صدر جنرل ضیاء الحق پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے، انھوں نے ایک ایسی تحریک کے نتیجے میں ملک میں مارشل لاء لگایا تھا جس کا نعرہ اور مطالبہ تھا کہ پاکستان میں نظامِ مصطفیؐ نافذ کیا جائے 1977 میں بھٹو مخالف تحریک جو ابتدا میں دس مارچ 1977 کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف چلائی گئی تھی کا بنیادی مطالبہ یہ تھا کہ قومی اسمبلی کے انتخابات دوبارہ کرائے جائیں کیونکہ ان انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے ۔ بعد میں بھٹو مخالف نو جماعتی اتحاد نے ، جنہیں نو ستارے بھی کہا جاتا تھا، انتخابات کے ساتھ ساتھ ملک میں نظام مصطفیؐ نافذ کرنے کا مطالبہ بھی شامل کر لیا۔ یہ مطالبہ زور پکڑتا گیا، اسی مطالبے اور نعرے کو جنرل ضیاء الحق نے اچک لیا، انھوں نے مارشل لاء لگا کر ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنے کا وعدہ کیا۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم نے علماء اور مشائخ سے، جو ان کی خاص کانسٹیٹونسی ( Constituency ) تھی کے ساتھ اسلامی نظام کے نفاذ کیلئے مشورے بھی کئے۔ ہر سال اسلام آباد میں جنرل ضیاء علماء اور مشائخ کانفرنس منعقد کرتے تھے جن میں اسلامی نظام کے نفاذ کے عزم کا اعادہ کیا جاتا تھا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کو بھی ٹاسک دیا گیا تھا کہ وہ ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کیلئے سفارشات تیار کرے لیکن نفاذِ اسلام کا یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا، الٹا فقہی اختلافات میں شدت پیدا ہونے لگی۔
اس زمانے میں جنرل ضیاء الحق کو مساجد کو لوگوں کی اصلاح اور تعلیم کیلئے استعمال کرنے کا مشورہ دیا گیا۔ ضیاء دور میں مسجد مکتب منصوبہ شروع کرنے کا فیصلہ گیا اور اس منصوبے پر کسی حد تک کام بھی کیا گیا لیکن یہ کام ادھورا رہ گیا۔
صدر ڈاکٹر عارف علوی بھی مساجد کو ایک مختلف تناظر میں اصلاحِ معاشرہ کیلئے استعمال کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ وہ کووڈ 19 جو ایک عالمی وبا ہے، سے نمٹنے کیلئے علماء اور مساجد کو کلیدی کردار دینا چاہتے ہیں۔ صدر کے آئینی اختیارات انھیں ایگزیکٹیو اتھارٹی تو نہیں دیتے لیکن وہ کرونا وائرس کے خاتمے کیلئے بڑے فعال ہیں۔ انھوں نے رمضان المبارک میں نماز تراویح، اعتکاف اور دوسری نمازوں کی ادائیگی کیلئے ملک کے جید علماء اور مفتیان کرام سے مل کر ایک لائحہ عمل بنایا ہے۔ حکومت یا صدر مملکت اور علماء کے درمیان جو بیس نکاتی لائحہ عمل طے ہوا ہے ان نکات کے مطابق مساجد میں نمازی سماجی دوری کے اصول کو اپنائیں گے، پچاس سال سے زائد کی عمر کے لوگ مساجد میں تراویح اور دوسری نمازوں کیلئے نہیں جائیں گے، بچوں پر بھی مسجدوں میں جا کر نماز کی ادائیگی پر پابندی ہو گی۔ مسجد میں ماسک کے بغیر بھی نماز کی ادائیگی پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ اجتماعی سحری اور افطاری کا سلسلہ بھی ختم کیا گیا ہے۔ یہ دیکھنے کیلئے کہ کیا ان بیس نکات پر عمل ہو رہا ہے یا نہیں، صدر علوی اسلام آباد اور راولپنڈی کی کئی مسجدوں کا دورہ بھی کر چکے ہیں۔ انھوں نے ارکان قومی اسمبلی کو خط بھی لکھا ہے کہ وہ اپنے حلقوں کی مساجد میں جائیں، لوگوں سے پبلک ریلیشنگ کریں، انھیں رمضان میں نماز کی ادائیگی کے ایس او پیز پر عمل کیلئے قائل کریں اور اپنے سیاسی اثر و رسوخ کو بھی بڑھائیں۔ جمعرات کے روز نوائے وقت اور نیشنل کے پینل کو انٹرویو دیتے صدر علوی نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ان کا علماء کرام کے ساتھ جو سمجھوتہ ہوا تھا اس پر اس کی رو کے مطابق عمل درآمد نہیں ہوا۔ صدر کا کہنا تھا کہ شہروں میں تو کسی حد تک مساجد میں لوگ ان شرائط پر عمل کر رہے ہیں جن پر اتفاق ہوا تھا لیکن دیہاتی مساجد میں ان شرائط کی پرواہ نہیں کی جا رہی ۔خاص طور پر خیبر پختونخواہ میں صدر کے خیال میں معاہدے پر بالکل عمل نہیں ہو رہا۔ صدر علوی کا پس منظر صحت کے شعبہ کا ہے۔ وہ مساجد کو لوگوں کی سماجی اصلاح کیلئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسجد اسلام میں اصلاحِ کردار کا بنیادی مرکز ہے اور مسجد نے مسلمانوں کی اخلاقی ،سماجی اور روحانی تربیت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ مسجد کو اب بھی وہ رول دیا جا سکتا ہے جو کہ نبی ؐ اور خلفاء کے زمانے میں دیا گیا تھا۔ صدر کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت سمیت ماضی کی حکومتیں بھی کوششیں کرتی رہی ہیں کہ دینی مدارس کی اصلاح کی جائے اور ان سے فارغ ہونے والے نوجوانوں کو صرف پیش امام نہ بنایا جائے بلکہ انھیں دنیاوی تعلیم بھی دی جائے تا کہ وہ دنیاوی تعلیم یا دوسرا ہنر سیکھ کر اپنے لئے با عزت روزگار تلاش کر سکیں۔ وہ محض مسجدوں اور مدارس کے چندے کا محتاج بن کر نہ رہ جائیں۔ مسجد کو اس طرح کا کلیدی کردار دینے کی کئی کوششیں ماضی میں بھی ہو چکی ہیں لیکن اس میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی۔ دیکھنا یہ ہے کہ صدر علوی اپنی اس تحریک میں کس حد تک کامیاب ہونگے۔ ہماری ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں۔ صدر کا خیال ہے کہ اگر حکومت ، مدارس اور مساجد کے منتظمین کے درمیان اعتماد کے فقدان کو ختم کر دیا جائے تو یہ کام آسانی سے ہو سکتا ہے۔
صدر مساجد کو اصلاحِ احوال کیلئے درسگاہوں کا رول دینے کے علاوہ خواتین کو ان کے وراثتی حقوق دلوانے کیلئے بھی سرگرم ہیں۔ انھوں نے اسلامی نظریاتی کونسل کو خط لکھا ہے کہ وہ اس سلسلے میں مناسب قانون سازی کیلئے سفارشات تیار کریں اور خواتین کو ان کے وراثتی حقوق دلوانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ صدر علماء کو بھی متحرک کر رہے ہیں کہ وہ پاکستان کی نصف آبادی کے وراثتی حقوق انھیں دلوانے کیلئے متحرک ہوں اور قرآن و نبی ؐ کی ہدایت کے مطابق خواتین کو وراثت میں حقوق دلوائے جائیں۔ صدر علوی کا مسجد مکتب اور خواتین کو وراثتی حقوق دلوانے کے منصوبے اگر تکمیل کو پہنچے تو یہ ان کی بڑی کامیابی ہو گی۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38