نواز شریف کاجذباتی خطاب لوٹوں کاباتکرار ذکر
تحریر: احسان الحق
ihsan.nw@gmail.com
نئے عام انتخابات کے تناظر میں جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے مختلف سیاستدانوں کی جانب سے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے قیام کے اعلان کے ساتھ ہی(جو اب پی ٹی آئی میں ضم ہو چکا ہے) تمام سیاسی جماعتوں کو جنوبی پنجاب کے دیرینہ مسائل کا احساس یک دم جاگ اٹھا جس کے جواب میں حکمرانوں نے بھی جنوبی پنجاب کے عوام سے اپنی محبت کا اظہار شروع کر دیا اور اسی تناظر میں شریف فیملی کے چاروں اہم ترین افراد سابق وزیر اعظم و قائد مسلم لیگ (ن)محمد نواز شریف ،وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف ،مریم نواز شریف اور حمزہ شہباز شریف صرف ایک ہفتے کے دوران رحیم یار خان کے دورے پر آئے اور مختلف اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے رحیم یار خان سمیت جنوبی پنجاب کے مسائل فوری طور پر حل کرنے اور 2018ء کے انتخابات جیتنے کی صورت میں جنوبی پنجاب میں انقلابی اقدامات کرنے کے اعلانات کیے تاہم حیران کن طور پرشریف فیملی کے دورہ رحیم یار خان کے دوران کسی بڑی سیاسی شخصیت نے ن لیگ میں شمولیت کا اعلان نہیں کیا جبکہ قبل ازیں مسلم لیگ ن کے مقامی ایم این ایز اور رہنمائوں کی طرف سے کہا جا رہا تھا کہ میاں نواز شریف اور میاں شہباز ریف کے دورہ رحیم یار خان کے دوران کئی اہم سیاسی شخصیات مسلم لیگ ن میں شمولیت کا اعلان کریں گی۔شریف فیملی کے ان دوروں کے سیاسی فوائد کا اندازہ تو آئندہ عام انتخابات میں ہی ہو سکے گا لیکن ان کے دورہ رحیم یار خان کے دوران سیکورٹی کے نام پر کیے گئے اقدامات کے باعث شہریوں کو گھنٹوں شدید اذیت سے گزرنا پڑا۔2مئی کو سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف اپنے دورے کے دوران صادق آباد میں جلسہ گاہ جانے سے قبل جعفر آباد میں اپنے دیرینہ ساتھی چوہدری محمد جعفر اقبال کی رہائش گاہ پر چلے گئے تاہم اس دوران سیکورٹی کے نام پر نہ صرف رحیم یار خان کی اہم ترین شاہراہ ابوظہبی روڈ کی ایک سائیڈ مکمل طور پر بند کر دی گئی بلکہ اسکے ساتھ ساتھ ابوظہبی روڈ سے جعفر آباد جانے والی سڑک کو چار گھنٹے تک مکمل طور پر بند رکھا گیا جبکہ اس روڈ پر واقع تمام دوکانوں کو بھی زبردستی بند کرا دیا گیا حالانکہ جعفر آباد روڈ سے جعفر اقبال کا گھر جہاں نواز شریف اور مریم نواز کو ٹھہرایا گیا تھا تقریباً ادھا کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لیکن اس کے باوجود سیکورٹی کے نام پر عوام کو 4گھنٹے تک اذیت ناک مرحلے سے گزرنا پڑا جس سے علاقہ بھر کی عوام میں شدید غم و غصہ کی لہر دیکھی گئی۔اسی طرح 5 مئی کو وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے دورہ رحیم یار خان کے دوران ائیر پورٹ سے خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے راستے کو شہباز شریف کے آتے اور جاتے وقت مکمل طور پر سیل کرنے کے ساتھ ساتھ اردگرد کی تمام دوکانیں بھی بند کرا دی گئیں جبکہ یونیورسٹی کی افتتاحی تقریب میں آنے والے سیکڑوں شہریوں کی پارکنگ مقام تقریب سے تقریباً 3 کلو میٹر دور بنائی گئی تھی جس کے باعث شہری اور صحافی سخت گرمی میں مقام تقریب تک پہنچتے پہنچتے ہلکان ہو چکے تھے۔میاں نواز شریف نے دورہ رحیم یار خان کے دوران ایک جلسے سے بڑا جذباتی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 2018ء کے عام انتخابات میں ان کا مقابلہ عمران خان یا آصف زرداری سے نہیں بلکہ ایک خلائی مخلوق سے ہے جو بظاہر نظر نہیں آ رہی لیکن آئندہ عام انتخابات کا اس کا کردار بڑا کلیدی ہو گا۔اپنے خطاب کے دوران میاں نواز شریف سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے والے ان لوٹوں کا بار بار ذکر کرتے رہے جو انہیں چھوڑ کر دوسری جماعتوں میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں لیکن اس وقت شاید وہ یہ بات بھول گئے کہ 2013ء کے عام انتخابات کے وقت جب خلائی مخلوق کا جھکائو ان کی طرف تھا تو اس وقت بھی سینکڑوں ’’لوٹوں‘‘ نے ان کی حمایت کا اعلان کیا تھا جس میں مشرف کے چند خاص لوٹے بھی شامل تھے لیکن اس وقت انہیں شاید اس چیز کا اندازہ نہیں تھا کہ پانچ سال بعد یہی لوٹے انہیں چھوڑ کر بھی جا سکتے ہیں۔جلسے سے خطاب کے دوران مریم نواز شریف نے جنوبی پنجاب کی عوام سے وعدہ لیا کہ وہ سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کو ووٹ نہ دیں اور انہیں اس حد تک سبق سکھائیں کہ آئندہ کوئی بھی سیاسی شخصیت مسلم لیگ ن چھوڑنے کا تصور بھی نہ کر سکے۔
5 مئی کو وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں اپنے خطاب کے دوران خلاف توقع میاں نواز شریف اور عمران خان کا صرف ایک ایک بار ذکر کیا اور کہا کہ عمران خان انہیں نواز شریف سے زیادہ خطرناک آدمی سمجھتے ہیں اس لیے عمران خان کو چاہیے کہ نواز شریف سے صلح کر لیں تاکہ وہ اکیلے ہی سیاسی میدان میں عمران خان کا مقابلہ کر سکیں۔اپنے خطاب کے دوران میاں شہباز شریف نے عوام سے وعدہ کیا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے انہیں موقع دیا تو وہ 2018ء کے بعد پنجاب میں 12 نئی یونیورسٹیاں قائم کریں گے جہاں بین الاقوامی معیار کی تعلیم دی جائے گی لیکن اس موقع پر وہ بھول گئے کہ اس وقت دنیا کی 100 بڑی یونیورسٹیوں میںکسی بھی پاکستانی یونیورسٹی کا شمار ان 100یونیورسٹیوں میں نہیں ہوتا اس لیے انہیں چاہیے تھا کہ وہ اپنے پچھلے 10 سالہ دورہ حکومت کے دوران پنجاب میں کم از کم ایک ایسی یونیورسٹی ضرور بنا دیتے جس کا شمار دنیا کی 100 بڑی یونیورسٹیوں میں ہوتا۔
سیاسی پنڈتوں کے مطابق شریفین کے دورہ رحیم یار خان کے دوران جو بڑی بڑی ن لیگی سیاسی شخصیات انے ساتھ سٹیج پر بیٹھی ہوئی تھیںخدشہ ہے کہ آئندہ کچھ عرصے کے دوران ان میں سے کافی شخصیات ان کا ساتھ چھوڑ چکی ہونگی اور مستقبل قریب میں یہ شخصیات کسی دوسرے سیاسی سٹیج پر نظر آئیں گی۔