بھارت کا غیر محفوظ ایٹمی پروگرام آئی اے ای اے کے سخت نوٹس کا متقاضی
بھارت میں ایک بار پھر یورینیم کی بھاری مقدار سمگل ہوتے پکڑی گئی، پاکستان کا اظہار تشویش
بھارت میں 44 کروڑ روپے کی 7 کلو یورینیم پکڑی گئی۔ سمگلروں جگر پانڈیا اور ابو ظاہر کو گرفتار کرکے عدالت پیش کیا گیا۔ ان کا 12 مئی تک ریمانڈ دیدیا گیا۔ پاکستان نے بھارت میں 7 کلو تابکار یورینیم تحویل میں لیے جانے کی اطلاعات پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی حکام معاملے کی جامع تحقیقات کرائیں۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے بھارت میں ایٹمی مواد یا نیچرل یورینیم قبضے میں لیے جانے پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس واقعے سے کئی سوالات نے جنم لیا ہے ، ایٹمی مواد کی حفاظت تمام ممالک کی اولین ترجیح ہونی چاہیے، بھارت میں ایک عام شخص سے ایٹمی مواد ملنا اچنبھے کی بات ہے۔ دفتر خارجہ نے مطالبہ کیا ہے کہ بھارتی حکام اس معاملے کی جامع تحقیقات کرائیں کہ بھاری مقدارمیں ایٹمی مواد ریاستی کنٹرول سے باہر کیسے نکلا اور بھارتی حکام ان وجوہات کی نشاندہی کریں جن کے باعث نیچرل یورینیم چوری ہوئی۔
یورینیم ایٹمی اسلحہ میں استعمال ہونیوالا بنیادی اور اہم ترین جزو اور عنصر ہے۔ یورینیم کئی مہلک ہتھیاروں اور اسلحہ جات کی تیاری میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ یہ قلیل مقدار میں ایکسریز مشینوں میں بھی استعمال کی جاتی ہے۔ جس مقدار میں یورینیم بھارت میں سمگل ہو رہی تھی وہ ایکسرے مشینوں میں استعمال کی ضرورت سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ کس مقصد کے لیے استعمال ہونی تھی، اس کی بھارتی ادارے تحقیقات کریں گے۔ ہو سکتا ہے ان اداروں کے سامنے حقائق آ گئے ہوں۔ قطع نظراس سب کے کہ یورینیم کہاں سے آئی، کہاں جا رہی تھی کس مقصد کے لیے استعمال ہونی تھی، سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ یہ کڑی حفاظت میں ہونے کے باوجود غیر متعلقہ لوگوں اور غیر محفوظ ہاتھوں میں کیسے چلی گئی؟ بھارت میں یورینیم چوری اور اس کے سمگل ہونے کے واقعات پہلے بھی ہو چکے ہیں۔ 2018ء میں کولکتہ سے 5 کریمنلز سے ایک کلو گرام یورینیم برآمد ہوئی تھی۔ پولیس نے ملزموں کو گرفتار کیا اور متعلقہ اداروں نے تحقیقات کیں لیکن یہ واردات کیسے ہوئی ، اس کی رپورٹ کبھی پبلک نہیں کی گئی۔ 2016ء میں مہاراشٹر سے نو کلوگرام یورینیم کی مقدار پکڑی گئی تھی۔ یہ تو وہ واقعات ہیں جن میں یورینیم پکڑی گئی۔ جرائم پیشہ افراد کئی بار یورینیم چرا کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ راجستھان کے روات بھاٹا نیوکلیئر پلانٹ میں اوپر تلے پانچ ہفتے میں دو واقعات میں تابکاری سے 40 افراد متاثر ہوئے۔ بھارت کا ایٹمی پروگرام کبھی بھی محفوظ نہیں رہا جبکہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام محفوظ ترین ہے۔ گزشتہ سال امریکی ادارے نیوکلیئر سکیورٹی انڈیکس کی رپورٹ میں پاکستان کو جوہری ہتھیاروں کے بہتر تحفظ والا ملک قرار دیا گیا۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان نے ایٹمی اثاثوں کے تحفظ میں بھارت کو چھ پوائنٹ پیچھے چھوڑ دیا۔ بھارت کے 41 کے مقابلے میں پاکستان نے 47 پوائنٹ حاصل کیے۔ پاکستان آئی اے ای اے کے تمام تر ضوابط و قواعد پر ان کی روح کے مطابق عمل کرتا آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ بھارت کی طرف سے پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے غیر محفوظ ہاتھوں میں جانے کا لغو اور جھوٹا پراپیگنڈا کیا جاتا ہے جو عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی سوچی سمجھی سازش ہے جس کے ذریعے بھارت اپنے ایٹمی پروگرام میں پائے جانے والے نقائص اور خامیاں چھپانا چاہتا ہے۔
بھارت کے ایٹمی پروگرام میں جس طرح کے سقم سامنے آ چکے ہیں وہ اس پر کئی پابندیوں کے متقاضی ہیں۔ یورینیم کا کڑی نگرانی کے باوجود چوری اور سمگل ہونا متعلقہ اداروں کی انتہائی نالائقی اور نااہلی ہے یا پھر ان اداروں کے ذمہ داران کی ملی بھگت سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ بھارت کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ کا ممبر بننے کا خبط ہے۔ اس حوالے سے اس کی طرف سے بھرپور مہم چلائی جاتی ہے اور لابنگ کی جاتی ہے۔ امریکہ اس کی پشت پناہی کرتا رہا ہے۔ اس سلسلے میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ زیادہ ہی سرگرم نظر آئے۔ بائیڈن کے صدر بننے کے بعد امریکہ کی بھارت کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ کا ممبر بنانے کے معاملے میں پہلے جیسی گرم جوشی نہیں رہی مگر بھارت مہم جاری رکھے ہوئے ہے۔
بھارت میں اقلیتوں کے حقوق کی بری طرح پامالی ہو رہی ہے۔ دو درجن ریاستوں میں ریاستی مظالم کے باعث علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ کسی پڑوسی ملک کے ساتھ بھارت کے اچھے تعلقات نہیں۔ ہر پڑوسی کے ساتھ تنازعہ چل رہا ہے۔ سرکاری سرپرستی میں منی لانڈرنگ ہوتی رہی ہے جس میں 40 بنک ملوث ہیں۔ ایسے اقدامات بھارت کو ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں شامل کرنے کے متقاضی ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان کو سفارتی سطح پر ہرممکن کوشش کرنا ہو گی۔