افسر شاہی اور سکھا شاہی
باادب باملاحظہ ہوشیار‘ نگاہ روبرو جناب اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ تشریف لارہی ہیں! کیا الفاظ ہیں بندہ سن کر ہی نشے میں آجاتا ہے ‘
ابھی فضا میں ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور اسسٹنٹ کمشنر سیالکوٹ کی گفتگو کی دھول موجود تھی کہ اسسٹنٹ کمشنر کوئٹہ کی ایک آ ڈیو گفتگو سننے کے بعد دل پر بوجھ مزید بڑھ گیا ہے
کیفیت عجیب ہوگئی ہے۔
؎ حیراں ہوں دل کوروؤں کہ پیٹوںجگر کومیں
مقدور ہوتو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
یا مظہر العجائب یہ ماجرا کیا ہے؟ ہم اخلاقی طورپر کتنا نیچے جاسکتے ہیںیہ ناپنے کیلئے غالباً کوئی پیمانہ ایجاد نہیں ہوا۔
بدتمیزی‘ بدتہذیبی اور رعونت
یہ تین الفاظ افسر شاہی کی ذہنیت کو عیاں کرنے کے لیے کم ہیںمگر کیا کروں زیادہ لکھنے سے بھی کیا فرق پڑ جائے گا؟ ڈاکٹر صاحبہ اور سیالکوٹ کی اسسٹنٹ کمشنر کے درمیان جو کچھ ہوا اس پر دل بیٹھ گیا کہ سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ نے ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے کسی عزیز ‘ ووٹر‘ سپورٹر کے گودام پر چھاپہ مارا اور سیل کر دیا تھا اور ڈاکٹر صاحبہ کی سفارش نہیں مانی تو انہوں نے عوامی سطح پر اس کا بدلہ لیا‘ یہ تھیوری ابھی پھل پھول رہی تھی کہ یاروں نے شریف فیملی اور نون لیگ کے لوگوں کے ساتھ اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ کی تصاویر بھی اپ لوڈ کر دیں۔ اللہ جانے سچ کیا ہے اور جھوٹ کتنا؟
ایمان کی بات ہے اچھے وقتوں میں جسے گزرے کوئی زیادہ عرصہ نہیں ہوا‘ پہلے خبر آتی تھی اور پھر کبھی کبھار کسی کی تردید آتی تھی۔ ہمیں بڑی آسانی سے اصل حقیقت سمجھ آجاتی تھی‘ اب تو اگر سوشل میڈیا کے میدان میں ایک خبر کے چھ پہلو موجود ہوں تو آپ بڑے خوش قسمت ہوں گے اگر ان میں سے کوئی ایک بات سچی نکل آئے وگرنہ ایک معاملے سے متعلق بارہ یاموجود تمام خبریں بھی جھوٹی ہوسکتی ہیں۔
مثلاً اگرسوشل میڈیا پر بتایا جائے کہ ’’حبیب رفیق یونیورسٹی آف لیتھل سائنسز‘‘ کے طلباء کے درمیان نسلی بنیادوں پر تصادم ہوا ہے اوراس تصادم کے دوران چار طلباء ہلاک ہوگئے جن کا تعلق شمالی علاقہ جات سے بتایا جارہا ہے۔ پولیس نے کارروائی کرنے سے انکار کر دیا ہے اور لاشیں بھی غائب کر دی ہیں۔ اب اس خبر کے ٹوئیٹر ‘ فیس بک یا کسی بھی سوشل میڈیا کے آوٹ لیٹ پر نشر ہونے کے بعد سچے جھوٹے سوال وجواب کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہو جائے گا کہ اصل حقیقت اس ساری بکواس میں کہیں گم ہو جائے گی۔ طلباء کے نام‘ علاقہ‘ تھانے‘ پولیس افسر کی تفصیل سب من گھڑت سوال وجواب ہوں گے اور کئی ایسے لوگ ہوں گے جنہیں یہ ہرگز خبر نہ ہوگی کہ حبیب رفیق یونیورسٹی آف لیتھل سائنسز کا کوئی وجود نہیں اور پاکستان میں ایسے نسلی بنیادوں پر ہنگاموں کی بہت کم گنجائش ہوتی ہے لیکن سوشل میڈیا پر بھی پاکستان کی طرح ’’سب چلتا ہے‘‘۔
انگریزوں نے پاکستان کی اس سروس کا ڈھانچہ‘ مالک اور غلام کو ذہن میں رکھ کر بنایا تھا جس میں افسران جن کو ’’افسر شاہی‘‘ کہا جاتا ہے گویا آقا ہیں اور ہم سب عوام ان کی رعایا۔ اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان کو جالگیں اوران کا معیار پاتال میں گر گیا مجال ہے کہ کسی کے کان پر جوں تک رینگی ہو۔ پھل اگر خراب مل بھی رہا ہے تو اس میں افسران کا کیا قصور؟ وہ کیا کریں گرمی ہے‘ کورونا ہے اور روزہ ہے ہم نے تو کبھی عام دنوں میں بھی لوگوں کو انسان نہیں سمجھا۔ دوسری جانب اے سی کوئٹہ نے میڈیکل کی طالبات کو کہا کہ تم جیسے ڈاکٹر تو ہزاروں ہونگے مگر اے سی کوئٹہ صرف ایک ہے اور وہ میں ہوں میں، اب میں تمہیں… کیا انداز تخاطب ہے اور کیا طرز تکلم؟ گویا عوام کی عزت نفس سے ان کا کوئی واسطہ نہیں انہیں لوگوں کی خدمت اور اپنے عوام کے مسائل کے حل کرنے کے لیے ذمہ داریاں دی گئی تھیں انہیں نبھانے سے کسی افسر کو کوئی غرض نہیں آپ کوخدمت کے بجائے حکمرانی کا شوق چرایا ہے نسلوں کی بھوک مٹانے کے لیے سی ایس ایس کا چراغ ہاتھ لگا ہے تو سب کے سب مل کر اسے گھسائے جارہے ہیں‘ گھسائے جارہے ہیں‘ اب تو چراغ کی بھی بس ہوگئی ہے۔ یہ سب’’کاٹھے مالک‘‘ جو تین میں ہیں اور نہ تیرہ میں‘ یاد رکھیئے جو کسی دوسرے کو عزت نہیں دے سکتا اس سے زیادہ مفلس کوئی ہو نہیں سکتا۔
افسر شاہی اور سکھا شاہی میں کچھ فرق تو رہنے دیں۔ وگرنہ یہ بات تو روزازل سے طے ہے کہ کسی دوسرے کو آپ وہی کچھ دے سکتے ہیں جو آپ کے پاس ہے اور اگر آپ لوگوں کوعزت نہیں دے پارہے تو اس کا مطلب کسی لغت میں دیکھنے کی ضرورت نہیں’’وہ‘‘ آپ کے پاس ہے ہی نہیں!