سینیٹ قائمہ کمیٹی نے انسانی حقوق چائلڈ پروٹیکشن بل 2018ء منظوری دیدی
اسلام آباد(خبر نگار ) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نیچائلڈ پروٹیکشن بل2018،ویمن ڈسٹرس وڈیٹنشن فنڈ ترمیمی بل 2017 کی منظوری دے دی ہے۔کمیٹی کو بتایا گیاکہ اسلام آباد میں ایک لاکھ بچے سکول نہیں جا پا رہے ، گیارہ بچے روزانہ کسی نہ کسی تشدد کا شکار ہو تے ہیں ،اسلام آباد کے دیہی علاقوں اور کچی آبادیوں کا سروے کیا گیا ہے جس کے مطابق سٹریٹ چلڈرن کی صورتحال انتہائی افسوسناک ہے ۔ بدھ کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس چیئرمین سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کی صدارت میں منعقد ہوا۔ کمیٹی نے ویمن ڈسٹرس وڈیٹنشن فنڈ ترمیمی بل دوہزار سترہ ملک بھر میں جرائم پیشہ کم عمر بچوں کیلئے علیحدہ عدالتوں کے قیام اور چائلڈ پورنوگرافی کے قانون میں ترمیمی بل منظور کر لیا ہے،چائلڈ پروٹیکشن بل کے تحت اسلام آباد میں تشدد کا شکار اور بے گھر بچوں کی بحالی کیلئے اقدامات کئے جائیں گے ،ویمن ڈسٹریس اینڈ ڈی ٹنشن ترمیمی بل کے تحت بورڈ آف گورننس کی تشکیل نو کی جائیگی ،چائلڈ پورنو گرافی میں ملوث ملزمان کیلئے سزائیں دو سال سے بڑھا کر 14سال کر دی گئیں جبکہ جرمانے کی حد 2لاکھ سے بڑھا کر دس لاکھ کر دی گئی ہے ، اسی طرح بچوں کو جنسی طورپر ہراساں کرنے والے ملزمان کیلئے سزا دو سال سے بڑھا کر سات سال کر دی گئی جبکہ جرمانہ دو لاکھ سے بڑھا کر سات لاکھ کردیا گیا ۔ سیکرٹری قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ افسوسناک امر یہ ہے کہ عام جیلوں میں گرفتار بچے اپنی قید کے پہلے ہفتے کے دوران زیادتی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ چیئرمین کمیٹی مصطفی نواز کھوکھر نے بتایا کہ انہوں نے مشیر انسانی حقوق کے طور پر ہری پور جیل کا دورہ کیا تھا جہاں انہیں یہ جان کر دکھ ہوا کہ بچوں کے پاس موجود کتابیں انتہا پسندی مواد پر مبنی تھیں ، یہ ہماری جیلوں کا حال ہے کہ رہا ہونے والے انتہا پسندی کی سوچ کے ساتھ معاشرے کا حصہ بنیں ۔ کمیٹی نے متفقہ طور کو جووینائل جسٹس سسٹم بل دوہزار اٹھارہ کو منظور کر لیا ۔ مزید برآں وزارت داخلہ کے حکام نے فوجداری قانون ب دوہزار اٹھارہ میں ترمیم کے حوالے سے بتایا کہ بچوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے والے ملزمان کیلئے سزا دو سال سے بڑھا کر سات سال جبکہ جرمانے کی رقم دو لاکھ سے بڑھا کر سات لاکھ کردی گئی ہے اس کے علاوہ چائلڈ پورنو گرافی میں گرفتار افراد کیلئے سزا دو سال سے بڑھا کر چودہ سال جبکہ جرمانے کی رقم دو لاکھ سے بڑھا کر دس لاکھ کر دی ۔ کمیٹی نے بل متفقہ طور پر منطور کر لیا ۔اجلاس میں سیکرٹری انسانی حقوق نے بتایا کہ آئین کا آرٹیکل پچیس بچوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے ، پاکستان بچوں کو تحفط فراہم کرنے کے حوالے سے بین الاقوامی معاہدوں پر بھی دستخط کر چکا ہے ، افسوس کی بات ہے کہ اسلام آباد میں آج تک بچوں کے تحفظ اور تشدد سے بچائو کیلئے قانون سازی نہیں کی جا سکی ۔ اسلام آباد میں ایک لاکھ بچے سکول نہیں جا پا رہے ، 11بچے روزانہ کسی نہ کسی تشدد کا شکار ہو تے ہیں ،اسلام آباد کے دیہی علاقوں اور کچی آبادیوں کا سروے کیا گیا ہے جس کے مطابق سٹریٹ چلڈرن کی صورتحال انتہائی افسوسناک ہے ۔ بل کے تحت چائلڈ پروٹیکشن انسٹیٹیوٹ قائم کیا جائیگا جو کہ سٹریٹ چلڈرن کی بحالی کیلئے اقدامات کرے گا ، سڑکوں پر زندگیاں گزارنے والے بچوں کو مختلف شیلٹر ہائوسز میں ریفر کیا جائیگا ۔ بچوں کو تعلیم اور صحت سمیت دیگر تمام زندگی کی سہولیات فراہم کی جائینگی ۔ چائلڈ پروٹیکشن آفیسر بچوں کی دماغی اور جسمانی صحت کا تجزیہ کرے گا جس کے بعد بچوں کو تعلیم فراہم کرنے کے حوالے سے اہم اقدامات کئے جائیں گے ۔ چائلڈ پروٹیکشن آفیسر عدالت کے سامنے جوابدہ ہوگا ۔عوام کو یہ معلوم نہیں ہے کہ اگر بچہ کھو جائے تو اس کے حوالے سے کس سے رابطہ کیا جائے ، لوگ پولیس کے پاس جانے سے بھی ڈرتے ہیں ،پنجاب میں بچوں کی بحالی کیلئے مؤثر نظام بنایا گیا ہے جس سے گائیڈ لائن حاصل کی گئی ہے ۔ گھروں میں تشدد کا شکار بچوں کو حکومتی سینٹر عدالت کی اجازت سے بحالی سینٹرز میں بھیجے گا ۔انہوں نے کہا کہ افسوسناک بات یہ ہے کہ صرف لاہور میں چھ سو پچاس نوزائیدہ بچوں کو مختلف افراد کی جانب سے جھاڑیوں میں پھینک دیا گیا ۔ کمیٹی نے متفقہ طور پر چائلڈ پروٹیکشن بل کو منظور کر لیا ۔ سیکرٹری انسانی حقوق نے ویمن ڈسٹرس وڈینٹشن فنڈ ترمیمی بل 2017کے حوالے سے کمیٹی کو آگاہ کیاکے اس ایکٹ کے تحت خواتین کو قانونی معاونت فراہم کی جانا تھی ۔ ایکٹ کے تحت ایک بورڈ آف گورنر قائم کیا گیا جس میں ملک بھر سے متعلقہ اداروں سے انیس ارکان منتخب کئے گئے ۔ یہ ایکٹ1996میں منظور ہوا تا ہم اس کے تحت بورڈ آف گورنر کا آج تک کوئی اجلاس منعقد نہیں ہوا ۔ بورڈ کے فنڈ میں 67کروڑ موجود ہیں جنہیں 22سال گزرنے کے باوجود استعمال نہیں کیا جا سکا۔ قائمہ کمیٹی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ اتنا اہم بورڈ آف گورننس ایک اجلاس تک منعقد نہیں کر سکا۔ سیکرٹری انسانی حقوق نے بتایا کہ بورڈ کے ارکان کی تعداد انیس سے کم کر کے نو کر دی گئی ہے ۔ امید ہے کہ یہ ارکان قواعد وضوابط کے مطابق اجلاس منعقد کریں گے اور اس ایکٹ کے تحت خواتین کو قانونی معاونت فراہم کی جا سکے گی ۔ کمیٹی نے متفقہ طور پر ترمیمی بل منظور کر لیا۔ سیکرٹری انسانی حقوق نے جووینائل جسٹس سسٹم بل 2018کے حوالے سے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ ملک بھر میں جرائم میں ملوث جو بچے گرفتار ہوتے ہیں انہیں سخت گیر جرائم پیشہ ملزمان کے ساتھ عام جیلوں میں رکھا جاتا ہے ۔ کم عمر ملزم بچوں کی بحالی کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے جاتے ۔جووینائل جسٹس سسٹم کے تحت ملک بھر میں بچوں کیلئے علیحدہ عدالتیں قائم کی جائینگی جو کہ ترجیحی بنیادوں پر مقدمات کا فیصلہ کریں گی۔گرفتار ملزمان بچوں کو بحالی سینٹرز میں رکھا جائیگا جہاں انہیں ووکیشنل تربیت فراہم کی جائیگی تا کہ وہ سزا پوری کرنے کے بعد رہا ہو کر معاشرے میں مؤثر کردارادا کر سکیں ۔سیکرٹری قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ افسوسناک امر یہ ہے کہ عام جیلوں میں گرفتار بچے اپنی قید کے پہلے ہفتے کے دوران زیادتی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ چیئرمین کمیٹی مصطفی نواز کھوکھر نے بتایا کہ انہوں نے مشیر انسانی حقوق کے طور پر ہری پور جیل کا دورہ کیا تھا جہاں انہیں یہ جان کر دکھ ہوا کہ بچوں کے پاس موجود کتابیں انتہا پسندی مواد پر مبنی تھیں ، یہ ہماری جیلوں کا حال ہے کہ رہا ہونے والے انتہا پسندی کی سوچ کے ساتھ معاشرے کا حصہ بنیں ۔ کمیٹی نے متفقہ طور کو جووینائل جسٹس سسٹم بل2018کو منظور کر لیا ۔ مزید برآں وزارت داخلہ کے حکام نے فوجداری قانون بل2018میں ترمیم کے حوالے سے بتایا کہ بچوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے والے ملزمان کیلئے سزا دو سال سے بڑھا کر سات سال جبکہ جرمانے کی رقم دو لاکھ سے بڑھا کر سات لاکھ کردی گئی ہے اس کے علاوہ چائلڈ پورنو گرافی میں گرفتار افراد کیلئے سزا دو سال سے بڑھا کر14سال جبکہ جرمانے کی رقم دو لاکھ سے بڑھا کر دس لاکھ کر دی ۔ کمیٹی نے بل متفقہ طور پر منطور کر لیا ۔