کچھ سرائیکی پٹی کے سیاسی رہنماﺅں سے
صوبہ پنجاب کے جنوب میں تین انتظامی ڈویژنوں ملتان ، بھاولپور اور ڈیڑھ غازی خان کے 11 اضلاع پر مشتمل علاقہ سرائیکی پٹی کے نام سے مشہور ہے ۔ قیام پاکستا ن کے بعد ریاست بھاولپور اپنے تین اضلاع کے ساتھ ایک صوبہ کی حیثیت رکھتی تھی جب کہ باقی سارا علاقہ پنجاب کے ملتان ڈویژن کا حصہ تھا۔ 1955 میں ون یونٹ کے قیام کے وقت پنجاب سندھ ،سرحد (اب خیبر پختون خواہ ) اور بلوچستان کے ساتھ بھاولپور کوبھی ملاکر پنجاب میں شامل کردیا گیا۔ بعد میں ملتان ڈویژن میں سے ڈیرہ غازی خان ڈویژن بھی بنا دیا گیا ۔یہ سب حسب سابق پنجاب کا حصہ چلے آرہے ہیں۔ یہاں کے سیاسی رہنماچند ایک بڑے بڑے پیر ،گدی نشین ،زمیندار اور جاگیردار ہیں جو سیاسی اور سماجی طورپر اپنے اپنے علاقوں پر چھائے ہوئے ہیں عوام میں بڑا اثرورسوخ رکھتے ہیں غریب عوام اپنے مسائل کے حل کےلئے انہیں سے رہنمائی لیتے ہیں ۔ یہ بڑا مردم خیز خطہ ہے یہ علاقہ اگر چہ شمالی پنجاب سے آبادی اور وسائل میں کم ہے اور پسماندہ ہے لیکن اس خطے نے جن مشہور و معروف شخصیات کو جنم دیا ہے وہ شمالی پنجاب کی نسبت زیادہ اہم ہیں ۔ مثلا ملتان سے صادق حسین قریشی وزیر اعلیٰ پنجاب مخدوم سجاد حسین قریشی گورنر پنجاب شاہ محمود قریشی وزیر خارجہ جاوید احمد ہاشمی وفاقی وزیر یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم پاکستان وہاڑی سے میاں ممتاز محمددولتانہ وزیر اعلیٰ پنجاب مظفر گڑھ سے مشتاق احمد گورمانی گورنر مغربی پاکستان عبدالحمید دستی وزیر اعلیٰ پنجاب ملک غلام مصطفی کھر گورنر اور وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ حنا ربانی کھر وزیر خارجہ لطیف احمد کھوسہ گورنر پنجاب بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان رحیم یار خان سے مخدوم محمود احمد گورنر پنجاب بھاورلپور سے محمد علی درانی وفاقی وزیر ڈیرہ غاز یخان سے فاروق احمد لغاری صدر پاکستان سردار شیر باز مزاری صدر نیشنل ڈیموکریٹ پارٹی بلخ شیر مزاری کیئر ٹیکر وزیر اعظم اس کے علاوہ کئی اور اہم شخصیات بھی ہیں جو وفاقی اور صوبائی وزراءرہے ہیں جن کے بارے میں راقم کم علمی کا شکار ہے اور معذرت خواہ ہے ۔اس تفصیل سے نظر آتا ہے کہ اس علاقے کی ان محترم اور معتبر شخصیات نے شمالی پنجاب کی نسبت نہ صرف صوبہ پنجاب پر زیادہ عرصہ تک موثر حکمرانی کی ہے بلکہ پاکستان کی وفاقی حکومت میں بھی اہم حصہ دار رہے ہیں اور چھائے رہے ہیں افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ انکی حکومتوں نے اس علاقے کو ترقی یافتہ بنانے کے لئے کوئی خاص کام نہیں کیا جس سے یہاں بھوک بیماری اور جہالت کا راج رہا ہے اور احساس محرومی بڑھتا رہا ہے ۔
جب سے وزیر اعظم میاں نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی حکومت آئی ہے تو انہوں نے عوام کو زندگی کی سہولتیں پہنچانے کے لئے تعمیر و ترقی اور فلاح و بہبود کے جو چھوٹے بڑے میگا پروجیکٹس بڑی تیزی سے مکمل کرکے ایک تاریخ رقم کردی ہے میاں شہباز شریف نے تو یہاں اسکولوں کالجوں ہسپتالوں اور شاہراہوں کا ایک جال بچھا دیا ہے دانش اسکول میڈیکل اور انجنیئرنگ کی تعلیم کے کالج قائم کیئے ڈی جی خان میں یونیورسٹی بنائی ملتان میں میٹرو ریپڈ بس سروس شروع کرکے ترقی یافتہ ممالک جیسی سہولت مہیا کی گزشتہ 2-3سال سے پنجاب کے بجٹ کا 35%سے زائد حصہ اس علاقے کے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کرکے احساس محرومی 50%تک ختم کردیا ہے آج سے 5 سال پہلے کے" جنوبی پنجاب" صوبے کا آج سے مقابلہ کریں تو زمین آسمان کا فرق نظر آئے گاآئندہ 5سال میں پنجاب کے بجٹ کا خطیر حصہ خرچ کرکے اسے شمالی پنجاب کے برابر لے آیا جائے گا۔ 2013کے جنرل الیکشن آئے تو پیپلز پارٹی نے سرائیکی صوبے کا اسٹنٹ کھڑا کر کے لوگوں کو بیوقوف بنا کر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی جبکہ مسلم لیگ نے خوشحالی ،تعمیر و ترقی اور عوام کو بنیادی سہولتیں پہنچانے کا ایجنڈا دیا پیپلز پارٹی کی گزشتہ پانچ سالہ ناقص کارکردگی کی بنیاد پر عوام نے اسے بری طرح شکست دی اور تقریبا تمام نشستوں پر مسلم لیگی امیدواروں کو بھاری اکثریت سے کامیاب کروایا مسلم لیگ نے اپنے منشور پر سو فیصد عمل کرکے دکھایا۔یہ ترقیاتی کام اور عوامی سہولتوں کے منصوبے بے مثال قائد وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے وہاں کے عوامی منتخب نمائندگان اور وزاءکرام کے مشورے اور اشتراک سے مکمل کئے ہیں جس کا کریڈٹ میاں صاحب کے علاوہ وفاقی وزراءاویس احمد لغاری سکندر حیات بوسن گورنر پنجاب محمد رفیق رجوانہ ڈپٹی اسپیکر شیر علی گورچانی اور دیگر مسلم لیگی وزراءوفادار ممبران اسمبلی کو بھی جاتا ہے ۔ یہ جو 8-10افراد نے اچانک چھلانگ لگا کر پارٹی سے الگ ہوکر" جنوبی صوبے" کا جھنڈا اٹھایا ہے بلا جواز ہے کیونکہ اس سلسلے میں اول تو انہوں نے گزشتہ 5سال میں اسمبلی میں نہ توکوئی قرارداد پیش کی ہے نہ کوئی مطالبہ کھڑا کیا ہے دوسرے یہ کام تو میاں صاحب کی قیادت میں صوبائی اسمبلی پہلے ہی" بھاولپور "اور" جنوبی صوبہ"بنانے کی قرارداد پاس کرکے بنیادی آئینی اور قانونی ضرورت پوری کرچکی ہے اور لیگ میں کوئی بھی اس کے خلاف نہیں ہے اب تو صرف آخری انتظامی سیٹ اپ قائم کرنے کی کاروائی باقی ہے تو پھر ان کی شکایت کیا ؟ بہتر ہے یہ اپنی پارٹی میں واپس آجائےں اور سب مل جل کر نئے صوبے بنائیںامید ہے یہ لوگ دانشمندی کا ثبوت دینگے اپنے آپ کو مسلم لیگی رہنما ثابت کرینگے اور صوبے بنانے کے کریڈٹ کو مسِ نہیں کرینگے۔