امامِ صحافت کی برسی
یہ دنیا فانی ہے، جو بھی یہاں آیا اسے واپس جانا ہے۔ ہر آنے والے کا ایک کردار ہے۔ آخر میں فیصلہ ہوتا ہے کہ اس نے اس فانی دنیا میں کیا کردار ادا کیا اور کس طرح زندگی بسر کی۔ بہت سے لوگ آتے ہیں گمنامی کی زندگی بسر کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے کردار کی وجہ سے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں، یقینی طور پر یہ لوگ انمول ہوتے ہیں۔ مجید نظامی صاحب کا شمار بھی ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنے کردار سے تاریخ میں انمٹ نقوش چھوڑے۔ جو بڑے لوگ ہوتے ہیں وہ بیان بازی سے بڑے نہیں ہو جاتے ان کے کردار بڑے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے اصولوں کے باعث عام لوگوں سے منفرد ہوتے ہیں۔ ان کی سوچ عام سوچ سے مختلف ہوتی ہے۔ وہ دور اندیش اور معاملہ فہم ہوتے ہیں اور پس منظر اور پیش منظر کا ادراک رکھتے ہیں۔ فیصلہ سازی میں کسی ہچکچاہٹ کے بغیر دو ٹوک بات کرتے ہیں اور اپنے فیصلوں اور نظریات پر پہرہ دیتے ہیں۔ ایسے لوگ مستقل مزاج ہوتے ہیں۔ مجید نظامی صاحب میں بھی یہ تمام خوبیاں بدرجۂ اتم موجود تھیں۔ میں جب ان کی زندگی کا احاطہ کرتا ہوں تو وہ مجھے ڈسپلن کے پابند نظر آتے ہیں۔ وقت کی قدر کوئی ان سے سیکھے، وہ اپنے ادارے کے سربراہ ہونے کے باوجود وقت مقررہ پر دفتر آتے۔ ان کی ٹائمنگ اتنی زبردست تھی کہ لوگ انھیں دیکھ کر اپنی گھڑیوں کا ٹائم ٹھیک کر لیتے۔ نفیس ملبوسات زیب تن کرتے، صفائی نصف ایمان ہے پر پورا یقین رکھتے تھے، کمٹمنٹ کے اتنے پکے تھے کہ جو کسی سے وعدہ کر لیا پھر اس کو وفا کرنے کی پوری کوشش کی۔ معاملات کو ٹالنے کی بجائے فوری حل کی طرف توجہ دیتے۔ ان کی سرشت میں لارا لگانے کی سوچ نہیں تھی۔ ہمیشہ اصولی، کھری اور بغیر لگی لپٹی رکھے بات کرتے بے شک کوئی ناراض ہو جائے۔وہ شاید نظریۂ پاکستان پر پہرہ دینے کے لیے ہی پیدا ہوئے تھے۔ ساری زندگی انھوں نے نظریۂ پاکستان کی آبیاری کی۔ حالات و واقعات کے تھپیڑوں کے آگے آہنی چٹان بن کر کھڑے رہے۔ حکمرانوں کو راہِ راست پر رکھنے کے لیے صحافت کے رہنما اصول واضح کیے۔ پوری زندگی انھوں نے ملک وقوم کے مفاد کے خلاف کوئی بات برداشت نہ کی۔ نظریۂ پاکستان کے تحفظ کے لیے آخری حد تک جانے سے بھی گریز نہ کیا۔ وہ تحریک پاکستان کے کارکنوں کے وارث تھے۔ انھوں نے نئی نسل کو تحریک پاکستان سے روشناس کروانے اور نظریۂ پاکستان اور حصولِ پاکستان کے مقاصد کی یاد تازہ رکھنے کے لیے ادارے قائم کیے جو آج بھی اپنا کام احسن طریقے سے سرانجام دے رہے ہیں۔ انھوں نے ساری زندگی اپنے ذاتی مفادات قربان کیے لیکن قومی مفادات پر کبھی کوئی سمجھوتہ نہ کیا۔ اصولوں کی خاطر بڑے سے بڑے جابر حکمران کے سامنے بھی ڈٹ گئے اور تاریخ نے ان کی اصول پسندی کو سرخرو کیا۔ تاریخ نے ہمیشہ ان کے فیصلوں کو جلا بخشی۔ مسئلہ کشمیر، بھارت کے ساتھ تعلقات، ایٹمی دھماکوں، افغان ایشو اور بھارت کے ساتھ پانی کے تنازعہ پر ان کے ٹھوس موقف نے قوم کی رہنمائی کی۔ خاص کر ہندو بنیے کی نفسیات کو وہ اچھی طرح سمجھتے تھے۔ انھوں نے ہمیشہ بھارت کی مکاریوں چالبازیوں کو بے نقاب کیا۔ ان کی ساری زندگی میں ’نوائے وقت‘ میں غلط خبر شائع ہونے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور سچی خبر کو رکوانے کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ انھوں نے اپنے رپورٹروں کی سچی خبروں پر پہرہ دیتے ہوئے حکمرانوں کی ناراضیاں مول لیں، عدالتوں کا سامنا کیا لیکن اپنے کارکنوں کو کہیں لیٹ ڈاؤن نہیں ہونے دیا۔ نئی نسل کے صحافیوں نے اصول پسندی سیکھنی ہو تو وہ مجید نظامی کی زندگی کا مطالعہ کریں۔ پاکستان کے ساتھ ان کی جذباتی وابستگی اللہ تعالیٰ کو اتنی پسند آئی کہ جس سعد گھڑی میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا اسی گھڑی یعنی 27 ویں رمضان المبارک کو انھوں نے اس دنیا فانی سے کوچ کیا۔ ان کے رفقا اور تحریک پاکستان کے ورثا کو اطمینان ہے کہ ان کی صاحبزادی رمیزہ مجید نظامی نے اس بحرانی دور میں بھی ادارہ کو ان کی پالیسیوں کے مطابق رواں رکھا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ان کے ورثا اور ساتھیوں کو ان کے مشن پر کاربند رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین