وزیراعظم کا کامیاب دورۂ سعودیہ
وزیراعظم عمران خان کے سعودی عرب کے تین روزہ سرکاری دورے کے دوسرے دن دو ملکوں کی طرف سے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیاجس کے مطابق پاکستان اور سعودی عرب نے تمام کثیرقومی فورمز پر ایک دوسرے کی حمایت جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ مسئلہ کشمیر کو مذاکرات اور افغان تنازع کو سیاسی مفاہمت کے ذریعے حل کیا جائے۔ قبل ازیں، وزیر اعظم عمران خان اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ملاقات کی جس میں دو طرفہ تعاون کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے تمام علاقائی اور باہمی بین الاقوامی معاملات پربات چیت کی گئی۔ دونوں ممالک میں معاشی اور تجارتی تعلقات بڑھانے اور دو طرفہ ملٹری اور سکیورٹی امورمیں تعاون پر بھی اتفاق کیا گیا۔ مسلم امہ کو درپیش مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا گیا کہ انتہا پسندی، تشدد اور فرقہ واریت کے خاتمہ کیلئے تمام مسلم ممالک کو مل کر کوشش کرنی چاہیے۔ سعودی ولی عہد نے افغان امن عمل میں سہولت فراہم کرنے پر پاکستان کے کردار کی تعریف کی۔
عمران خان اور محمد بن سلمان کے درمیان ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط بھی ہوئے۔ اس معاہدے کی رو سے سعودی عرب اور پاکستان کے مابین ایک اعلیٰ سطحی کوآرڈینیشن کونسل کا قیام وجود میں آئے گا جس کے تحت ادارہ جاتی سطح پر ایک ’سٹرکچرڈ انگیج منٹ پلان‘ ترتیب دیا جائے گا۔ سعودی عرب کو اگلے دس سال میں دس ملین افرادی قوت درکار ہو گی اور اس مطلوبہ ورک فورس کا زیادہ حصہ پاکستان سے لیا جائے گا۔ اس دوران ہونے والے ایک معاہدے کے تحت سعودی عرب پاکستان کوسعودی ڈویلپمنٹ فنڈ سے500 ملین ڈالر کی رقم فراہم کرے گا جو پاکستان میں انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ، آبی وسائل کی ترقی اور ہائیڈرو پاور ڈویلپمنٹ پر خرچ کی جائے گی۔ عمران خان نے سعودی ولی عہد کو دورۂ پاکستان کی دعوت دی جو انہوں نے شکریے کے ساتھ قبول کی۔ عید کے بعد ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی وزیر خارجہ کے دورۂ پاکستان کے خدوخال طے کرنے کیلئے سعودی افسران کا وفد پاکستان تشریف لائے گا۔
پاکستان اور سعودی عرب کے ایک دوسرے سے گہرے اور دیرینہ تعلقات ہیں۔ سعودی عرب نے ہر اہم مسئلے پر پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ اس وقت پاکستان کو اندرونی اور بیرونی طور پر جن مسائل کا سامنا ہے ان کے حل کے لیے بھی سعودی عرب نے اپنا کردار ادا کرنے کا اعادہ کیا ہے۔ بھارت کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات ایک حقیقت ہیں لیکن اس کے باوجود وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ پاکستانی حکام کو چاہیے کہ وہ سعودی قیادت سے کشمیر سمیت اپنے تمام اہم مسائل کے حل کے لیے جس حد تک ممکن ہو مدد لیں تاکہ ملک میں استحکام پیدا ہوسکے۔