جمعة المبارک 17 شعبان المعظم، 1444ھ، 10 مارچ 2023ئ

پارلیمنٹ میں موجود خواتین عام عورت کی نہیں ایلیٹ کلاس کی نمائندہ ہیں۔ سراج الحق
بات تو سو فیصد درست کی ہے امیر جماعت اسلامی نے۔ واقعی ہماری پارلیمنٹ میں موجود خواتین مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھتی ہیں۔ انہیں کیا معلوم کہ عام طبقے کی خواتین کن مسائل سے دوچار ہیں۔ متمول ہونے کے باوجود یہ زردار خواتین ایک چھٹی کرنے یا ایک گلاس یا پلیٹ ٹوٹنے پر کام کرنے والی ان مظلوم خواتین کی تنخواہ سے پیسے کاٹنے سے بھی نہیں شرماتیں، جن کے دکھڑے سنانے کے لیے خواتین کا ایک ٹولہ حیا مارچ کرتا ہے اور دوسرا ٹولہ آزادی مارچ۔ اس حیا اور آزادی کے درمیان ورکر محنت کش اور گھریلو خواتین خواہ بلوچستان کی ہوں یا سندھ کی، پنجاب کی ہوں یا خیبر پی کے کی ،پس رہی ہوتی ہیں۔ ان کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔ ویسے حیرت کی بات ہے کہ اگر آزادی مارچ میں بھی مرد حضرات شریک ہوتے ہیں تو حیا مارچ میں دیکھ لیں مردوں کی کثیر تعداد شامل ہوتی ہے اور اس سے خطاب بھی مرد ہی کرتا ہے۔ یعنی مرد ہی بہتر جانتا ہے کہ کیا کہنا ہے ان خواتین سے جنہیں گھر میں اور گھر کے باہر بھی ابھی تک مردوں کا ہی دست نگر بنا کر رکھا جاتا ہے۔ حجاب والی خواتین ہوں یا جدید لباس والی خاتون، ان سب میں بھی عام اور خاص کلاس کا فرق ہوتا ہے۔ آج تک کسی جماعت نے خواہ مذہبی ہو یا سیاسی عام طبقے کی خواتین کو آگے لانے، انہیں بااختیار بنانے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ دیکھا تو یہ بھی گیا ہے کہ دیہات کی بات چھوڑیں شہروں میں بھی اپنی کام والیوں کو بلدیاتی الیکشن میں خواتین کی سیٹ پر اس لیے کامیاب کرایا جاتا ہے کہ وہ ان کی مرضی سے چلیں گی۔ اس لیے خواتین کو ابھی ”بڑھے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی“ کے مصداق بااختیار ہونے کے لیے بہت سا سفر طے کرنا ہے ،ہر طبقے کی عورت کو تعلیم، روزگار، عزت و حرمت، آگے بڑھنے کے مواقع دلانا ہے۔ مگر یہاں بھی چالاک مردوں نے حیا اور آزادی کے نام پر ان کو ایک دوسرے کے مقابل لا کر ان کی طاقت توڑ دی ہے تاکہ یہ متحد ہو کر نیا سیاپا نہ کھڑا کر دیں۔
٭٭٭٭٭
بھوت سروے عوام میں مقبولیت کا پیمانہ نہیں۔ فیصل کریم کنڈی
لگتا ہے ہمارے وزیر مملکت اس سروے سے بہت ناخوش ہیں جس میں عمران خان کو عوام میں مقبولیت میں سب سے آگے دکھایا گیا ہے۔ بعض لوگوں کو اس پر بھی تعجب ہے کہ وہ اس وقت مقبولیت کی انتہا پر ہیں اور سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو تک کو انہوں نے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہ بڑی حیرت کی بات ہے ورنہ ”کل بھی بھٹو زندہ تھا۔ آج بھی بھٹو زندہ ہے“ کا نعرہ تو اس کے برعکس تصویر دکھاتا ہے اور پھر آج تک خود پیپلز پارٹی والے ” تم کتنے بھٹو مارو گے ہر گھر سے بھٹو نکلے گا“ کے نعرے پر مکمل یقین رکھتے ہیں۔ اس حساب سے تو انہیں ملک میں ہر جگہ بھٹو ہی نظر آتا ہے۔ موجودہ رہنماﺅں کو تو آصف زرداری کی شکل میں بھٹو نظر آتا ہو گا جسے خود بھٹو خاندان نے ابھی تک قبول نہیں کیا۔ بہرحال سروے کے مطابق اس وقت عمران خان 61 نمبر لے کر تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین سے بہت آگے ہیں، جن میں سے بلاول 36 نمبر کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں۔ اب اس بات سے ہی اس سروے کی تمام حقیقت آشکارا ہوتی ہے۔ مگر اس کے باوجود سب جانتے ہیں کہ ایسے ہی سروے کر کے بھٹو کو ایوب کو ضیا کو نواز شریف کو گمراہ کیا جاتا رہا مگر پھر بھی عمران خان اس وقت مقبولیت کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں جس پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون والوں کو مرچیں تو لگنی ہیں کیونکہ اس طرح ان کے آنکھوں کے تارے راج دلارے لیڈروں کی سبکی ہو رہی ہے جو تمام تر دھوم دھڑکے کے باوجود مقبولیت کی سیڑھی پر عمران خان سے بہت نیچے ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ عمران خان اپنی اس مقبولیت کو کس طرح کیش کراتے ہیں اور برقرار رکھتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مقبولیت کے زعم میں پے درپے یوٹرن لے کر وہ اپنی سیاسی ساکھ ہی تباہ کر دیں اور پھر پچھتاتے نظر آئیں۔
٭٭٭٭٭
2035ءتک دنیا کی آدھی آبادی موٹاپے کا شکار ہو سکتی ہے
یہ تو وہ لوگ ہوں گے جو فاسٹ فوڈ کھانے کی طاقت رکھتے ہیں، ان کی جیب اس کی اجازت دیتی ہے اور باقی آدھی آبادی جو دبلی پتلی ہو جائے گی، وہ لوگ ہوں گے جو بے چارے پیٹ بھر کر روٹی کھانے کی سکت بھی نہیں رکھتے ہوں گے۔ یہ عجب دنیا ہے۔ کوئی کھا کھا کے مرتا ہے اور کوئی بھوک سے مرتا ہے۔ اس وقت دنیا میں جس طرح بازاری کھانوں کی طلب بڑھ رہی ہے۔ لوگ چلنے پھرنے سے اجتناب کرنے لگے ہیں۔ آرام طلب ہو گئے ہیں۔ ورزش کا تو تصور ہی اس جدید ماڈرن لائف سٹائل میں عنقا ہو گیا ہے جسے دیکھو موبائل یا کمپیوٹر پر دیر تک بیٹھا صرف منہ چلاتا نظر آتا ہے۔ ایسے لوگوں نے موٹا نہیں ہونا تو اور کیا ہونا ہے۔ بچے تک بھی اب گھر میں پکے کھانوں سے بھاگتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بازار سے مہنگے داموں جا کر پیزا، برگر، شوارما اور نجانے کیا کیا بلا خرید کر کھائیں جن میں غذائیت کم اور فیٹ زیادہ ہوتی ہے ۔اس طرح یہ چربی بن کر پورے جسم پر چھا جاتی ہے اور اچھا بھلا نوجوان جسے سمارٹ ہونا چاہیے‘ بھدا اوربے ڈول ہو جاتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ موٹاپا ایک سچا دوست ہوتا ہے جو ایک بار جس کا دامن تھام لے یا ہاتھ پکڑلے پھر وہ ساری زندگی اس کے ساتھ رہتا ہے۔ اسے برے بھلے وقت میں بھی نہیں چھوڑتا۔ اب اگر موٹاپے کی رفتار اسی طرح بڑھتی رہی تو صرف وہی لوگ سمارٹ نظر آئیں گے جو بے چارے غربت کی وجہ سے یا بیماری کی وجہ سے فاسٹ فوڈ سے گریز کرتے ہیں۔ باقی سب لوگ موٹے آلو پلپلے بنے نظر آئیں گے۔ اس لیے ہمیں زندگی بسر کرنے اور کھانے پینے کا انداز بدلنا ہو گا ورنہ موٹاپا اپنے ساتھ بے شمار بیماریاں لا کر ہمیں یرغمال بنا لے گا جس سے بچنا ضروری ہے۔
٭٭٭٭٭
جھگڑے میں ملوث 79 طلبہ کو قائد اعظم یونیورسٹی سے نکال دیا گیا
اگر قانون کی عملداری کرانی ہے تو ایسے سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔ مگر شرط یہ ہے کہ ملک کی تمام جامعات میں یہی ڈسپلن قائم کیا جائے۔ ایسے ہی سخت فیصلے کر کے قانون پر عمل کرایا جائے۔ والدین اپنی جمع پونجی لگا کر اپنے بچوں کو اچھی یونیورسٹیوں میں پڑھنے کے لیے بھیجتے ہیں۔ اگر یہ طالب علم یہاں بھی لسانی، سیاسی اور صوبائی تعصب میں پڑ کر لڑائی جھگڑے کرنے لگیں، ایک دوسرے کے ہاتھ پاﺅں توڑ کر سر پھاڑ کر اپنی دادا گیری جمانے کی کوشش کریں تو یہ ایک غلط فعل ہے۔ کسی بھی طلبہ تنظیم کو یوں اپنی دھاک بٹھانے کی اجازت دینا حماقت ہے۔ اب بدقسمتی سے ہماری تمام جامعات میں یہ حماقت ہو رہی ہے۔ مسلح طلبہ تنظیمیں، کہیں مذہب کے نام پر، کہیں لسانیات کے چکر میں، کہیں صوبائیت کی آڑ میں جھتے بنا کر ہوسٹلوں پر قابض ہیں۔ جہاں تعلیمی سرگرمیاں کم غیر نصابی سرگرمیاں زیادہ نظر آتی ہیں۔ اسلحہ اور منشیات ہوسٹلوں میں عام ہے۔ غیر طالب علم وہاں ہر وقت براجمان نظر آتے ہیں۔ اکثر مار پیٹ اور احتجاج کی خبریں سامنے آتی ہیں۔ جامعہ کراچی اور جامعہ پنجاب میں اب قائد اعظم یونیورسٹی کی طرح سخت ترین فیصلے کر کے ان اداروں کی تعلیمی ساکھ مجروح ہونے سے بچائی جا سکتی ہے۔ مادر علمی کی گود میں اگر غنڈے پروان چڑھنے لگیں تو یہ بڑے شرم کی بات ہے۔ بلاتفریق سب کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے۔ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں بچے پڑھنے آتے ہیں دادا گیری سیکھنے نہیں۔ تعلیمی اداروں سے آﺅٹ سائیڈرز ، ناپسندیدہ اشخاص اور جرائم پیشہ گروہوں کو نکالنے کے لیے قائد اعظم یونیورسٹی کا فیصلہ مشعل راہ بن سکتا ہے۔ بس یہ کام غیر جانبدار ی کے ساتھ انجام دیا جائے تاکہ کوئی انگلی نہ اُٹھا سکے اور اسے منفی سیاست کے لیے استعمال نہ کر سکے۔
٭٭٭٭٭