بلوچستان کو خود سے حکمرانی کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی‘ پٹرولیم قیمتوں کا فرانزک آڈٹ کرائیں گے : چیف جسٹس
اسلام آباد + پشاور (نمائندہ نوائے وقت+ نوائے وقت رپورٹ+ بیورو رپورٹ) سپریم کورٹ آف پاکستان نے پٹرولیم مصنوعات پر بے تحاشا ٹیکسز کے اطلاق کے معاملے پر وزارت پٹرولیم و دیگر متعلقہ اداروں سے تحریری وضاحت طلب کر لی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا فرانزک آڈٹ کروائیں گے۔ بدھ کے روز چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے پٹرولیم مصنوعات پر ہوشربا ٹیکسز کے اطلاق سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پٹرولیم مصنوعات پر 25 فیصد ٹیکس لگتا ہے، جب بھی عالمی مارکیٹ میں قیمتیں کم ہوتی ہیں سیلز ٹیکس لگا دیا جاتا ہے، جب عوام کو ریلیف دینے کی باری آتی تو ٹیکس لگ جاتا ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ قیمت 100 ڈالر سے 50 ڈالر پر آجائے حکومت قیمتیں کم نہیں کرتی، پٹرولیم مصنوعات پرکس قسم کے ٹیکسز کا اطلاق ہوتا ہے، عالمی مارکیٹ اور پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی کیا قیمتیں ہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ہمارے یہاں ریجن سے کم ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عالمی مارکیٹ میں قیمتیں کم ہوں تو عوام کو ریلیف نہیں ملتا، بھارت سے قیمتوں کا موازنہ نہ کریں، چارٹ بنا کر دیں کہ پٹرولیم مصنوعات پر کتنے قسم کے ٹیکسز کا اطلاق ہوتا ہے، آئل کمپنی اور ڈیلر کا مارجن کتنا ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ پٹرولیم پر کسٹم ڈیوٹی، لیوی اور سیل ٹیکس کا اطلاق ہوتا ہے، پٹرول پر 11.5فیصد ٹیکس لگتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ شاید پٹرولیم پر ڈھاکہ ریلیف فنڈز لگا ہے، متعلقہ وزارت اور ادارے، پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس کے حوالے سے تحریری جواب داخل کریں، مقدمے کی سماعت ایک ہفتے کیلئے ملتوی کردی گئی۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ آف پاکستان میں بلوچستان میں پانی کی قلت سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں بلوچستان کی فکر ہے، کیوں صوبے کو خود سے حکمرانی کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی؟ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مینب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے بلوچستان میں پانی کی قلت سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی۔ اس موقع پر دو سابق وزرائے اعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ اور ثناءاللہ زہری عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے عبدالمالک بلوچ سے سوال کیا کہ کیا آپ اپنے صوبے میں پانی کی صورتحال سے مطمئن ہیں؟ بلوچستان میں جھیلیں سوکھ گئی ہیں آپ نے کیا اقدامات کیے؟ جس پر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ جب اقتدار سنبھالا تو فرقہ واریت سے 248 افراد ہلاک ہوئے تھے، ہم نے سب سے پہلے لا اینڈ آرڈر کی صورتحال کو بہتر کیا، لا اینڈ آرڈر کے بغیر کچھ درست نہیں ہوسکتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ صوبے میں 6054 سکولوں کی دیوار اور ٹوائلٹ نہیں ہیں، اس پر عبدالمالک بلوچ نے بتایا کہ بلوچستان کا کل بجٹ 42 ارب روپے ہے، نئے سکولوں کو بنانے کے لیے 62 ارب روپے چاہئیں، ہم نے تعلیم کے بجٹ کو 4 فیصد سے بڑھا کر 24 فیصد تک کردیا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے مکالمہ کیا کہ بجٹ کا ایشو مت بتائیے گا کہ پیسہ نہیں ہے، سالانہ 100 سکولوں کواپ گریڈ کریں گے تو60 سال میں 6 ہزار سکول اپ گریڈ ہوں گے، سب یہی کہتے ہیں بجٹ نہیں ہے، کوئٹہ کے ہسپتالوں میں سی سی یونہیں ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہسپتالوں کی حالت انتہائی خراب ہے جس کو دیکھ کر دکھ ہوا، جب میں نے دورہ کیا ہسپتالوں کا عملہ کئی روز سے ہڑتال پر بیٹھا تھا۔ چیف جسٹس نے عبدالمالک بلوچ سے مکالمہ کیا کہ آپ قوم کے رہنما ہیں، بلوچستان پسماندہ نہیں بلکہ دولت سے مالامال ہے، صو بے کو جید لیڈر کی ضرورت ہے۔ چیف جسٹس نے عبدالمالک بلوچ سے سوال کیا کہ آپ 5 سالہ دور میں صحت، تعلیم اور پانی سے متعلق اپنے اقدامات بتائیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ پانی کی قلت ختم کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے یہ بتائیں؟ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جب بلوچستان گیا تو بہت دکھ ہوا، ہمیں توبلوچستان کی بہت فکرہے، کیوں بلوچستان کو خود سے حکمرانی کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی؟ کیا بلوچستان کے لوگ سیاسی طور پر طاقت میں نہیں ہیں؟ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ صوبے میں غیر جانبدارانہ الیکشن ہونے چاہئیں، صوبے میں آج تک غیر جانبدار الیکشن نہیں ہوا، بلوچستان کو وفاق سے اس کا حصہ نہیں ملتا، پانی کے لیے بجٹ میں ایک روپیہ بھی نہیں رکھا گیا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے مکالمہ کیا کہ یہی صورتحال رہی تو لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوں گے۔ عبدالمالک بلوچ نے فاضل عدالت کو بتایا کہ پانی کی قلت کے حوالے سے اربوں روپے درکار ہیں، بڑے اور چھوٹے ڈیموں پر کام شروع کیے تھے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے عبدالمالک بلوچ سے سوال کیاکہ کیا یہ ڈیمز بن گئے ہیں؟ کیا یہ ڈیمز صرف کاغذات تک محدود ہیں؟ سابق وزیراعلیٰ نے بتایا کہ کچھ ڈیمز مکمل اور کچھ پر کام ہورہا ہے، کوئٹہ کا ڈیم 35 فیصد مکمل ہوچکا، گوادر ڈیم کا تعمیراتی کام مکمل ہوچکا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صوبے میں پانی ختم ہورہا ہے، پانی کی قلت ختم کردیتے لوگوں کو پانی فراہم کردیتے، ہمیں بتائیں عدلیہ بلوچستان کے حالات کے حوالے سے کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟ عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ جن لوگوں نے کام کیا عدالت ان کی ستائش کرے، جن لوگوں نے کام نہیں کیا ان کی سرزنش کریں۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ جنہوں نے کام نہیں کیا ان پر ذمہ داری عائد کرنی پڑے گی۔ فاضل عدالت نے سماعت جمعہ تک ملتوی کرتے ہوئے بلوچستان کے جنوبی اور شمالی آئی جیز ایف سی کو طلب کر لیا۔ دریں اثنا چیف جسٹس ثاقب نثار نے پشاور جیل میں دماغی امراض کے ہسپتال کا دورہ کیا اور ہسپتال کے ناقص انتظامات پر اظہار برہمی کیا۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ہسپتال جیل کے اندر کیوں ہے؟ کیا ہسپتال کی صورتحال ایسی ہوتی ہے؟ سیکرٹری صحت نے بتایا کہ دوسری جگہ دماغی امراض کا ہسپتال 2012ءسے زیرتعمیر ہے۔ حکومت فنڈز نہیں دیتی کہ ہسپتال مکمل کریں۔ چیف جسٹس کے طلب کرنے پر وزیراعلیٰ پرویز خٹک جیل پہنچ گئے۔ مزید برآں سپریم کورٹ پشاور رجسٹری میں ہسپتالوں کا فضلہ ٹھکانے لگانے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ کیس کی سماعت شروع ہوتے ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اعتراض اٹھایا کہ آرٹیکل 184 کے تحت ہی ہیومن رائٹس سے متعلق امور کی سماعت نہیں کر سکتے۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے اعتراض پر سماعت کرنے والا تین رکنی بنچ ٹوٹ گیا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ معاملے پر اختلاف ہے اس لئے دوبارہ بنچ بنائیں گے۔ سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل بنچ کر رہا تھا۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے پشاور میں قائم تمام غیرضروری چیک پوسٹیں ختم کرنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار مختلف کیسز کی سماعت کے لئے پشاور پہنچے۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ 24گھنٹے کے اندر اندر پشاور شہر میں قائم تمام رکاوٹیں ختم کی جائیں اور شہر بند کئے گئے تمام راستوں کو کھولا جائے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ چیف سیکرٹری بتائیں کن سفارت خانوں اور مقامات پر سکیورٹی ضروری ہے‘ عدالت کی اجازت لے کر وہاں چیک پوسٹیں بنائی جائیں۔ دوسری طرف چیف جسٹس ثاقب نثار نے سانحہ اے پی ایس کے حوالے سے جوڈیشل کمشن بنانے کا حکم دے دیا ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے ہدایت کی کہ 2ماہ میں سانحہ آرمی پبلک سکول پر رپورٹ پیش کی جائے۔ چےف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے خےبر پی کے مےں صحت مراکز مےں انقلابی تبدےلی کے دعووں کا پول کھول دےا ، سپرےم کورٹ پشاور رجسٹری مےں مختلف کےسز کی سماعت کے دوران رےمارکس دےتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اےبٹ آباد مےں اےوب مےڈےکل ہسپتال کی حالت اےسی ہے جہاں پر آپرےشن تھےٹر مےں کتوں کا آپرےشن بھی نہےں ہوسکتا، چےف جسٹس نے چےف سےکرٹری خےبر پی کے کو کہا کہ اےبٹ آباد ہسپتال کے چےئرمےن بورڈ آف گورنر نے خود اعتراف کیا ہے کہ اےوب مےڈےکل ہسپتال مےں کی جو حالت ہے و ہ کتے کے علاج کے قابل بھی نہےں ہے ۔
چیف جسٹس