نیب اپنی ساکھ پر حرف نہ آنے دے
قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے وضاحتی بیان میں کہا گیا ہے کہ نیب نے مبینہ طور پر شریف فیملی کی جانب سے چار ارب 90 کروڑ ڈالربھارت بھجوانے کی شکایات کا نوٹس میڈیا رپورٹس پر لیا اور شکایت کی وضاحت کا حکم جاری کیا کہ اگر عالمی بنک کی رپورٹ درست نہیں تھی تو کیا سٹیٹ بنک آف پاکستان کی طرف سے عالمی بنک سے وضاحت مانگی یا رپورٹ کی تصحیح کےلئے کہا گیا تھا۔ دوسری طرف سٹیٹ بنک آف پاکستان نے 4.9 ارب ڈالر بھارت بھیجے جانے سے متعلق رپورٹس کو مسترد کر دیا ہے۔ بنک کے ایک اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ مرکزی بنک نے 2016ءمیں ہی (تحقیقات کے بعد) کہہ دیا تھا کہ ورلڈ بنک نے غلط اندازوں پر رپورٹ تیار کی تھی لہٰذا اس میں کوئی صداقت نہیں تھی۔ عالمی بنک نے بھی وضاحت کی ہے کہ اسکی رپورٹ کا مقصد تارکین وطن اور انکی ترسیلات کا اندازہ لگانا تھا اور یہ کہ رپورٹ میں کسی فرد کا یا منی لانڈرنگ کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں۔
مرکزی بنک اور عالمی بنک کی وضاحتوں کے بعد اس نے معاملہ کا نوٹس لینے کا بلاشبہ درست اقدام اٹھایا ہے تاہم محض خبروں پر ہی ”کارروائی“ شروع کر دینا قابل تعریف نہیں۔ عوام نے نیب سے بڑی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں کہ وہ شہریوں کی عزت و آبرو کو ملحوظ رکھتے ہوئے قومی دولت لوٹنے والوں کا محاسبہ کرے گا اور اس ضمن میں سب سے ضروری یہ ہے کہ وہ لوگ جو احتساب کا فریضہ ادا کر رہے ہوں‘ اسلام کے احکام کو پیش نظر رکھیں۔ اسلام ہر دعوے کے حق میں دلیل مانگتا ہے شاید ہی کوئی مسلمان ہو گا جو قرآن کے اس حکم ”اگر تم سچے ہوتو دلیل پیش کرو“ سے آگاہ نہ ہو یعنی اس کےلئے لازم ہے کہ وہ دعوے یا الزام کے حق میں ٹھوس دلیل اور ناقابل تردید ثبوت رکھتا ہو۔ لہٰذا بے بنیاد خبر نشر کرنے والوں کا ایسا محاسبہ کیا جائے کہ اوروں کو بھی کان ہو جائیں کہ الزام تراشی کرنے والا صادق اور امین کے شرف سے محروم ہو جائےگا۔ خود نیب کو بھی فرائض کی ادائیگی کے دوران‘ اسلام نے انسان کی جس تکریم انسانیت کا تقاضا کیا‘ ملحوظ رکھنا چاہئے۔ سنی سنائی باتوں پر یہ تاثر دینا کہ بہت بڑا فراڈ پکڑ لیا گیا ہے درست نہیں۔ نیب خود بھی اخلاقی تقاضوں کی پابندی کرے اور دوسروں سے بھی کرائے تو سب دیکھیں گے کہ بہت سے سیاستدانوں کے پاس کہنے کو کچھ بھی باقی نہیں رہے گا کیوں کہ انکے پاس مجمع باندھنے کیلئے الزامات کی پٹاری کے سوا کچھ نہیں ہے۔!