میرے اللہ کوئی ایسا سبب بنا دے
اسرائیلی وزیر اعظم نے تاریخ کو جھٹلاتے ہوئے کہا!ہٹلر یہودیوں کو ختم نہیں کرنا چاہتا تھاصرف بے دخل کرنا چاہتا تھا۔ 1941میں امین الحسینی نے برلن میں ہٹلر سے ملاقات کی تو انہوں نے ہٹلر کی بے دخلی کی تجویز سن کر کہا کہ ایسا مت کرنا کیونکہ بے دخلی کے بعد سب یہودی فلسطین اکٹھے ہو جائیں گے۔ ہٹلر نے پوچھا تو پھر مجھے کیا کرنا چاہیے؟ امین الحسینی نے کہا ان سب کو ختم کردو۔
نیتن یاہو کو جس کسی نے بھی یہ تاریخی بات بتائی ہے اس نے کوئی بہت ہی پرانا بدلہ چکایا ہے۔ کیونکہ نیتن یاہو کے اس انکشاف کے بعد کہ ہٹلر کو یہودیوں کی نسل کشی کی پٹی امین الحسینی نے پڑھائی ، خود اسرائیلی وزیردفاع موشے یالون (جو نیتن یاہو سے بھی بڑے دائیں بازو کے انتہا پسند ہیں) نے دانتوں میں انگلیاں داب کے اسرائیلی آرمی ریڈیو پر کہا کہ وزیراعظم کا تجزیہ درست نہیں۔تل ابیب میں جیوش ہالوکاسٹ میوزیم کے نگراں اورعرب تاریخ کیپروفیسر ڈینا پورات نے کہا کہ نیتن یاہو خود بھی ایک معروف مورخ (پروفیسر زیون نیتن یاہو)کے صاحبزادے ہیں۔کم ازکم ان کے منہ سے ایسی بات کی توقع نہیں تھی۔ پروفیسر پورات نے وضاحت کی کہ مفتی امین الحسینی سے ملاقات سے دو برس پہلے جنوری 1939میں ہٹلر نے جرمن پارلیمنٹ (ریشاغ) سے خطاب کرتے ہوئے برملا کہا تھا کہ میں یہودی نسل کو صفحہ ہستی سے مٹا دوں گا۔
جب کہ ہٹلر کی خود نوشت مین کیمپف(میری جدوجہد) 1920کے عشرے میں شائع ہوئی۔اس میں یہودیوں سے انتہائی نفرت ٹپکتی ہے۔پروفیسر ڈینا پورات کے مطابق 1940میں نازیوں نے کنسنٹریشن کیمپ قائم کرنے شروع کر دیے تھے اور جون 1941میں سوویت یونین پر حملے کے ساتھ ہی یہودیوں کا قتل عام شروع ہو چکا تھا۔ جب کہ امین الحسینی کی ملاقات پانچ ماہ بعد (28 نومبر) کو ہوئی۔ اورتو اور جرمن چانسلر اینجلا مرکل بھی نیتن یاہو کے انکشاف پر اچھل پڑیں اور انہیں یہ بیان جاری کرنا پڑا کہ یہودیوں کے قتل عام کے ذمے دار جرمن نازی تھے اور جرمنی کی درسی کتابوں میں بچوں کو یہی پڑھایا جاتا ہے تاکہ وہ ماضی سے سبق سیکھیں اور مستقبل میں اس طرح کے تاریک دور کے امکانات سے خبردار رہیں۔ خود اسرائیلی شہری سوشل میڈیا پر نیتن یاہوی انکشاف کے خوب مزے لے رہے ہیں۔ ایک کارٹون میں دکھایا گیا ہے کہ نیتن یاہو ماونٹ ہرمن پر ہالو کاسٹ میں مرنے والے یہودیوں کے یادگاری میدان "معصوم ہٹلر" کے نام کی یادگاری تختی نصب کر رہے ہیں۔
ایک ٹویٹر میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ جب احمدی نژادکے اس بیان پر عالمی مذمت ہو سکتی ہے کہ یہودیوں کا قتل عام محض افسانہ ہے۔ تو نیتن یاہو پر اینٹی سیمٹ ازم کے الزام میں مقدمہ کیوں قائم نہیں ہوسکتا؟ایک ٹویٹر میں کہا گیا کہ یہ بھی معجزہ ہے کہ اسرائیلی تاریخ میں فلسطینیوں کا کوئی وجود بھی نہیں پھر بھی وہ ہالوکاسٹ کے ذمہ دار ہیں۔ ایک ٹویٹر میں سوال اٹھایا گیا کہ جس حقیقت پر سے نیتن یاہو نے اتنے سال بعد پردہ اٹھایا ہے وہ اول اسرائیلی وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریان سے لے کر آج تک سب کی نظروں سے کیسے اوجھل رہی؟ اسے کہتے ہیں اصلی اور سچی تحقیق"۔
پی ایل او کے سیکریٹری جنرل صائب ارکات نے نیتن یاہو کے تاریخی انکشاف پر تبصرہ کیا کہ دراصل اسرائیلی وزیراعظم کو فلسطینیوں سے اتنی نفرت ہے کہ وہ اس کے بدلے ہٹلر کو بھی معاف کرنے پر تیار ہیں۔ صائب ارکات شاید درست کہتے ہیں۔ نیتن یاہو کو یہ نفرت سیاسی ورثے میں ملی ہے۔ کیونکہ یہ نفرت زندہ نہ رہے تو اسرائیل کے قیام کی نظریاتی بنیادیں گرا سکتی ہیں۔ مثلا اسرائیل کے قیام سے گیارہ برس قبل 1937میں ڈیوڈبن گوریان نے ایک صیہونی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ " ہمیں ہر صورت میں عربوں کو دھکیل کر ان کی جگہ لینی ہے"۔ ایک جگہ کہا کہ " یہوددشمنی، نازی، ہٹلر، آشوٹز وغیرہ اپنی جگہ حقیقت ہے۔ لیکن اگر اس حقیقت کے پیچھے یہ سوچ تھی کہ ہم نے دراصل ان کا ملک چوری کر لیا ہے تو پھر یہ سب تو ہونا ہی تھا"۔
ڈیوڈ بن گوریان نے اسرائیل کے قیام سے دس سال پہلے(1938) ایک اور صیہونی اجلاس میں کہا"ہمیں ایک سچ نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ سیا سی لحاظ سے ہم (یہودی) حملہ آور ہیں اور وہ (فلسطینی) اپنا دفاع کر رہے ہیں۔ یہ زمین ان کی ہے کیونکہ وہ یہاں آباد ہیں جبکہ ہم یہاں بسنا چاہتے ہیں اور وہ ٹھیک سمجھ رہے ہیں کہ ہم ان کا ملک چھیننا چاہتے ہیں"۔
لیکن جیسے جیسے قبضہ مستحکم ہوتا چلا گیااحساسِ جرم بھی جاتا رہا۔ 1967کی عرب اسرائیل جنگ کی فاتح اسرائیلی وزیراعظم گولڈا میئرنے 15جون 1969کو برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز کو انٹرویو میں کہا" فلسطینی نامی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم آئے، انہیں نکال باہر کیااورقبضہ کر لیا۔ یہاں تو کوئی بھی نہیں تھا۔ ہم مقبوضہ علاقے کسے واپس کریں جب کوئی لینے والا ہی نہ ہو"۔ 15اکتوبر 1971کو گولڈامیئر نے فرانسیسی اخبارلی ماند کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا" یہ ملک (اسرائیل) وہ وعدہ ہے جو خدا نے خود سے ایفا کیا، چنانچہ اس کے جائزناجائز ہونے کی بحث فضول ہے"۔
(جاری ہے)