شیخ طریقت مرشد مجید نظامی کی یاد
آج ستائیسویں رمضان ہے شب قدر کو شیخ طریقت نے اس دنیا سے پردہ فرمایا، وہ کہکشائوں کے نو ر کا حصہ بن گئے۔ اور کائناتوں کو جگمگا نے لگے۔ دنیا کو انہوں نے اپنی سچائی سے جگمگ کیا اور ایک ہی درس دیا کہ حق کی خاطر ڈٹ جائو۔ جابر سلطان کے سامنے سچ بولو۔ایک ڈکٹیٹر ضیا لحق نے مذاق اڑیا کہ آپ کو ایک سلطان صابر سے واسطہ پڑاہے ورنہ لینے کے دینے پڑ جاتے۔ اس سلطان صابر کو معلوم نہ ہوگا کہ اس کا واسطہ ایک شیخ طریقت سے پڑا ہے جس کوخدا کے سوا کسی سے خوف لاحق نہیں،سلطان صابر اگر سلطان جابر بھی بن جاتا تو میرے مرشد کا کیا بگاڑ لیتا، میرا مرشد کہاں کہاں نہ ڈٹا،ایک ڈکٹیٹر ایوب خان نے پیغام بھیجا کہ محترمہ فاطمہ جناح سے مادر ملت کا خطاب واپس لے لو۔مگر مرشد نظامی اس دھمکی کو خاطر میں نہ لائے۔ اسی لئے پنجاب کے ایک لاٹ صاحب جن کا تعلق میاں والی کے کالا باغ سے تھا اس نے شیخ طریقت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور یہ کہا کہ آپ۔۔ جنا۔۔ بن کے رہیں، میرے مرشد تن کر جیئے تھے اور کسی دنیاوی خوف و خطر کو خاطر میںنہ لائے۔
نائن الیون کے بعد پاکستان بھر کے سو ڈیڑھ سو ایڈیٹروں ،دانشوروں اور کالم نویسوں کے سامنے جنرل مشرف نے کہا کہ دنیا کشمیر کے جہاد کو اب دہشت گردی سمجھتی ہے اس لیے آئندہ سے پاکستان کی سرزمین کو جہادیوں کے لیے استعمال نہیں کرنے دیا جائے گا ،میرے مرشد بالکل جنرل مشرف کے بائیں ہاتھ تشریف فرما تھے اور ہوا میں مکا لہڑاتے ہوئے گونج دار آواز میں کہا کہ آپ کشمیر سے غداری کریں گے تو اس کرسی پر نہیں رہ سکتے ،اسی صدر مشرف کے وزیر خارجہ خوشید قصوری نے اپنی آپ بیتی میں لکھا ہے کہ کشمیر کا فیصلہ تقریبا طے ہو گیا تھا مگر مشرف کا تختہ الٹ گیا ۔عدلیہ تحریک نے اس کو نہ گھر کا رہنے دیا نہ گھاٹ کا ۔مشرف آج ملکوں ملکوں مارا مارا پھر رہا ہے ۔پاکستان کے اقتدار کی کرسی تو دور کی بات ہے اسے پاک دھرتی پر قدم رکھنے کی ہمت نہیں پڑتی ۔یہ ہوتا ہے نتیجہ کشمیریوں سے بقول مرشد نظامی غداری کرنے کا ۔
شیخ طریقت نے جمہوریت کا راستہ اپنائے رکھا ،پہلے انہوں نے مادر ملت کو ایوب خان کے سامنے کھڑا کیا پھر بھٹو کا ضمیر جاگا اور اس نے اپنے راستے ایوب خان سے جدا کیے مرشد نظامی نے اسے اپوزیشن کی سیاست کے گر سکھائے۔ مگر جب بھٹو نے اقتدار میں آکر فاشزم کے حیلے اپنائے اور نوائے حوقت کو بھی نگلنے کی کوشش کی تو مرشد مجید نظامی نے اس سے اپنے راستے جدا کرلیے ۔ضیاء الحق کے ساتھ ان کی کبھی نہیں بنی ،محمد خان جونیجو وزیر اعظم بنے تو مجید نظامی نے ان کو خوب تھپکی دی کیونکہ ضیاء الحق کے گیارہ سالہ دور کے بعد انہوں نے پہلی مرتبہ کشمیر کے مسئلے کا ذکر کرنا شروع کیا تھا ۔
لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مرشد مجید نظامی نے نواز شریف اور شہباز شریف کی بھی سیاسی تربیت کی اور ان کے سر پر شفقت کاہاتھ رکھا تو میں اس بات کو جھٹلائوں گا نہیں لیکن ان کی زندگی میں میری جو ان سے آخری ملاقات ہوئی ،مرشد نظامی کی زبان سے پتا چلا کہ شریف برادران نے اپنی پٹری تبدیل کرلی تھی اور وہ سرعام بھارت کے گن گا رہے تھے،مرشد نظامی اس نظریے کو قبول کرنے پر تیار نہ ہوئے تو میرے پاس ایک امانت ہے جس کا میں اب ذکر کرنے لگا ہوں ،اس آخری ملاقات میں انہوں نے دو انگلیاں ہوا میں لہرائیں اور مجھے بتایا کہ ان دونوں کا ان سے نہ فون پر رابطہ ہے نہ براہ راست کوئی ربط و ضبط باقی رہ گیا ہے ۔حمید نظامی کی آخری رات کا ذکر کرتے ہوئے شورش کاشمیری نے جو کچھ ذکر کیا ہے کہ وہ حالات کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے اور اسی رات کسی لمحے وہ دم توڑ گئے اور خالق حقیقی سے جا ملے۔مرشد مجید نظامی کے لیے شریف برادران کا رویہ کسی صدمے سے کم نہیں تھا اور اس کے خوفناک نتائج کا اندازہ کرکے میرا سر چکرا کر رہ گیا ۔ اور چند روز بعد وہ خبر آگئی جس نے میری روح کو لرزا کر رکھ دیا۔
میں آج بھی مرشد نظامی کے حوصلو ں کو داد دیتا ہوں ایک دفعہ رفیق ڈوگر نے حمود الرحمن کمشن کے حوالے سے کوئی خبر چھاپ دی جس سے حکومت کے دروبام زلزلے کی زد میں آگئے۔یہ خبر اس وقت کے سیکرٹری جنرل ڈیفنس کے بارے میں تھی ،اس نے اپنا طنطنہ دکھایا،اسے ضیاء الحق کی پشت پناہی حاصل تھی ،مرشد مجید نظامی کو حکم ہوا کہ رفیق ڈوگرکو پولیس کے حوالے کیا جائے،میرے مرشد نے جواب دیا اخبار کا مالک اور ایڈیٹر میں ہوں رفیق ڈوگر نہیں ہے اور میں اس خبر کی اشاعت کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں ،میں اپنے دفتر میں موجود ہوں،گھر سے ایک سوٹ کیس تیار کرکے لایا ہوں جس میں ضرورت کے کپڑے اور دل اور شوگر کے مرض کی ضروری ادویات موجود ہیں،جس وقت کوئی آئے مجھے لے جا سکتا ہے۔یہ جواب کوئی پیر طریقت ہی دے سکتا تھا،اور یہ وہ زمانہ تھا جب باقی اخبار مالکان کسی خبر کی اشاعت پر حکومت کو راضی کرنے کے لیے اپنے رپورٹر کو فارغ کردیتے تھیاور ساتھ ہی اس کی تصویر بھی چھاپتے تھے کہ لو جی جس نے غلط خبر چھاپی اس کا ہم نے کباڑا کردیا۔اس دور میں سیکرٹری جنرل ڈیفنس کو للکارنا کوئی معمولی کام نہیں تھا۔
میرے پیر طریقت کے مقابل کون ٹھہر سکتا ہے وہ سچائی کے نورکے پیکر تھے،وہ کائنات کی کہکشائوں کے نور کا حصہ ہیں ،وہ جگمگا رہے ہیں،ان کے فکروکردار کی تابناک شعائیں ہمارے ذہنوں کو منور کرتی رہیں گی۔
میں نے ان پر ایک ویب پورٹل بنایا ہے جس کا عنوا ن ہے : صحافت کے مجدد الف ثانی۔