یومُ القدس پر اسرائیلی مظالم
دنیا بھر کے مسلمانوں نے رمضان المبارک کا آخری جمعہ مظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور قبلۂ اوّل کو پنجۂ یہود سے چھٹکارا دلانے کے لیے ’’یوم القدس‘‘ کے طور پر منایا ۔ اس بابرکت موقع پر مسجد اقصیٰ میں اہل فلسطین کی بڑی تعداد دعا اور مناجات کے لیے مجتمع ہوئی تو اسرائیلی فوجیوں نے ان پر دھاوا بول دیا جس کے نتیجے میں تادمِ تحریر ڈیڑھ سو سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں اور زخمیوں کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے ۔ مسجداقصیٰ میں موجودنمازیوں پر ربڑ کی گولیوں اور دستی بموں سے حملہ کیا جارہا ہے ۔ ہر طرف آہ و فغاں کی صدائے کرب ناک ہے اور قیامت صغریٰ کا منظر نامہ ہے۔مشرقی یروشلم کے ضلع شیخ جرہ میں فلسطینی خاندانوں کو بے دخل کیے جانے کا خطرہ ہے جس کے باعث فضا میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے ۔
ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ
راستہ دیکھتی ہے مسجدِ اقصیٰ تیرا
ایک طرف اسرائیل کی طرف سے ریاستی دہشت گردی جاری ہے تو دوسری طرف بین الاقوامی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت مسلم دنیا بھی مکمل طور پر چپ سادھے ہوئے ہے ۔ اسی منافقانہ رویے اور انسانیت کی تذلیل کے خلاف ہر سال رمضان المبارک کے آخری جمعے کو ’یوم القدس‘ کے طور پر منا کر مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کی جاتی ہے ۔ اس کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ مئی 1968ء سے اسرائیل کی جانب سے یوم یروشلم منایا جارہا تھا جس کی مخالفت میںامام روح اللہ خمینی ؒ نے یوم القدس منانے کا اعلان کیا ۔ ہر سال رمضان المبارک کے جمعتہ الوداع کو اسرائیل کے قبلۂ اول پر غاصبانہ قبضے کے خلاف احتجاج کیا جاتا ہے اور امت مسلمہ میں شعور و آاگاہی اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ استعمار کے خلاف صدائے حق بلند کرنے کا فریضہ بھی سر انجام دیا جاتا ہے ۔احتجاج کا یہ سلسلہ ایران سے شروع ہوا اور اب مشرق وسطیٰ کے اسلامی ممالک سمیت یورپ کے کچھ ممالک اور بعض امریکی ریاستوں تک پھیل چکا ہے ۔جمعتہ المبارک کو دنوں کا سردار کہا گیا ہے ۔ اس دن نیکی، عبادت، ذکر اور تلاوت کا ثواب کئی گنا بڑھ جاتاہے اور رمضان المبارک کاآخری جمعہ اس حوالے سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے ۔حدیث شریف کی رو سے سب سے افضل جہاد ’سلطان جابر‘ کے سامنے کلمۂ حق کہنا ہے ۔ اسی مبارک فرمان پر عمل کرتے ہوئے رمضان المبارک کے جمعتہ الوداع کو یہ فریضہ سر انجام دیا جاتا ہے جو کہ ایک طرف ملت اسلامیہ میں بیداری کی لہر پیدا کرتا ہے اور دوسری طرف عالمی طاقتوں کو فلسطین کے ساتھ ناروا سلوک پر متنبہ کرتا ہے۔
عالمی طاقتوں نے اپنی شاطرانہ حکمت عملیوں اور چالاکیوں کے ذریعے فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری کا سروسامان کیا جس سے مشرق وسطیٰ کا امن تباہ ہو کے رہ گیا ۔مسئلۂ فلسطین پر 1948ء اور 1967ء میں دو بڑی جنگیں لڑی جاچکی ہیں ۔ امریکا اور مغربی طاقتوں کی پشت پناہی سے ارض مقدس کے باسیوں سے ان کی زمین چھین کر یہودیوں کے حوالے کر دی گئی جس کے نتیجے میں ستر لاکھ سے زائد فلسطینی بے گھر ہوکر دردرکی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں ۔ ان مہاجرین کو دوبارہ کبھی بھی اپنے گھروں میںلوٹنے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کا سلسلہ بڑھتا جارہا ہے اور تمام بین الاقوامی قوانین کو پاؤں تلے روند کر فلسطینی مسلمانوں کو ان کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم کیاجارہا ہے ۔ اسرائیل کے مسلسل جارحانہ رویے اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے بہت سے مغربی ممالک بھی تنگ آگئے ہیں ۔ حال ہی میں میکسیکو کی حکومت نے فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی یہودی بستیوں کی تعمیر اور توسیع پسندانہ عزائم کی مخالفت کرتے ہوئے یہودی آباد کاری کو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے ۔ اس سے پہلے سلامتی کونسل کے اجلا س میں میکسیکو کے سفیر نے فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاری کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے نہ صرف بنیادی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا بلکہ مقبوضہ عرب علاقوں میںاپنی منفی سرگرمیاں فی الفور معطل کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔
اسرائیلی جارحیت کے بعد فلسطینی تین حصوں میں بٹ چکے ہیں ۔ تقریباََ ڈیڑھ ملین کے قریب فلسطینی اسرائیل میں قیام پذیر ہیں اور وہ اپنے ساتھ برتے جانے والے ناروا سلوک کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیے ہوئے ہیں ۔ یہ ڈیڑھ ملین فلسطینی مسلمان اگر چہ اسرائیلی شہری ہیں تاہم انھیں دوسرے درجے کا شہری گردانا جاتا ہے ۔دوسرے وہ فلسطینی ہیں جو غزہ اور مغربی کنارے بشمول یروشلم میں آباد ہیں اور اسرائیلی قبضے کا سامنا کر رہے ہیں ۔ تیسرا گروہ ان فلسطینیوں پر مشتمل ہے جواسرائیل کے مظالم سے تنگ آکر دیگر ممالک میں ہجرت کر چکے ہیں اور اپنے اجداد کی سرزمین پر واپسی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ہر فلسطینی کا خواب ہے جس کی تعبیر کے لیے اب تیسری نسل بھی بھر پور جدوجہد کر رہی ہے ۔ جب تک اسرائیلی مظالم کا خاتمہ نہیں ہو جاتا اور اہل فلسطین کو بنیادی انسانی حقوق نہیں مل جاتے ،خطے میں امن و امان کاحصول ممکن نہیں۔
اسرائیلی فوج حقیقت میں ایک دہشت گروہ بن چکی ہے جس نے طاقت اور ظلم و ستم کے بل بوتے پر پوری فلسطینی قوم کو قیدی بنا رکھا ہے ۔ جورو جفا اور جبر ناروا کے اس ماحول میں سب سے زیادہ متأثرین فلسطین کے معصوم عوام ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں ۔ ایک طرف عالمی برادری مہر بہ لب ہے تو دوسری طرف انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں بھی صہیونیت کی آلۂ کار ہیں ۔بعینہ دنیا بھر کا میڈیا اسرائیلی مظالم سے پردہ اٹھانے کے بجائے حماس اور الفتح کو مؤرد الزام ٹھہرا کر اسرائیلی فوج کو معصوم ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اسرائیل کے جدید ترین ہتھیاروں کے مقابلے میں بے سروسامان حماس یا الفتح کی کوئی حیثیت نہیں ۔ یہ رد عمل کے طور پروجود میں آنے والی تنظیمیں ہیں جو اپنے تحفظ کے لیے سرگرم عمل ہیں ۔ یہ کیسی جنگ ہے کہ جس میں ایک طرف اسرائیلی ائیر فورس ایف سولہ طیاروں کے ذریعے فلسطینی عمارتوں کو نشانہ بناتی ہے تو دوسری جانب ہاتھ سے بنے ہوئے راکٹ اسرائیلی فوج کی جانب پھینکے جاتے ہیں جن سے نہ کوئی اسرائیلی فوجی ہلاک ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی زخمی ۔ عالمی میڈیا فلسطینیوں کی دادرسی کے لیے ان کی آوازاس لیے نہیں بنتا کہ دنیا کے تمام بڑے میڈیا ہاؤسز پر یہودی لابی مکمل طور پر قابض ہے ۔دنیا بھر کے یہودی ڈبل ایم یعنی (Media & Money)کواپنے قابو میں رکھے ہوئے ہیں اور ان پر اسرائیل کی مکمل اجارہ داری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل ارض ِمقدس پر بلاخوف و خطر ہمہ قسم کی جارحیت آزمارہا ہے ۔
یہ ساری صورتحال دنیا بھر کے اسلامی ممالک کے لیے لمحۂ فکریہ ہے ۔ مسئلہ فلسطین ہو یا مسئلہ کشمیر، ان ہر دو مسائل کا واحد حل امت مسلمہ کے اتحاد میں مضمر ہے ۔ مسلم قیادت کو یہ احساس کرنا چاہیے کہ اگریہ علاقائی ، گروہی، لسانی یا دیگرعصبیتوں کاشکار رہ کر ایک پلیٹ فارم پر مجتمع نہ ہوئی اور یک جان دوقالب ہو کر مظلوم مسلمان اقوام کی ہر ممکنہ مدد نہ کی تو اسی طرح بڑے پیمانے پر نسل کشی کے منصوبوں کے ذریعے کشمیری اور فلسطینی مسلمانوں کا وجود مٹا دیا جائے گا اور اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری مسلمان ممالک پر عائد ہوگی ۔