خلائی مخلوق کے حاشیہ بردار بھی میدان میں کودپڑے
نواز رضا
سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف پچھلے 7،8ماہ کے دوران احتساب عدالت اسلام آباد میں 62 پیشیاں بھگت چکے ہیں تاحال ان کے خلاف قائم مقدمات کا کوئی فیصلہ ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ 15 مئی 2018 کو احتساب عدالت کو دی گئی ڈیڈ لائن ختم ہو رہی ہے احتساب عدالت کو نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف مقدمات نمٹانے کے لئے مزید مہلت دی جارہی ہے ۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ میاں نواز شریف اور انکے خاندان درج مقدمات کا فیصلہ ’’نگران حکومت‘‘ میں ہی آئے گا۔ میاں نواز شریف جہاں جرات و استقامت سے احتساب عدالت اسلام آباد میں اپنے خلاف قائم مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں وہاں وہ ان’’ سیاسی و غیر سیاسی قوتوں‘‘ کے خلاف ’’چومکھی‘‘ لڑائی بھی لڑ رہے ہیں جو انھیں سیاسی منظر سے ہٹانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں۔ میاں نواز شریف نے ان ہی قوتوں کے بارے میں کہا ہے کہ ’’کچھ لوگ میرے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں۔ وہ مجھے جیل بھجوانا چاہتے ہیں۔ عمران خان اور آصف علی زرداری مجھے انتخابات میں تو ہرا نہ سکے تو چور دروازے سے حکومت سے نکلوا دیا‘‘۔ میاں نواز شریف نے عوام کو جہاں ووٹ کو عزت دو کا نعرہ دیا ہے وہاں انھوں نے عوام سے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت دلوانے کے لئے ووٹ دینے کی کال بھی دی ہے تا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے ان کو نا اہل قرار دیئے جانے کے فیصلے کو تبدیل کیا جاسکے۔ سر دست انتخابی نتائج کے بارے میں کوئی بات میں حتمی طور نہیں کہی جا سکتی لیکن قرائن یہ بتاتے ہیں کہ میاں نواز شریف کی ’’ہوا‘‘ چل پڑی ہے۔ وہ جہاں جاتے ہیں‘ ان کی تقریر سننے کے عوام کا سمندر اُمڈ آتا ہے۔ مجھے نظر آتا ہے کہ ایک بار پھر میاں نواز شریف پاکستان کی سیاسی تاریخ میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے عزائم کی راہ میں ایوان بالا کے حائل ہونے کی پہلے سے ہی منصوبہ بندی کر لی گئی ہے۔ میاں نواز شریف اپنی تمام تر کوشش کے باوجود ایوان بالا میں طاقت ور لوگوں ، آصف علی زرداری اور عمران خان گٹھ جوڑ کی وجہ سے مسلم لیگ ن اکثریتی جماعت تو بن گئی لیکن ایوان میں سادہ اکثریت حاصل نہیں کر سکی ۔ اب آئندہ تین سال تک بظاہر سینیٹ کی ہیئت ترکیبی کی وجہ سے میاں نواز شریف کوئی ایسی آئینی ترمیم منظور نہیں کروا سکتے جو ان کی نااہلیت کو کالعدم قرار دے سکے۔ بہرحال میاں نواز شریف میاں نواز شریف نے اب کھل کر بات کرنا شروع کر دی ہے۔ انھوں نے برملا یہ بات کہی ہے کہ ان کا مقابلہ آصف علی زرداری اور عمران خان سے نہیں بلکہ ’’خلائی مخلوق‘‘ سے ہے۔ یہ خلائی مخلوق کبھی ’’نادیدہ قوتوں‘‘ اور کبھی ’’طاقتور لوگوں‘‘ کے نام سے پہچانی جاتی ہے ۔ میاں نواز شریف نے خلائی مخلوق کی اصطلاح کیا استعمال کی، پورے ملک میں نواز شریف مخالف سیاسی رہنما خلائی مخلوق کے دفاع میں لنگوٹ کس کر میدان میں کود پڑے ہیں۔ ہر ایک نے اپنے اپنے انداز میں خلائی مخلوق کا دفاع کرنے کا ’’حق‘‘ ادا کر دیا ہے۔پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما و سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے گذشتہ ہفتے ’’چپ کا روزہ‘‘ توڑدیا ، جس میں انھوں نے جہاں میاں نواز شریف کے ’’سیاسی بیانیہ اور طرز عمل‘‘ پر بین السطور تنقید کی ہے وہاں پارٹی سے اپنی وابستگی کا بھی اظہار کیا ہے اور میاں نواز شریف کو موجودہ بحرانی کیفیت سے باہر نکلنے کا راستہ بھی دکھایا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ چوہدری نثار علی خان کی پریس کانفرنس کا میاں نواز شریف کی طرف سے کوئی جواب آیا ہے اور نہ ہی ان کے کسی ’’پیادے‘‘ نے کسی ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ میاں نواز شریف کی جانب سے مکمل خاموشی کا اختیار کیا جانا اس بات کا غماز ہے کہ وہ اپنی مٹھی کھولنے کے لئے تیار نہیں۔ وہ چوہدری نثار علی خان کے ساتھ اپنی چونتیس سالہ رفاقت کو ختم کرنے کے لئے تیار ہیں اور نہ ہی ان کو اپنے قریب تر کرنے کے کسی مشورے کو قبول کر رہے ہیں۔ جہاں وہ اپنے اندر ہی اندر نااہل قرار دیئے جانے کے صدمے میں گھل رہے ہیں وہاں وہ چوہدری نثار علی خان کو اپنے سے الگ کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ چوہدری نثار علی خان کی حالیہ پریس کانفرنس کو’’ اعلان بغاوت‘‘ تو نہیں کہا جا سکتا لیکن نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان پائے جانے والے فاصلوں کو بڑھانے کا باعث بن سکتی ہے۔ آنے والے دنوں میں کوئی سیاسی تجزیہ کار حتمی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ میاں نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کا ’’رومانس‘‘ کب اپنے منطقی انجام کو پہنچے گا۔ چوہدری نثار علی خان اپنے موقف پر قائم ہیں اور اس سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں جبکہ یہی طرز عمل ان کے لیڈر میاں نواز شریف کا ہے۔ میاں نواز شریف اپنے سیاسی بیانیہ پر پارٹی کے کسی فورم پر بات کرنے کے لئے تیار نہیں کیونکہ انھیں اپنے سیاسی بیانیہ پر عوامی جلسوں میں جو پذیرائی حاصل ہوئی ہے اسے ہی وہ عوام کی جانب سے مہر تصدیق ثبت قرار دے رہے ہیں۔اس لئے نواز شریف کو بعض اداروں کی طرف سے ان کی پارٹی کو ’’کٹ ٹو سائز‘‘ کرنے کے منصوبے کو بے نقاب کررہے ہیں جنوبی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی کوکھ سے جنم لینے والا جنوبی پنجاب محاذ اب تحریک انصاف میں ضم ہو گیا ہے اسی سکرپٹ کا حصہ ہے جس کے تحت مسلم لیگ(ن) کے مقابلے میں تحریک انصاف کو طاقت ور بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اسی لئے میاں نواز شریف بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ میرے سینے میں بڑے راز ہیں اور مجھے ان کو افشا کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔گو کہ خلائی مخلوق کی اصطلاح سیاسی ہے لیکن جس طرح کچھ سیاسی عناصر نے خلائی مخلوق کا دفاع کیا ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نواز شریف نے جو کچھ کہا ہے اس کے دور رس اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ الیکشن کمیشن نے بھی خلائی مخلوق کی نگرانی میں انتخابات کرائے جانے کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے بیان کا سخت نوٹس لیا ہے ۔ چوہدری نثار علی خان نے بھی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو یہ صائب مشورہ دیا ہے کہ ان کے پاس سیاسی معاملات میں خلائی مخلوق کی مداخلت کے ثبوت موجود ہیں تو وہ عسکری و سیاسی قیادت کا اجلاس بلا کر ان کے سامنے رکھیں تا کہ اس مسئلے کا حل تلاش کیا جا سکے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے دانستہ یا نادانستہ طور پر جہاں عام انتخابات کے التواء کی بات کی ہے وہاں انھوں نے اس ماسٹر پلان کا بھی ’’بھانڈا‘‘ پھوڑ دیا ہے جس کے تحت عمران خان آزاد منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ میاں نواز شریف نے صورتحال کو بھانپتے ہوئے انتخابات کے التواء کے بہانے تلاش کرنے والی قوتوں کو انتباہ کیا ہے کہ’’ کچھ لوگ عام انتخابات کے التوا کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ کسی صورت میں بھی انتخابات ملتوی کرنے کی اجازت نہیں دی جا ئے گی‘‘۔ میاں نواز شریف جو نیب کے کردار کے بارے میں شاکی ہیں ، نے کہا ہے کہ انھوں نے نیب کو غیر موثر کرنے کیلئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے بات کی تھی، وہ اس بابت کچھ تذبذب کا شکارتھے کہ کہیں ایسا نہ سمجھا جائے کہ ان کی ذات کے حوالے سے بات ہو رہی ہے لہذا میں نے کہا کہ ’’ میرے خلاف کیس کا فیصلہ ہونے دیں، پھر نیب قانون کو بھی دیکھیں گے‘‘۔وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملے کی بازگشت پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بھی سنی گئی ۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملے کی شدید مذمت کی گئی اور اس واقعے کو عام انتخابات تک ملتوی کرانے کی سازش قرار دیا ہے۔ میاں نواز شریف نے اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ احسن اقبال پرحملہ کو ئی معمولی واقعہ نہیں ، دھرنے کے بعد لوگوں میں ایک ایک ہزار روپے نہ بانٹے جاتے تو شاید آج یہ نوبت نہ آتی‘‘ ۔ انھوں نے کہا کہ احسن اقبال پر حملے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے،یہ بہت ظلم اور زیادتی ہے،یہ صورتحال تشویشناک ہے ۔ صرف ہماری پارٹی کیلئے نہیں بلکہ پورے ملک کے لئے تشویشناک صورتحال ہے ۔تاہم میاں نواز شریف نے اسلام آباد میں مسلم لیگ ن کے رہنمائوں کے ساتھ ملاقات میں اس بات کا فیصلہ کیا ہے کہ جلسوں میں ممکنہ دہشتگردی کے خدشے کے باوجود مسلم لیگ ن کی رابطہ عوام مہم جاری رہے گی۔ انھوں نے پارٹی لیڈروں سے کہا ہے کہ جب تک انھیں سزا دے کر جیل میں نہیں ڈال دیا جاتا، وہ ملک کے مختلف مقامات پر جلسوں سے خطاب کرتے رہیں گے۔ انھوں نے یہ بھی ہدایت کی ہے کہ میرے جیل جانے کے بعد میاں شہباز شریف، مریم نواز اور حمزہ شہباز رابطہ عوام مہم جاری رکھیں الیکشن کمیشن نے بھی عام انتخابات کے انعقاد کے لئے 25اور 26جولائی2018ء عام انتخابات کے لئے تجویز کی ہے نگران وزیر اعظم کے نام پر 15مئی2018ء تک وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان اتفاق رائے کے اشارے ملے ہیں ۔ نگران وزیر اعظم کے نام پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق رائے ایک بڑی سیاسی کامیابی ہو گی شاید یہ سب کچھ اس لئے ہو رہا ہے وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر الیکشن کمیشن کو بھجوانا نہیں چاہتے اور خود ہی کوئی فیصلہ کر کے سیاسی حلقوں کو سرپرائز دینا چاہتے ہیں ۔