پیر ‘ 27؍ رمضان المبارک 1442ھ‘ 10؍مئی 2021ء
سی ایس ایس کے مایوس کن نتائج، 18 ہزار 5 سو ترپن میں سے صرف 376 کامیاب
یہ ملک کا اعلیٰ ترین امتحان ہے جس ملک بھرسے اعلیٰ تعلیم اور بہترین معلومات رکھنے والے نوجوان کو ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کیلئے چُنا جاتا ہے۔ اس امتحان کی بدولت کافی تعداد متوسط اور غریبوں کے بچے بھی آگے آتے ہیں اور اپنا اور اپنے خاندان کا مقدر بدل دیتے ہیں۔ پاکستان کے ہزاروں والدین اپنے بچوں کو اس امتحان میں شرکت کے لیے تیاری کراتے ہیں۔ ایک وقت تھا اس امتحان میں کامیاب ہونے والوںکا تناسب اچھا ہوتا تھا۔ پھر جیسے جیسے انٹرنیٹ، موبائل، کمپیوٹر کی سہولتیں عام ہوئیں، کتاب سے رشتہ کمزور ہوتا گیا۔ ہمارے نوجوانوں کا تعلیم اور کتاب سے رشتہ ختم ہوا۔ کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور موبائل سے مستحکم ہوتا گیا۔ اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ ہم ان جدید سہولتوں کو عیاشی کیلئے زیادہ اور تعلیم و تحقیق کیلئے کم استعمال کرتے ہیں۔ سندھ کی ہونہار بیٹی ثنا کماری نے بھی یہ امتحان پاس کیا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ میں نے جب 8 ماہ قبل امتحان کی تیاری شروع کی تو اپنا موبائل فون بند کر دیا۔ صرف اور صرف تیاری پر توجہ دی جس کا نتیجہ سب دیکھ لیں۔ وہ کامیاب ہوئی لیکن شرم کی بات ہے کہ 18 ہزار 5 سو 53 میں سے صرف 376 امیدوار ہی کامیاب ہوئے۔ معلوم ہوتا ہے ہمارا تعلیمی نظام رٹہ سسٹم کی بدولت اپنی افادیت کھو چکا ہے۔ جدید رجحانات سے ہم کوسوں دور ہیں۔ تعلیم کو تجارت بنا لیا گیا ہے۔ جہاں کردارسازی اور فروغ علم کی کوئی جگہ نہیں۔ تعلیمی ادارے سرکاری ہوں یا نجی یہ نتیجہ ان کے بلند و بانگ دعوئوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔
٭٭……٭٭……٭٭
کراچی ضمنی الیکشن: دوبارہ گنتی میں بھی مفتاح اسماعیل ہار گئے
اب اس نتیجے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے مفتاح اسماعیل کو حق ہے کہ وہ کہتے پھریں؎
’’ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا‘‘
اس سے بہتر تھا چپ رہتے۔
اس سے لاکھ درجہ بہتر تھا کہ ری پولنگ کی درخواست دی جاتی۔ ووٹوں کی دوبارہ گنتی سے کیا حاصل ہوا۔ پی پی پی والے تو دوبارہ الیکشن پر بھی رضامند ہو رہے تھے۔ اب اورکیا ہو سکتا ہے۔ (ن) لیگ کے پہلے سے ووٹ بھی کم ہو گئے اور پیپلزپارٹی کے بڑھ گئے۔ اب اس کو قسمت کا لکھا سمجھ کر خاموش ہوا جائے ورنہ ’’اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی‘‘ مخالفین طرح طرح کے دل جلانے والے تبصرے شروع کر رہے ہیں۔ بہتر ہے (ن) لیگ والے اسے پیپلزپارٹی کی اکلوتی خوشی کی خبر سمجھ کر برداشت کر لیں۔ آخر بلاول نے بھی تو چکوال الیکشن میں (ن) لیگ کی کامیابی پر شہبازشریف کو پرجوش مبارکباد دی تھی۔ اب دھاندلی ہوئی یا دھاندلہ، (ن) لیگ والوں کو دل پر پتھر رکھنا ہی پڑے گا۔ اصل دکھ تو پی ٹی آئی والوں کو ہونا چاہیے۔ جن کو پانچویں نمبر پر جگہ ملی مگر دیکھ لیں وہ صدمے سے یا شرم سے کیسے چپ ہیں۔ گویا کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ وہ بھی اگر چاہتے تو حکومتی ترجمانوں کی بدولت میڈیا میں آسمان سر پر اٹھا سکتے تھے مگر نجانے کیوں وہ چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ایم کیو ایم والوں اور کمال مصطفیٰ کا ذکر ہی عبث ہے ان کے زخم تازہ کرنے سے کیا فائدہ۔ وہ پہلے ہی بہت دکھی ہیں۔
٭٭……٭٭……٭٭
سعودی عرب کے ساتھ زکوٰۃ و فطرانہ امداد کے معاہدہ پر دستخط
جی ہاں یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ ہم ویسے بھی تو ہر وقت ہر ایک سے غربت کا رونا رو کر امداد طلب کرتے رہتے ہیں۔ ستر بہتر برس کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ہر حکمران اپنے قد کاٹھ سے بڑے کشکول اٹھائے کبھی یورپ کبھی عرب کبھی چین و امریکہ میں مانگتا نظر آتا ہے۔ پہلے کی بات اور تھی اب جب سے ہم ایٹمی طاقت ہیں کم از کم اس کے بعد تو ہم میں خودداری جاگ جانی چاہیے۔ مگر افسوس ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ ہماری مانگنے والی عادت نہیں گئی۔ دنیا بھر سے ہمیں امداد بلامبالغہ ملتی بھی ہے۔ مگر وہ ساری اوپر اوپر سے اعلیٰ سرکاری افسران اور وزیروں میں تقسیم ہوتی ہے۔ یہ تو اترے ہوئے زیور اور کپڑے تک جو امداد میں ملتے ہیں رکھ لیتے ہیں۔ غریبوں کے حصے میں وہی بھوک ننگ اور بیماریاں ہی آتی ہیں۔ اب تک عید پر رمضان میں عرب ممالک ہمیں امدادی خوراک اور قربانی کا گوشت غریبوں میں تقسیم کے لیے ٹنوں کے حساب سے بھیجتے ہیں۔ وہ سب بھی ان مالدار محتاجوں کے پیٹ اور فریجوں میں چلا جاتا ہے۔ ہمارے ایک وزیر جو فخر سے کہتے تھے کہ خان صاحب جب آئیں گے تو چند ماہ میں سو ارب ڈالر کا قرضہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے منہ پر ماریں گے۔ کشکول توڑ دیں گے۔ گزشتہ روز وہی موصوف سعودی عرب میں معاہدے پر دستخط کر کے فرحاں و شاداں نظر آئے جس کے مطابق سعودی عرب اس ایٹمی طاقت کو زکوٰۃ و فطرانہ کی رقم غریبوں کی مدد کے لیے دے گا۔ اب کوئی ’’شرم تم کو مگر نہیں آتی‘‘ بھی نہیں کہہ سکتا۔ کیونکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ ساری زکوٰۃ و فطرانے کی رقم بھی حکمرانوں کے چیلوں چانٹوں بیوروکریٹس اور وزیروں میں تقسیم ہو جائے گی کیونکہ اصل مستحق اب تک وہی ہیں جو خیرات پر پلتے آئے ہیں۔ غریبوں کی قسمت میں یہ نہیں لکھی۔
٭٭……٭٭……٭٭
چکن چوتھی سینچری مکمل کر کے 450 کا ہو گیا
لاہور والے خوش تھے کہ دوسرے صوبوں اور شہروں میں (برائلر) مرغی کے گوشت کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ مگر اب اس رمضان المبارک کے آخری بابرکت ایام میں چکن کی قیمت نے لاہور میں بھی چوتھی سینچری عبور کر لی۔ اب لاہور میں بھی چکن سے لے کر 450 تک فروخت ہو رہا ہے۔ یوں اب ہم بھی فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ لاہور میں بھی مرغی (برائلر) کا گوشت 400 سے اوپر جا چکا ہے۔ اس سے زیادہ اور کوئی کیا کہے اس گرانی کے دور میں تو ’’بشر د ے رہا ہے بشر کی دہائی‘‘ رحمتوں کے خزانے لوٹنے کے چکر میں جنت کمانے کے چکر میں جو لوگ خدا کے بندوں کی زندگیاں دوزخ بنا رہے ہیں کیا وہ اس جنت کے مزے لوٹ سکیں گے جو صرف نیک لوگوں کے لیے ہے۔ یاد رکھیں جو لوگ دوسروں کی زندگیاں جہنم بنا رہے ہیں وہ کبھی اس جنت کے حقدار نہیں ہو سکتے۔ نماز ، روزہ ، زکوٰۃ ، حج ادا کر کے بھی اگر کوئی غریبوں کی زندگی مشکل کرتا ہے ، وہ رحمت الٰہی کا امیدوار کیسے ہو سکتا ہے۔ اب پولٹری فارمز کے مالکان اور گوشت فروخت کرنے والے سیٹھ ذرا اپنی ادائوں پر بھی غور کریں۔ خدارا اپنی تجوریاں بھرنے کے علاوہ غریبوں کو پیٹ بھرنے دیں۔ کسی کے منہ کا نوالہ چھین کر اپنی تجوری بھرنا گناہ ہے۔ حکومت بھی ذرا پولٹری مافیا پر توجہ دے یہاں ہی کم از کم مضبوط ہاتھ ڈالے۔ یہاں بھی چینی مافیا کی طرح بڑے بڑے غریب دشمن ملیں گے۔ جن کی کھال اتار کر انہیں الٹا لٹکانا بہت ضروری ہے۔
٭٭٭٭٭٭