مقبوضہ کشمیرجہاں پہ اب مکمل لاک ڈائون کو دو سو اسی دن ہو نے والے ہیں اس وقت وہاںیہ حالات ہیں کہ کرفیو نافذ ہے لوگوں کے نقل و حمل پہ پابندی ہے، مو بائل انٹرنیٹ سروس معطل ہے ، اخبارات اور ٹی وی چینل بھی بند ہیں ۔ وہ لوگ اس وقت کس حال میں ہوں گے یہ سمجھنا اس لئے مشکل نہیں کہ آج کورونا کے باعث ساری دنیا لاک ڈائون سے محض دو ماہ میں جس طرح گھبرا چکی ہے اور جس قدر اسکی وجہ سے دنیا کی معیشتوں کو نقصان پہنچاہے۔ یہ ہم سب کیلئے سمجھنے کو کافی ہے کہ کشمیریوں کی معاشی، نفیساتی ، جسمانی حالت اس وقت کیا ہو گی ؟ اس پہ ستم یہ کہ بڑھتے ہوئے انڈین فوج کے مظالم نے کشمیریوں کا جینا عذاب کر رکھا ہے ۔ ریاض احمد نائیکو کی شہادت کی کشمیر سے آنیوالی خبر نے دل مغموم کر دیا ہے ۔ کیسے ہیرے لوگ آزادی کی راہیں روشن کرنے کیلئے تاریک راہوں میں مارے جا رہے ہیں ۔
۶ مئی کو سرینگر میں حزب المجاہد ین کے چیف آپریشنل کمانڈر ریاض احمد نائیکو کو بھارتی فوج نے ضلع پلوامہ کے علاقے بیگ پورہ میں محاصرے اور تلاشی کے دوران شہید کر دیا ۔ ریاض نائیکو جن کی والدہ کی شدید علالت کی وجہ سے 5 مئی کی رات کو جب وہ انکی عیادت کرنے اپنے آبائی گائوں پہنچے تو بھارتی فوج نے انٹیلی جنس کی معلومات کی بنیاد پہ انکے کے گائوں کا گھیرائو کر لیا ۔ 6مئی کو صبح نو بجے گن فائٹ کا آغاز ہو ا جو کہ کہا جاتا ہے کہ چار گھنٹے جاری رہا اور جب بھارتی فوج کو اپنے مقصد میں ناکامی واضح نظر آئی تو انہوں نے بارود لگا کر ریاض نائیکو کے گھر کو تباہ کر دیا جس میں وہ جانبر نہ ہوسکے اور شہیدوں کی فہرست میں ایک نئے بہادر شخص کا اضافہ ہو گیا اور یوں شجاعت اور ہمت کا یہ استعارہ شہید ہو کر امر ہوگیا ، ان کی شہادت کی خبر جونہی مقبوضہ علاقے میں پھیلی لوگ شدید اشتعال میں گھروں سے باہر نکل آئے ۔ شہادتوں کا نہ رکنے والا سلسلہ بھی کشمیریوں کے عزم کو آج تک نہیں ہرا سکا ۔
ریاض نائیکو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انجینئر بننا چاہتے تھے لیکن 2010 میں جب سو سے زائد کشمیریوں کی شہادت کے بعد کشمیر میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے اور بھارت کیخلاف کشمیری نوجوانوں کی تحریک زوروں پر تھی تو یہ بھی اس تحریک کا حصہ بن گئے انہوں نے میتھمیٹکس میں ڈگری لے رکھی تھی اور ان دنوں مقامی سکول میں استاد کے فرائض انجام دے رہے تھے ۔ ایک موقع ایسا آیا جب وہ اپنے ساتھیوں سمیت گرفتار ہو گئے بھارتی ٹارچر سیل میں ان پہ مظالم کی انتہا کر دی گئی کہ کسی طرح انکی ہمت کو توڑا جا سکے لیکن انکے زخموں نے ان کو ایسی توانائی بخشی کہ جیل سے رہا ہونے کے بعد باقاعدہ آزادی کی تحریک کا حصہ بن گئے ۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد حزب کو آپریشنلی سنبھال لیا اور پھر مسلسل چار سال بھارتی فوج کو ایسے ناکوں چنے چبوائے کہ مجبورا انہیں انکے سر کی قیمت مقرر کرنا پڑی ۔ بھارتی سرکار اگر یہ سوچ رہی ہے کہ ایک ریاض نائیکو کی شہادت کشمیریوں کے حوصلے پست کر دیگی تو یہ ان کی سخت غلط فہمی ہے۔
ادھر رشی کپور کی موت پہ سوگ منانے والا ہمارا پاکستانی میڈیا اس خبر پہ مکمل لاتعلق دکھائی دیا جبکہ بھارتی میڈیا نے ریاض احمد کی شہادت پہ ایسے جشن منا یا جیسے انہوں نے کشمیر فتح کر لیا ہے ۔ پاکستانی حکومت کا بھی کشمیر کے حوالے سے رویہ محض لفاظٰی ہی رہا ہے ۔ہم بڑے بڑے دعوں اور تقریروں سے آگے نہیں بڑھ سکے ۔ ہمارے وزیر اعظم صاحب کی اقوام متحدہ میں تقریر اور کچھ ہفتے کا خاموش احتجاج ، کیا ہم نے کشمیریوں سے اپنی محبت کا حق ادا کیا ۔ کشمیر سے ہمارا محبت کا رشتہ تو اس بات کا متقاضی تھا کہ ہم کشمیریوں کی ڈھال بن جاتے ۔ ان کیلئے میدان عمل میں ایسے اٹھ کھڑے ہوتے کہ بھارت کہ مکروہ عزائم خاک میںمل جاتے ۔
دل میں حسرت کی مچلتی ہوئی تصویر کو دیکھ
خون سے چہرے پہ لکھی ہوئی تحریر کو دیکھ
آتش اپنوں نے لگائی ہے میرے صحن چمن
میرے سفاک سے دشمن کی تدبیر کو دیکھ
اک طرف لاشے ، تو آنچل ہیں بریدہ ہر سو
میرے جلتے ہوئے ، اجڑے ہوئے کشمیر کو دیکھ
آج غاصب سے چھڑا لے میرے مولا مرا کشمیر
اک نظر وادیٗ کشمیر کو ، جاگیر کو دیکھ
میرے بے جان سے لفظوں کی صدا بھی سن لے
انکے اندر جو چھپی ہے اسی تاثیر کو دیکھ
سارہ کے دل میں ہے بس شوق شہادت کی لگن
اسکے سینے میں دھڑکتے د ل دلگیر کو دیکھ
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024