک نئے وزیر خزانہ جناب شوکت ترین اس اہم عہدے پر فائز ہوگئے ہیں۔ ویسے عال خیال یہی ہے کہ وزیر اور وزارت خزانہ تو بس ایک تکلف ہے ان کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اس شعبے پر مقامی کنٹرول کھسکتے کھسکتے اب ہاتھوں سے نکل گیا ہے اور آئی ایم ایف جیسے مقتدر ادارے اور ان کے جانباز ملازمین جو اور کئی ملکوں میں اسی محاذ پر کام کرکے اب پاکستان میں اسی قسم کے نتائج کی تشکیل کے لئے تشریف لائے ہیںان کے ہاتھوں میں پہنچ گیا ہے۔ہماری قومی اسمبلی میں جو بجٹ ہمارے متعدد وزیر خزانہ پیش کرتے رہے ہیں وہ اصل میں پیش نہیں کررہے ہوتے بلکہ صرف پڑھ رہے ہوتے ہیں اور کئی بار تو انہیں یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ ملکی پالیسیوں میں کیا بنیادی تبدیلیاں ہو چکی ہیں اور ملکی معیشت کا دھارا کس سمت بہنے والا ہے یا منجمد ہو چکا ہے۔ویسے بھی اس ملک میں اب کئی سال سے یہ روایت پڑ چکی ہے کہ ملک کی بقا اور ترقی کے لئے سب سے اہم دستاویز یعنی سالانہ بجٹ ایک ایسے ماحول میں پیش کیا جاتا ہے کہ لگتا ہے یہاں خواتین اور حضرات ملکی معاشی مستقبل کے اعداد و شمار پر بحث کے لئے نہیں مچھلی کی خریداری کے لئے جمع ہوئے ہیں۔ایک بہ چارہ وزیر خزانہ گلا پھاڑ پھاڑ کر ان اعداد و شمار کی تفصیل بتا رہا ہوتا ہے جو اسے ان معروف بین الاقوامی اداروں نے ہاتھ میں تھمائے ہوتے ہیں اور اس کے گرد خواتین اور حضرات یا تو بجٹ دستاویزات کی کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں اچھال کر ایسا منظر پیش کررہے ہوتے ہیں جیسا بچپن میں پلاسٹک کے خول میں مصنوعی برف گرتی دکھائی دیتی تھی اور بچے بار بار اس خول کو الٹا سیدھا کرکے اس منظر سے لطف اندوز ہورہے ہوتے تھے یا پھر اسپیکر کی کرسی کے سامنے گلا پھاڑ پھاڑ کر قوالی کی کمی پوری کررہے ہوتے ہیں۔یہ کہنا بہ جا نہ ہوگا کہ ا س ملک کے بجٹ خواہ کسی نے بھی پیش کئے ہوں ان کا پاکستان کے زمینی حقائق اور اس کے عوام کے بنیادی مسائل سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔خانہ پری کے لئے کچھ اعداد و شمارضرور شامل کئے جاتے ہیں جن سے یہ بتانامقصود ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں کچھ مخصوص علاقوں کی قسمت بدل جائے گی اور دودھ کی نہریں بہنے لگیں گی۔ نہریں تو خیر کبھی نہیں بہتیں اور مختص فنڈ خدا جانے کس کی جیب میں چلے جاتے ہیں کہ متعلقہ علاقے کے عوام کو دودھ کی نہریں نہیں بلکہ دودھ کے نرخ میں دو چار روپے کا اضافہ ہی ملتا ہے۔اب تک جو غیر ملکی ادارے ہمارے بجٹ بناتے رہے ان کی کارکردگی کی داستانوں سے انٹر نیٹ بھرا پڑا ہے۔ برازیل سے لے کر مصر تک تباہی اور بربادی کی ایسی داستانیں ہیں کہ پڑھنے والے کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔ چلتی ہوئی کامیاب معیشت
پر جب ان اداروں کا سایہ پڑتا ہے تو جیسے چاند کو گرہن لگ جاتا ہے اور پھر جب معیشت گرفت میں آگئی تو ملک کے باقی ادارے اور باقی نظام کتنی دور رہ جاتے ہیں۔لئے تو آپ نے چند پیسے تھے کہ آپ کی نا اہل حکومت اور اس کے بہ فکر عہدیداروں کی رنگ رنگلیوں میں کوئی فرق نہ پڑ جائے مگر ان قرضوں کا سایہ ملک کے ہر ادارے اور ان مقروض ممالک کی بنیادی آزادی تک پہنچھ جاتا ہے۔حکومتیں جو اپنے عوام کو کسی بھی طرح کی کوئی رعایت دینا چاہتی ہیں ان اداروں کے سامنے بہ بس ہوتی ہیں اورفائدہ تو کیا پہنچائیں گی ان اداروں کے زور دینے پر ایسے اقدامات پر مجبور ہوجاتی ہیں جوان کے ملک کے عوام کی زندگی کو جہنم میں تبدیل کردیتا ہے۔اس قسم کی گھمبیر صورت حال میں پاکستان کی وزارت خزانہ کے ایوانوں میں موسیقی والی کرسی کے دوران پلک جھپکی تو دیکھا کہ کوئی اور اب وزارت خزانہ کے سربراہ کے طور پر براجمان ہے۔ یہ ہیں جناب شوکت ترین صاحب جو اس سے پہلے بھی ۲۰۰۸ سے ۲۰۱۰ تک پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں اسی عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کی خاں صاحب جب سے بر سر اقتدار آئے ہیں اس بات پر بضد ہیں کہ حالانکہ ان کے حساب سے پیپلز پارٹی بد عنوانوں کا ٹولہ ہے مگر اس کے وزیر خزانہ قابل اعتبار اور ملکی وسائل کی نگرانی کے اہل ہیں۔ اس سے پہلے بھی پیپلز پارٹی کے ہی جناب حفیظ شیخ خاں صاحب معیشت کے سپہ سالار رہے اور اب ایک دفعہ پھر یہ تاج ایک پچھلے پیپلز پارٹی کے دور کے وزیر خزانہ کے سر پر ہی سجا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس صورت حال سے تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے وہ راہ نما ضرور بددل ہوئے ہونگے جو پچھلے دس سال سے یہ ڈھنڈورہ پیٹ رہے تھے کہ ان کے مخالفین نے معیشت کا برا حال کردیا ہے اور وہ نئے اور تازہ خیالات اور منصوبوں کے ساتھ ملکی معیشت کو چار چاند لگا دیں گے۔افسوس ایسا نہ ہوسکا اور خود خاں صاحب شاید بہت نا امید ہوئے ہونگے کہ ان کی امیدیں جن حضرات کے ساتھ وابسطہ تھیں وہ پوری نہ ہوسکیں اور وہ نام نہاد ماہریں ایسے خالی برتن نکلے جو کام کے کم اور شور مچانے کے ذیادہ ماہر تھے۔ نتیجہ ہمارے اور آپ کے سامنے ہے کہ خان صاحب کو اب پیپل پارٹی سے دوسرا وزیر خزانہ مستعار لینا پڑا ہے اور اب سارے ملک کی نظریں جناب شوکت ترین پر ہیں کہ وہ ملکی معیشت کی بحالی کے لئے کیا انقلابی اقدامات کرتے ہیں۔ اردو کی ایک کہاوت ہے کہ گڑ کھلائو نہیں مگر گڑ جیسی بات تو کرو۔شاید شوکت ترین صاحب بھی اس کہاوت میں یقین کرتے ہیں اسی لئے ان کے ابتدائی کلمات نے یہ احساس اجاگر کردیا ہے کہ یہ شخص کم سے کم گڑ جیسی بات تو کررہا ہے۔ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ ضروری ہے کہ آئی ایم ایف کے اہداف کو مد نظر رکھا جائے مگر ہم انہیں پورا کیسے کریں گے یہ ہماری صوابدید پر ہونا چاہئے۔بجلی کے نرخ میں اضافہ مناسب نہیںاور اس سے بر آمد کی صنعت متاژر ہوگی اور اسی طرح انہوں نے ٹیکسوں کو بڑھانے کی مخالفت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹیکسوں کا اہداف ضرور پورا ہونا چاہئے مگر پرانی ٹیکس دینے والوں پر مذید بوجھ ڈالنے کے بجائے ٹیکس کے جال میں ان لوگوں کو لایا جائے جو ابھی تک اس سے باہر ہیں۔کافی دنوں کے بعد کسی وزیر خزانہ کے منھ سے ایسے الفاظ ادا ہو رہے ہیں جن کے بارے میں ایک اور انگریزی کہاوت کے بقول کانوں میں موسیقی بج رہی ہے۔اب سارا پاکستان اس بات کا منتظر ہے کہ شوکت ترین صاحب کے الفاظ حقیقت کا روپ دھاریں اور اس بھی ذیادہ لوگوں کو امید ہے کہ اب وزارت خزانہ میں یہ موسیقی والی کرسیوں کا کھیل ختم ہوگا اور خاں صاحب صبر اور تحمل کے ساتھ نئے وزیر خزانہ کے مشوروں پر عمل کریں گے اور خود پناہ گاہوں اور لنگر خانوں کی دیکھ بھال میں وقت گزاریں گے اور وزارت خزانہ کے کام کاج میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کریں گے۔ اس سے پہلے بھی وزیر اعظم صاحب کی بہ جا مداخلت کی وجہ سے شبر ذیدی جیسے محنتی اور ذہین لوگوں کو اس وزارت سے الگ ہونا پڑا تھا جس کے نتیجے میں ایف بی آر وہ اہداف پورے نہیں کر پارہا جو ملکی ضرورت ہیں۔
امید کی جاتی ہے کہ جناب شوکت تریں ٹیکس کا دائرہ بڑھانے کے علاوہ ملکی آمدنی میںحکومتی بہ جا اخراجات کم کرکے بھی اضافہ کریں گے۔ سب سے پہلے تو اس فوج ظفر موج کو مختصر کرنا ہوگا جو وزیر اعظم کے مشیروں اور معاونین وغیرہ پر مشتمل ہے اور کام دو پیسے کا نہیں کرتے مگر تنخواہوں اور دوسری مدوں میں کڑوڑوں روپے کے اخراجات کا باعث بن رہے ہیں۔ان میں اکثریت کا کام روزانہ ٹی وی پر بیٹھ کرحزب اختلاف پر تبرہ بھیجنا ہے۔ ان کی چھٹی کرکے ان سے بہت کم قیمت پر دستیاب مزارات کے باہر ڈھول بجانے والے ہیں جو روز حزب اختلاف پر ڈھول بجا بجا کر نعرے لگاسکتے ہیںجس سے ارباب اقتدار کے دل میں ٹھنڈک بھی پڑ سکتی ہے اور ملکی خزانے پر کوئی بوجھ بھی نہیں پڑے گا۔خیر تو زکر ہورہا تھا نئے وزیر خزانہ کا اور امید کی جارہی ہے کہ آخر کار ملکی معیشت کسی بامقصد سمت میں سفر شروع کرنے والی ہے اور بہ یقینی کی فضا ختم ہو کر ملک کسی حد تک استحکام کی جانب سفر شروع کرسکتا ہے۔خدا کرے ایسا ہی ہو۔