نوائے وقت: ایک نظریہ، ایک تحریک

Mar 10, 2025

نازیہ مصطفےٰ

تاریخ شاہد ہے کہ جنگیں صرف تلواروں سے نہیں لڑی جاتیں، کبھی کبھی قلم سے نکلا ایک لفظ بھی اتنا طاقتور ہوجاتا ہے کہ وہ تاجداروں کے تخت اْکھاڑ دیتا ہے اور مظلوموں کے لیے امید کے نئے چراغ روشن کردیتا ہے۔ برصغیر میں وادی سندھ سے لے کر گنگا کے کناروں تک، جب انگریز کی نوآبادیاتی تلوار نے اپنا سکہ جمایا، تو اْس کے مقابلے میں ایک اور ہتھیار اْبھرا، یہ ہتھیار ’’صحافت‘‘ کا ہتھیار تھا۔ یہ وہ دور تھا جب اخبارات کی سرخیاں عوام کو صرف خبریں ہی نہیں دے رہی تھیں، بلکہ قوموں کی تقدیر بدلنے میں بھی اہم کردار ادا کررہی تھیں۔ بلاشبہ اِس جنگِ میں ’’نوائے وقت‘‘ وہ شمشیر بے نیام ثابت ہوئی، جس نے برصغیر کے مسلمانوں کو ناصرف پاکستان کا خوابِ دکھایا بلکہ اس خواب کو تعبیر دینے کا راستہ بھی دکھایا۔
سنہ 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد جب انگریزوں نے مسلمانوں کو سیاسی اور ثقافتی طور پر کچلنا شروع کیا، تو اْس وقت کے اخبارات انگریز کیلئے ایک کارگر ہتھیار ثابت ہوئے۔ ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ ہو یا ’’ہندوستان ٹائمز‘‘، اور پھر ’’آریہ گزٹ‘‘ جیسے اخبارات مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے میں مصروف رہتے تھے۔ اِس کے جواب میں سرسید احمد خان نے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ جیسے جریدے نکالے، مگر یہ مجلے محض تعلیمی اصلاح تک محدود تھے۔ 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام کے بعد جب مسلمانوں نے سیاسی جنگ کا باقاعدہ آغاز کیا، تو صحافت کا محاذ بھی گرم ہوگیا۔ ہندوؤں کے ترجمان اخبارات کی کثیر تعداد کے مقابلے میں مسلمانوں کے پاس صرف چند پرچے تھے، جن میں ’زمیندار‘ کے علاوہ ’الہلال‘ اور ’کامریڈ‘ شامل تھے۔ مگر یہ سب اْس وقت تک بکھرے ہوئے تاروں کی مانند تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ’نوائے وقت‘ کی صورت میں ایک مکمل چاند ابھی طلوع نہیں ہوا تھا۔
23 مارچ 1940ء تاریخ کا وہ دن ہے جب قراردادِ پاکستان منظور کی گئی۔ اْسی روز لاہور کے ایک چھوٹے سے کمرے میں ایک نوجوان نے اپنے دوستوں کے ساتھ نوائے وقت کا پہلا پرچہ تیار کرکے لوگوں میں تقسیم کیا۔ یہ نوجوان کوئی اور نہیں، حمید نظامی تھے۔ ایک ایسا مرد مجاہد جس نے قائدِ اعظم کے خواب کو الفاظ کا روپ دیا۔ آنے والے دنوں میں حمید نظامی نے اخبار کو صرف خبروں کا ذریعہ نہیں بنایا، بلکہ اْسے نظریہ پاکستان کا ترجمان بھی بنادیا۔ قائدِ اعظم نے حمید نظامی کو خط لکھا اور بجا طور پر کہا کہ ’’آپ کا اخبار مسلم لیگ کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔‘‘
سوال یہ ہے کہ نامساعد حالات اور انتہائی قلیل سرمایے سے شروع ہونے والا اخبار کس طرح برصغیر کی طاقتور ترین نوآبادیاتی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا؟ تو اس کا سادہ سا جواب ہے کہ یہ سب کچھ ایمان، عزم، اور قربانی کے جذبے کی بدولت ممکن ہوسکا۔ حمید نظامی نے اخبار چلانے کے لیے اپنی گاڑی بیچ دی، گھر کے زیورات گروی رکھ دیے، مگر کبھی اپنے مشن کا سودا نہ کیا۔ اسے کہتے ہیں صحافت۔
حمید نظامی صرف صحافی نہیں تھے، بلکہ ایک عظیم منتظم بھی تھے۔ 1939ء میں جب اْنہوں نے ’’پاکستان سٹوڈنٹ فیڈریشن‘‘ کی بنیاد رکھی تو پنجاب کے گلی کوچوں میں ’’لے کے رہیں گے پاکستان‘‘ کے نعرے گونجنے لگے۔ یہ وہ دور تھا جب پنجاب کے وزیراعلیٰ سردار سکندر حیات خان مسلم لیگ کے سخت مخالف تھے۔ مگر طلبہ کی اس تحریک نے حکومت کے پاؤں تک سے زمین ہلادی تھی۔ راوی کے کنارے بیٹھے ہوئے بزرگ بتایا کرتے تھے کہ کس طرح حمید نظامی کی تقریروں نے نوجوانوں کو جدوجہد پاکستان میں بھرپور حصہ لینے کیلئے اْکسایا۔ حمید نظامی کا اخبار نوائے وقت طلبہ کا بڑا ہتھیار بن چکا تھا، جس کا ہر اداریہ ایک منشور اور ہر خبر توپ کے گولے کا کام کررہی تھی۔
ادھر 1940ء کی دہائی میں برصغیر کی صحافت کا منظرنامہ کچھ یوں تھا کہ انگریز کے زیرِ اثر اخبارات، ہندو کانگریس کے پرچے اور مسلمانوں کی آواز دبانے والے علماء، یہ سب آزادی پسند مسلمانوں کی حوصلہ شکنی کا کام کررہے تھے۔ اِس گھمبیر صورت حال میں صرف دو اخباروں نے ’پاکستان‘ کا نعرہ لگایا۔ انگریزی میں ’ڈان‘ اور اردو میں ’نوائے وقت‘ یہ کام کررہے تھے۔ حمید نظامی نے اپنے اداریوں میں کبھی مصلحت کو جگہ نہ دی۔ جب کانگریس نے ’متحدہ ہندوستان‘ کا نعرہ لگایا تو نوائے وقت نے لکھا کہ ’’مسلمانوں کی بقاء صرف پاکستان میں ہے۔‘‘ جب انگریز حکومت نے مسلم لیگ کو دبانے کی کوشش کی تو حمید نظامی نے سرکاری اشتہارات تک کو مسترد کردیا۔
یہ جنگ صرف کاغذوں تک محدود نہیں تھی۔ 1946ء کے انتخابات میں جب مسلم لیگ نے بھرپور کامیابی حاصل کی تو نوائے وقت نے Oops کہ ’’یہ کامیابی دراصل پاکستان کیلئے ریفرنڈم ہے۔‘‘ دیکھتے ہی دیکھتے اِس جملے نے ہندوستان بھر کے مسلمانوں کو یکجا کردیا۔
حمید نظامی کے انتقال کے بعد جب مجید نظامی نے نوائے وقت کی باگ ڈور سنبھالی، تو یہ سوال اْٹھا کہ کیا یہ اخبار اپنا مشن جاری رکھ پائے گا؟ مگر مجید نظامی نے ثابت کیا کہ نوائے وقت محض ایک اخبار نہیں، بلکہ ایک نظریہ ہے، ایک تحریک ہے اور تحریک کبھی ختم نہیں ہوتی۔ مجید نظامی مرحوم نے ایوب خان کے مارشل لاء کے خلاف قلم اْٹھایا، بھٹو کی پابندیوں کو للکارا اور میاں نواز شریف کی حکومت میں بھی سچ بولنے سے گریز نہ کیا۔آج جب پاکستان کی صحافت کا بیشتر حصہ پرچون فروش بن چکا ہے، تو سوال اٹھتا ہے کہ ایسے پرآشوب دور میں نوائے وقت کا ستارہ آج بھی کیوں روشن ہے؟ تو وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہ اخبار کبھی مفاد کی غلامی میں نہیں آیا۔ آج کے دور میں جب اخبارات سرکاری اشتہاروں کے لیے اپنا مشن بیچ دیتے ہیں، تو نوائے وقت آج بھی اْسی عہد پر قائم ہے جو حمید نظامی نے 1940ء میں اپنی قوم، اپنے قارئین اور اپنے آپ سے کیا تھا۔ مجید نظامی نے اس عہد کو حرزِ جاں بنایا اور آج رمیزہ مجید نظامی بھی اسی عہد پر کاربند ہیں۔
نوائے وقت کی داستان ہمیں بتاتی ہے کہ قلم کی طاقت کسی تلوار سے کم نہیں ہوتی۔ حمید نظامی مرحوم اور مجید نظامی مرحوم نے ثابت کیا کہ صحافت محض پیشہ نہیں، بلکہ ایک سوچ ہے، ایک نظریہ ہے، ایک تحریک ہے اور ایک عقیدہ ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو یہ سبق دیں کہ سچائی کے لیے لکھو، خواہ تمہارے خلاف پہاڑ کیوں نہ کھڑے ہو جائیں۔ رواں ماہ 23 مارچ کو نوائے وقت کے اجراء کے 85 سال مکمل ہونے کو ہیں۔ یہ واحد قومی اخبار ہے جو ملک کی نظریاتی سرحدوں کا محافظ ہے جو اصولی نظریاتی صحافت کا پرچم مضبوطی سے تھامے ہوئے ہے۔

مزیدخبریں