وردی میں ملبوس اپنی پولیس کے سپاہیوں، حوالداروں، چھوٹے بڑے تھانیداروں اور اِس طرح اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا کی گئی زمین کی دنیا میں خرید، فروخت کرنے اور منتقل کرنے کے دنیاوی طریقوں کے علمِ پردسترس رکھنے والے پٹواریوں، گرداوروں، تحصیلداروں اور بڑے چھوٹے رجسٹرداروں کا نام سنتے ہی مجھ پر ایک انجانا سا خوف طاری ہو جاتا ہے۔ مگر اِسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پولیس کے ہر سپاہی، تھانیدار، ڈپٹی اور ڈسٹرکٹ افسر پر عوام کا اعتماد بحال نہیں۔ اِسی ’’پُلس‘‘ میں سینکڑوں اللہ والے، نیک سیرت، فرض سناس، محب وطن اور ایماندار اہلکار اور افسر موجود ہیں۔ جن پر قوم کو فخر ہے۔پنجاب کے سابق آئی جی حاجی محمد حبیب الرحمنٰ، انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ جاوید نورمرحوم، سندھ کے سابق آئی جی قمر عالم جب تک پولیس کے سربراہان رہے ڈسپلن اور رشوت کا خاتمہ اُنکی اولین ترجیحات رہیں۔ مذکورہ بالافسران سے کئی ملاقاتیں رہیں اور جہاں تک مجھ سے ممکن ہو سکتا پولیس اصلاحات کے بارے میں میں نے اُنہیں تجاویز پیش کی۔ افسوس! کہ بڑی توندوں والے اہلکار اور افسران کے بارے میں حاجی محمد حبیب الرحمٰن کو دی گئی میری تمام تر تجاویر اُنکی ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی داغ مفا رقت لے گئیں۔
پولیس کا سٹرکچر کہاں تک تبدیل ہوا۔ یہ جاننے کے لئے اگلے روز مجھے ایک انتہائی مختصر وقت کے لئے وطن عزیر جانا پڑا۔ عدلیہ، وکلائ، تھانے دیگر سرکاری ادارے اور اُن میں کام کرنے والے بڑی بڑی خوبصورت اور چمکتی میزوں اور کرسیوں پر بیٹھنے والے افسروںکی مسکراہٹوں اور اُنکے فوری احکامات جاری کرنے کے اختیارات سے بھی استفادہ حاصل کیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی انسپکشن ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر پرویز خان نے تو میری موجودگی میں ایک ہی گریجویٹ ملازمہ کو جسے گذشتہ کئی ماہ سے تنخواہ نہیں دی جا رہی تھی دادرسی کرتے ہوئے موقع پر ہی احکامات جاری کرتے ہوئے تنخواہ نہ دینے والے محکمہ کے سربراہ اُسکی فوری رپورٹ طلب کر لی۔لاہور کی سٹی ٹریفک پولیس کی جانب سے کی گئی ایک سپیڈی کارروائی دیکھ کر عام پولیس کے بارے میں پائی گئی اپنی منفی سوچ کو بھی اِس بار تبدیل کرنا پڑا۔واقعہیوں ہے کہ چوبرجی سے متصل بڑی شاہراہ پر واقع ٹیلی فون کے ایک پرائیویٹ دفتر سے ٹیلی فون TOp up کروانے کیلئے مجھے رُکنا پڑا۔ گاڑی کو دکان کے سامنے ادھڑی سڑک پر اس انداز سے پارک کرنا پڑا جس سے ٹریفک میں رکاوٹ پیش نہ آئے۔ ڈرائیور کو ہدایت کی وہ گاڑی کے اندر ہی رہے 10 منٹ بعد دفتر سے جب میں واپس گاڑی کی جانب آیا ٹریفک وارڈن کو چالان کی پرچی ہاتھ میں تھامے اپنا منتظر پایا۔ ڈرائیور نے غالباً وارڈن کو بتا دیا تھا کہ چالان کی پرچی وہ مجھے ہی دے؟سلامُ علیکم کے بعد میں نے وارڈن (جس کا نام جان بوجھ کر میں نہیں لکھ رہا تاکہ اُسکی ملازمت متاثر نہ ہو) سے کہا! جی فرمائیے! آپکی گاڑی یہاں پارک تھی جبکہ قانونی طور پر گاڑی پارک کرنا ممنوع ہے… اِسلئے آپکو 200 روپے کا چالان کرنا مجبوری تھی… مگر یہاں تو اور گاڑیاں بھی پارک ہیں جبکہ میرا ڈرائیور گاڑی کے اندر موجود تھا آپ اُسے گاڑی Move کرنے کا حکم دے سکتے تھے۔؟؟ اور پھر سب سے بڑی افسوسناک بات کہ یہاں سِرے سے نوپارکنگ کا کوئی سائن ہی موجود نہیں اور آپ نے پھر بھی 200 روپے کا جرمانہ کرویا؟؟ میں نے وارڈن کو 200 روپے کی دو نوٹ دیتے ہوئے کہا! رسید حاصل کرتے ہی مجھے وارڈن کی بے بس پر رونا آیا کہ اُس نے رسید پرجرمانے کا وقت اور اپنے دستخط ہی نہ کیے تھے۔ اُسکا کہنا تھا کہ آپ نے بالکل درست فرمایا مگر یہ سوالات آپ ہمارے افسران بالا سے کریں میرا کام تو صرف اپنا فرض پورا کرنا ہے۔ میں تو آپ کا شکریہ ہی ادا کر سکتا ہوں۔ مجھے اِس وارڈن پر ترس بھی آنے لگا تھا کہ اُسکی قانونی سوئی صرف اور صِرف ’’فرض‘‘پر ہی اٹک چکی تھی۔ اپنے ایس ایس پی کا فون نمبر دنیا پسند کریں گے۔ اپنے صاحب کا نام دے سکتا ہوں۔ ٹیلی فون اِس وقت یاد نہیں وارڈن نے جواب دیا! مزید بحث اُس سے نامناسب تھی ایس ایس پی آصف صدیق کا نام ہی کافی تھا۔ مجھے اُسی شام لندن کے لئے روانہ ہونا تھا چنانچہ ایس ایس پی سے رابطہ نہ ہو سکا لندن پہنچتے ہی whatsapp پر آصف صدیق صاحب سے رابطہ ہُوا۔ اور مَیں نے اپنے 2 سو روپے کے چالان کی تمام تر داستان اُنہیں سُنا دی۔آصف صدیق کی متاثر کن گفتگو سے پہلی فرصت میں یہ اندازہ لگانا قطعی مشکل نہ تھا کہ اُنکا تعلق پولیس کی کسی مخصوص فورس سے ہے خوبصورت اور نرم لہجہ کے ساتھ معذرت خوانہ رویہ اور مجھ سے کی گئی ہمدردی نے مجھے ٹریفک پولیس کے اِس سربراہ کی تعریف کرنے پر مجبور کر دیا۔ آصف صدیق کا کہنا تھا کہ آئندہ 24 گھنٹے میں وہ نوپارکنگ سائن لگانے کے احکامات ابھی جاری کر دیتے ہیں اور اِس سلسلہ میں ڈی ایس پی اکرام جلد مجھ سے رابطہ قائم کر رہے ہیں۔ چند ہی لمحوں بعد ڈی ایس پی کا فون آ گیا۔ معذرت کے بعد اُنہوں نے اطلاع دی کہ نوپارکنگ سائن نصب کرنے کیلئے ولیس عملہ اور مزدور کام پر لگا دیئے گئے ہیں اور پھر یہی کچھ ہُوا 8 گھنٹے کے بعد مجھے نوپارکنگ سائن نصب کی تمام تصاویر موصول ہو گئیں۔ فخر ہے سٹی ٹریفک پولیس کے اِن افسروں پر جنہوں نے 200 روپے فائن کے عوضِ علاقے کے دیگر عوام کیلئے آسانی پیدا کر دی مگر! یہ سوال کہ خریدار حضرات پارکنگ کہاں کریں گے ضرور پریشان کئے ہوئے ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024