قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ حکومت سے بار بار کہا کہ آئیں بیٹھیں اور مسائل پر بات کریں لیکن حکومت نے پارلیمنٹ کو اہمیت نہیں دی، آج سارے سیاست دان غیر محفوظ ہو چکے ہیں، حکومت کو اب پارلیمنٹ یاد آرہی ہے جب چڑیاں چگ گئیں کھیت، اندھے گھوڑے نے اِنہیں کھائی میں گرادیا ہے۔بے نظیر بھٹو کے قاتل کو جس طرح چھوڑا گیا پارلیمنٹ اس پر کچھ کرے، بے نظیر بھٹو کی آواز دنیا میں گونجتی تھی مگر آج افسوس اور ماتم کرنے کا دن ہے کہ لیڈر کے قاتل چھوٹ گئے، بتایا جائے کیا عالمی طاقتوں کے کہنے پر بی بی کے قاتلوں کو چھوڑا گیا، آج قوم کا سرشرم سے جھکنا چاہئے، بے نظیر بھٹو کسی ایک جماعت کی نہیں عوام کی لیڈر تھیں، یہ کہنا غلط ہے کہ بے نظیر بھٹو کی سیاست پی پی تک محدود تھی، بی بی کے قتل کے ملزموں کی رہائی پیغام ہے کہ عوامی لیڈروں کے قاتلوں کو چھوڑ دیا جائے گا، واقعہ میں ذمہ دار پولیس افسروں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی، یہ افسو س کامقام ہے ہم کہاں احتجاج کریں کیا سڑکوں پر احتجاج کر کے حالات خراب کریں۔ قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ بے نظیر بھٹو کی شہادت ہوئی تو جائے حادثہ کو دو گھنٹے کے اندر صاف کر دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عام قسم کے حادثے یا قتل ہوتے ہیں۔ ان کی جگہ کا گھیراؤ کیا جاتا ہے اور ایک، ایک چیز کا فرانزک ٹیسٹ ہوتا ہے چیک کیا جاتا ہے اور تین، تین چار، چار دن اس جگہ کو کور رکھا جاتا ہے اور تحقیقات ہوتی ہیں۔ اتنی بڑی لیڈر کی شہادت کے بعد جائے وقوعہ کو دو گھنٹے کے اندر جلد بازی میں دھو دیا گیا۔ پرویز مشرف پر بھی اس قسم کا حملہ ہوا تھا اس کو چار دن گھیرے میں لئے رکھا گیا تھا اور وہاں سے موبائل کی ایک چپ ملی تھی اس چپ کے ذریعے دہشت گردوں تک پہنچا گیا وہ پکڑے گئے اور ان کو سزائے موت دی گئی۔ یہ کھلا قتل تھا اور ساری چیزیں سامنے آ گئی تھیں۔ بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اتنی بڑی لیڈر کی شہادت ہو وہ لوگ پکڑے بھی جائیں۔ نامزد بھی کئے جائیں۔ ایسوسی ایٹ بھی کئے جائیں اور ان کو چھوڑ دیں۔ یہ ایسی بات نہیں جس کو نظرانداز کیا جائے۔ یہ بات شاید تاریخ کا حصہ بن گئی ہے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں محب وطن پاکستانی لیڈر جو اپنی قوم کے لئے جیتے ہیں اور اپنی قوم کے لئے مرتے ہیں اگر کوئی دہشت گرد کسی کے اشارے پر اسے شہید کر دے تو اس کو فوری طور پر چھوڑ دیا جائے گا کیونکہ ہم ملک میں خیر کی امید کرتے ہیں۔ پھر کیوں نہیں وزیر داخلہ جیسی اہم شخصیت پر بھی کوئی حملہ کر دے۔ خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کو بے نظیر کے قاتلوں کی رہائی کی مذمت کرنی چاہئے۔ مگر ہم اپنے حصار میں بندھے ہوئے ہیں۔ اپنے، اپنے مائنڈ سیٹ اور ایجنڈا میں بندھے ہوئے ہیں اور ہم مشترکہ طور پر کوئی کام نہیں کر سکتے اور ہم اکیلے اکیلے ہوتے مرتے جائیں گے۔ کوئی ہمارے اوپر رونے والا نہیں ہو گا جب بے بسی اس حد تک پہنچ جائے گی۔ خاموشی اس حد تک سناٹا کر دے گی اگر کوئی آواز بھی نکلے گی تو اس کو گونج سمجھا جائے گا مگر وہ آواز نہیں نکل رہی۔ یقیناًپی پی کا نقصان ہوا ہے، ظاہراً پی پی کا نقصان ہے، یہ پورے عالم اسلام کا نقصان ہے۔ بے نظیر بھٹو عالم اسلام کی لیڈر تھیں۔ خورشید شاہ کا کہناتھا کہ پراسیکیوشن کو جان بوجھ کر بھی کمزور کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بے نظیر بھٹو نے کہا تھا کہ میں پاکستان کی پارلیمنٹ کو میوزیکل چیئر نہیں بناؤں گی کہ آج وہ آتا ہے ۔ اس نے کہا تھا کہ ملک میں جمہوریت چاہتی ہوں۔ اس ملک کے عوام کو حق دینا چاہتی ہوں اور آج اس کو حق نہیں ملتا اور انصاف نہیں ملتا۔ خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ میں دو دن سے اسلام آباد میں نہیں تھا۔ میں سوات میں تھا۔ مجھے بدین، سانگھڑ، پنوں عاقل جو میرا علاقہ ہے، گھوٹکی، ٹنڈو محمد خان سے ٹیلی فون اور میسج آ رہے ہیں کہ سندھ میں پانی نہیں ہے۔ جانوروں کی تصویریں تک ان لوگوں نے بھیجی ہیں۔ سندھ میں جانوروں کے پینے کے لئے پانی نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے بھی اپنے لوگوں کے ساتھ جا کر احتجاج میں شامل ہونا پڑے گا۔ وہ زمانہ گیا جب فرانس کی شہزادی نے کہا تھا کہ روٹی نہیں تو کیک اور پیسٹریاں کھا لیں۔ پانی نہیں مل رہا تو منرل واٹر پیو، یہ تو بڑے لوگ پئیں گے غریب آدمی تو نہیں افورڈ کر سکتا۔ خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ بجٹ پر آج اہم بحث ہو گی مگر کوئی حکومتی ذمہ دار سننے والا نہیں،بے نظیر بھٹو کا میں نے ذکر کیا ہے، کوئی جواب دینے والا نہیں کیا کرینگے، پارلیمنٹ کو بے بس کر دیا ہے۔ پارلیمنٹ کا احترام ختم کر دیا اس کی خودمختاری اور طاقت ختم ہو گئی ہے اور ہم سب نے مل کر یہ کیا ہے اور خاص طور پر سارا ڈس کریڈٹ حکومت کو جاتا ہے کہ حکومت نے اس پارلیمنٹ کو وہ اہمیت نہیں دی جو اس کو دینا چاہئے تھی۔ بار بار ہم یہ کہتے رہے کہ پارلیمنٹ میں آئیں۔ بیٹھیں اس کو اہمیت دیں،نہ وزیروں نے دی نہ وزیراعظم نے دی، آج ہم کس دنیا میں کھڑے ہیں کہاں کھڑے ہیں۔ اب ہم کہتے ہیں پارلیمنٹ، پارلیمنٹ، بڑے بھائی چڑیا چگ گئی کھیت بس ہو گیا ختم کام، آپ نے اپنا کام خود تباہ کیا ہے۔ پورس کے ہاتھی کی طرح آپ نے اپنے لشکر کو خود روندا ہے۔ اب آپ کو پارلیمنٹ یاد آ رہی ہے، میں تین، چار سال سے یہاں کھڑے ہو کر میں کہتا رہا مگر آپ کو احساس نہیں ہوا۔ آپ اقتدار کے اندھے گھوڑے پر چڑھے ہوئے تھے۔ آخرکار اندھا گھوڑا آپ کو کھائی میں ہی گرائے گا۔ اس نے آپ کو کھائی میں گرا دیا۔ میری باتوں کو اہمیت دیں، میں سمجھتا ہوں یہ مجھے اہمیت نہیں، میری پارٹی کو اہمیت نہیں ہے۔ اپوزیشن کو اہمیت نہیں ہے مگر یہ پارلیمنٹ کی اہمیت ہو گی۔ بے نظیر بھٹو کا قتل ہے اور اس کے قاتل کو جس طرح سے چھوڑا گیا ہے۔ پارلیمنٹ اس پر کچھ کرے۔اس موقع پر پیپلز پارٹی کے ہی رہنما اعجاز جاکھرانی نے بھی اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت جمہوریت پر نہیں بادشاہت پر یقین رکھتی ہے، وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ نیب آرڈیننس ختم کریں، جب مشکل نے آگھیرا تو اب یاد آگیا کہ نیب ختم کرو۔اعجاز جاکھرانی کا کہنا تھا کہ ہم کہتے رہے کہ پارلیمنٹ کو مضبوط کریں ہماری بات کسی نے نہ سنی، پارلیمنٹ کو کمزور سے کمزور کیا جاتا رہا، جب ہم اپنے فیصلے خود نہیں کریں گے پھر ایسا ہی ہوگا جو ہو رہا ہے۔پیپلز پارٹی کے رہنما نے مزید کہا کہ آج نواز شریف بھی نیب آرڈیننس کے خلاف بات کر رہے ہیں۔وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے کہا ہے کہ بے نظیر بھٹو کی شہادت بہت بڑا سانحہ تھا ،موصوف پیپلز پارٹی کی لیڈر بنیں تھیں ۔ سندھ میں پانی کے مسئلے کو وزیر اعظم کی سطح پر اٹھایا جائے گا ۔اقتدار تو آنی جانی چیز ہے،جمہوری عمل چلتا رہنا چاہیے ۔ ہمیشہ پارلیمنٹ کے اندر اختلاف رائے ہوتا ہے ۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما حاجی غلام احمد بلور نے بھی بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کی رہائی پر تشویش کا اظہار کیا ۔ کیپٹن ( ر ) محمد صفدر نے بھی اس پر افسوس کا اظہار کیا ۔ اس موقع پر سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے وزیر برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد سے کہا کہ وہ وزیر قانون کو بلائیں تاکہ عدلیہ کو خط لکھیں کہ ایک سابق وزیراعظم کے ساتھ سنجیدہ معاملہ ہوا ہے۔ ہمیں عدلیہ کو خط لکھنا چاہئے اور جواب حاصل کرنا چاہئے.
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024