اس ہفتے سیاست پر نہیں بلکہ سعودی عرب میں پاکستان کے نئے متعین سفیر برائے سعودی عرب کو خوش آمدید کہا جائے سیاست فی الحال ملک کو کوئی فائدہ پہنچانے نہیں جارہی۔ غیر ملک میں رہتے ہوئے غیر ملکی سفارت خانوں اور قونصل خانوںکی کارکردگی کو ذاتی طور پر دیکھنے کا موقع ملتا ہے ، اور سفارت کار چاہے وہ کسی بھی حکومتی وزارت سے ہوں وہ سفارت کار کے زمرے میں آتے ہیں ۔
ایک نہائت تکلیف دہ خبر نوائے وقت کے صفحات پر اسلام آباد سے شائع ہوئی کہ غیر ملکی سفارت خانے اور قونصل خانے کے نمبروںسے کچھ لوگوںنے فون کرکے پاکستانیوں سے بھتہ طلب کیا ۔ کہ بھتہ ادا کرو ورنہ مقامی حکومت سے کہہ کر کسی معاملے میں گرفتار کرادینگے ، یا ملک بھیج دینگے ۔
سب سے اہم بات تو یہ کہ ملک جانا کوئی مسئلہ نہیں نہ ہی خوف کی بات ہے کیونکہ ملک اپنا ہی ہے یہ دھمکی ایک عام پاکستانی کو پریشان تو کرسکتی ہے خاص طور پر خلیجی ممالک میں ۔
یہ ایک چھوٹی سی خبر تھی جو دو کالم میں تھی مگر اندر بہت سے کہانی چپھی لگتی ہے ، نیز بہت ہی اعلی پیمانے پر اسکی تحقیقات ضروری ہے چونکہ ایک جانب ہر حکومتی شخص یہ کہتا ہے کہ غیرممالک میں موجود پاکستانی پاکستان کی معشیت کو سہارہ دینے کیلئے زرمبادلہ وطن عزیز کو بھجتے ہیں یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو بغیر کسی سرکاری تنخواہ کے بلا معاوضہ ملک کے لئے سفارت کاری کرتے ہیں اگر انکے اچھے کام ہیں تو پاکستان کی نیک نامی ہوتی ہے اگر خداناخواستہ کسی جرم میں یا غیرقانونی اقدام میں ملوث ہوجائیں تو کسی شخص کی نہیں بلکہ ملک کی بدنامی ہوتی ہے ، ایسے میں اگر سفارت کار اچھے ہوں تو وہ اپنے ملک کے لوگوں کا خیال رکھتے ہیں مگر ہمارے ہاں افسوس یہ کہ حکومت سے تنخواہ بلکہ ہمارے بھیجے ہوئے ذرمبادلہ یا عوامی ٹیکسوں سے انکی تنخواہیں ادا ہوتی ہیں مگر یہ شرط نہیں کہ وہ کام بھی ملک کیلئے کرر ہے ہوں یا نیک نامی کیلئے کررہے ہوں ، میرے سعودی عرب تیس سال رہائش کے دوران بے شمار قونصل جنرل اور سفراءدیکھے ہیں جنہیںکمیونٹی کا ’ در د ‘ بھی ہوتا تھا ، کبھی ایساہوا بھی کہ سفارت کاروں کی کاردگی دیکھ کر کمیونٹی کو ’ درد ‘ ہوا ۔
وہ صرف اپنی تنخواہ اور مراعات ” کھڑکانے “ پر مصروف ہوتے تھے ، ایک دور ایسا بھی آیا کہ وہ لوگ جو کمیونٹی سے روابط رکھنے پر مامور تھے وہ اپنی واسکٹ تیار رکھتے تھے کہ شام کو کہیںسے کھانے کی دعوت آجائے گی ، کمیونٹی بھی اپنے سفارتکاروں کو دیکھ کر فرحت محسوس کرتی تھی۔
گزشتہ کئی سالوں سے یہاں سفارت کاروں کا اسی فیصد کام یہاں کے اسکول اور انکے معاملات ہیں مگر بد قسمتی سے ہمارے قونصیلٹ اور سفارت خانے میںبیٹھے ہوئے افسران نے اسطرح جوتیوںمیں دال بانٹی کہ کمیونٹی ٹکڑوں میں بٹ گئی ، ( جو سب سے اچھا وقت ہوتا ہے سفارت خانے یا قونصل خانے کیلئے ) اسکولوں کا بیڑہ غرق ہوگیا وہاں تعلیم کے بجائے سیاست اور نااہل لوگوں کی پسند نہ پسند پر ملازمتوںکا سلسلہ شروع ہوگیا سنجیدہ لوگ اسکولوں کے معاملات سے دور بھاگنے لگے مادر علمی میں مقامی پولیس ، عدالتیں، مقدمات کا دور دورہ شروع ہوگیا ، اس بات سے قطع نظر کہ قصوروار کو ن تھا مگر یہ کام ہمارے اچھے سفارت کاروں کا تھا کہ وہ پارٹی بننے کے بجائے متعلقہ متحارب گروپوں کو ایک ٹیبل پر بٹھا کر معاملات سنتے اور نہائت ایمانداری سے سنتے کہ ہماری جگ ہنسائی نہ ہو ۔ مگر ایسا نہ ہوا بلکہ قونصیلٹ جو یہاں پاکستانیوںکو ملازمتوں پر مدد کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے وہ ہی کوشش کرتا رہا ہے کہ پاکستانی کو یہاں سے گھر بھیج دیا جائے ۔
وزیر اعظم نواز شریف نے اس مرتبہ وزارت خارجہ سے نہیں اپنے طور پر ایک جہاںدیدہ شخص وائس ایڈمرل ( ر) ہشام بن صدیق کو سعودی عرب میں سفارت کاری کے منصب کیلئے منتخب کیا ہے جنہوں نے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں ، انہیں وزیر اعظم سے بھی بریفنگ ہوگی اور وہ خود بھی آگاہ ہونگے کہ سعودی عرب سے پاکستان اور پاکستانیوں کے نہائت محبت بھرے تعلقات ہیں ، اس محبت اور دوستی کا فائدہ اٹھا کر کیوںنہ نئے سفیر ایک پالیسی مرتب کریںکہ یہاں نہ صرف ہماری تجارت کو فروغ حاصل ہو بلکہ ملازمتوں کے بھی مواقع میں اضافہ ہو۔
کمیونٹی کے اسکول چاہے جدہ ، ریاض ، طائف ، دمام وغیرہ ہوں کے معاملات سنی سنائی پر نہیں بلکہ ’ سن ‘ کر جیسے عدالتیں کرتی ہیں ” از خود نوٹس “ لیں تاکہ ہمارے تماشے یہاں نہ بنیں سعودی میزبانوں کے دل میں پاکستانیوںکیلئے بہت محبت ہے اسکا اظہار وہ سفیر صاحب سے ملاقاتوںمیں کرینگے ۔ آجکل میڈیا کا دور ہے ، پاکستانی تجارت ، کمیونٹی کے رفاعی کاموںمیں جہاںجہاں بھی ہمارے قونصل خانے ، سفارت خانے میں اہل کاروںکی اضافی ضروریا ت ہیں وہ پورا کریں ، نیز اہم شعبے پاکستان کی نیک نامی ، اور تجارت کے حوالے سے پریس سیکشن،کمرشیل قونصل کی ضروریات کو اول ترجحی دیکر حل کریں تاکہ جس مکار پڑوسی سے پاکستان کا واسطہ ہے وہ اسکا پاکستان پر میڈیا یلغار کا مقابلہ کرسیکیں، یہاںموجود پاکستانیوں صحافیوںکے سوشل تنظیم پاکستان جرنلسٹ فورم جسے وزیر اعظم بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں وہ تمام تر پاکستان دوست اقدامات پر سفارت کاروں کے ساتھ ہے ۔
کشمیر کے معاملات میںپریس سیکشن اور ملک کی معشیت کے حوالے سے کمرشل سیکشن دل لگا کر مزید بہتر انداز میں کام کرکے مثبت نتائج دیں۔ پاکستانیوں کی تعداد تقریبا پچیس لاکھ ہے انکے لئے یہاں ویلفئیر قونصلز کی تعداد کم ہے اور کام زیادہ اسطرف بھی توجہ کی ضرورت ہے پاکستانیوں کو قانونی سہولت پہنچانے کیلئے سعودی قوانین سے آشناءلاءفرم کی خدمات کی ضرورت ہے ۔
یہاں سب برائیاںہی نہیں اسی دوران کبھی کبھی اچھے کام ہوتے ہیں جیسا کہ گزشتہ دنوں ہوا ، عمرہ پر آئے ایک جوڑے کے ہاں مدینہ المنورہ میں ولادت ہوئی ، بچہ صحت مند نہیں تھا اسپتال میں علاج کیلئے داخل ہوگیا ، اس دوران عمرہ کی مقررہ معیاد ختم ہونے کی وجہ سے والدین کو بچہ چھوڑ کر پاکستا ن جانا پڑا ، بچہ کو اللہ نے صحت دی اسپتال اور دیگر اداروں نے پاکستان قونصلیٹ سے رابطہ کیا ، والدین کو جدہ کی قونصیلٹ نے پاکستان سے دوبارہ واپس بلاکر بچہ انکے حوالے کیا ان کاوشوںمیںجو واقعی دل سے کی گئیں ، قونصل جنرل ، نیز قونصل ویلفیئر باسط عباسی اور مدینہ میں پاکستانی حج مشن کے ڈائیریکٹر چوہدری وحید اس انسانی خدمت پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38