سیاست کی سوجھ بوجھ رکھنے والے فرماتے ہیں کہ سیاست اور اقتدار بڑے بے رحم ہوتے ہیں اور انکے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ اقتدار کے سینے میں دل کے حوالے سے خلافت کے دور سے لیکر مغلیہ دور تک کوئی بھی صفحہ کھولیں تو آپکو بیشمار ایسے قصے سْننے کو ملیں گے جنہیں سن کر دل دہل جاتا ہے۔ دیکھا جائے تو صرف مسلمانوں کی تاریخ ہی ایسے المیوں کا احاطہ کرتی نظر نہیں آتی۔ تاریخ کے بند کواڑ کھولیں تو ہندو ازم کے شاستر اور حتی کہ آجکل کے مہذب معاشرے کے دعویدار مغربی دنیا کی تاریخ بھی ایسے قصوں سے بھری پڑی ہے شائد اسی لئے کہتے ہیں کہ اقتدار اور سیاست میں ہر آنے والا لمحہ اپنے اندر نت نئے تغیرات سمیٹے ہوتا ہے۔ 3 مارچ سے پہلے کون کہہ سکتا تھا کہ سینٹ کے الیکشن میں ایک ایسا اپ سیٹ دیکھنے کو ملے گا جسکے آفٹر شاک شائد اگلے کچھ دنوں میں بہت کچھ زمین بوس کر دیں۔ جی قارئین سید یوسف رضا گیلانی کی جیت کا وہ اپ سیٹ جس کے متعلق اس خاکسار نے 3 فروری کو اسی روزنامہ میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں پشین گوئی کی تھی۔ جیسے ہی یہ غیر متوقع نتیجہ سامنے آیا دوست لوگوں نے اگلے ہی لمحہ کچھ ایسی توقعات باندھ لیں کہ موجودہ حکومت اب گئی کہ گئی لیکن یہ سادہ لوح شائد سیاست کی ان سازشوں سے اتنی واقفیت نہیں رکھتے جس کے کچھ سیاسی پنڈت اپنی جاگتی آنکھوں سے نظارے کر رہے ہوتے ہیں۔
مارچ کی چار تاریخ کو اسلام آباد میں جس قسم کی سر گرمیاں ہو رہی تھیں واقفان حال اس بات کا بخوبی اندازہ لگا رہے تھے کہ کلاس سے بھاگے ہوئے بچے کہیں دور نہیں گئے بلکہ شائد وہ ہیڈ ماسٹر صاحب کی مرضی سے موسم بہار کی آمد کے ساتھ کچھ کیاریوں کی ترتیب بدلنے گئے ہیں۔ جب دوست لوگ اعتماد کی تحریک کے موقع پر اسی طرح کے اپ سیٹ کی توقع کر رہے تھے جیسا اپ یوسف رضا گیلانی کی جیت پر ہوا تھا تو اس خاکسار نے سوشل میڈیا کا سہارا لیکر لکھا کہ اج زمین پر یعنی اسمبلی میں فرشتے آئینگے اور اپنا ووٹ ڈال کر چلے جائینگے جس پر دوستوں نے اپنے اپنے ذہن اور اپنی اپنی سوچ کیمطابق مختلف مطلب اخذ کیے لیکن اس خاکسار نے اسکے ساتھ ہی اپنے اس اعتماد کا اظہار بھی کیا کہ اس اعتماد کی تحریک میں موجودہ حکومت سرکاری طور پر کامیاب ہو جائے گی۔ جو لوگ اس نتیجے کے برعکس کسی اور بات کی اْمید لگائے بیٹھے تھے شائد وہ ان زمینی حقائق کا صحیح مطالعہ نہیں کر رہے تھے جن سے مجھ جیسے ناقص العقل بھی اندازہ لگا رہے تھے کہ ان معروضی حالات میں کسی اپ سیٹ کا ہونا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔
جن معروضی حالات کا راقم ذکر کر رہا ہے اْن میں سب سے پہلی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن کی طرف سے کسی ایسی تحریک کے بارے میں ہوم ورک تو دور کی بات سوچا تک بھی نہیں گیا تھا اور اس کیلئے اْنھوں نے کوئی حکمت عملی بھی مرتب نہیں کی تھی۔ شائد یہی وجہ تھی کہ حکومت کو اْنھوں نے جان بوجھ کر اپنا کھیل کھیلنے کی چھوٹ دی۔ یار لوگ اس پر بھی طرح طرح کے سوال داغ سکتے ہیں جس پر میرا انکو ایک ہی جواب ہو گا ذرا گہرائی سے غور کرو اس ساری شطرنج کی بازی بچھانے والا کونسا کھلاڑی ہے۔ ظاہر ہے جواب ایک ہی آئیگا۔ آصف علی زرداری تو پھر اگر یہی بات ہے تو پھر یاد رکھیں وہ اپنے مفاد کی گیم کھیلتا ہے۔ اسکا مقصد گیلانی کو سیاست میں لانا تھا وہ اسے لے آیا۔ اسکی طبیعت اور عادت سے واقفیت رکھنے والے جن میں سے کچھ حوالوں کی وجہ سے اس قسم کا دعویٰ کرنیوالوں میں یہ خاکسار بھی ہے کہ آصف زرداری کسی کے احسان کا بدلہ نہیں رکھتا۔ وہ سمجھتا تھا کہ گیلانی نے بطور وزیراعظم اس کیلئے قربانی دی تھی۔ گیلانی صاحب کو فرنٹ فٹ پر لانے کی دوسری سب سے بڑی وجہ اس وقت گیلانی صاحب کے بیٹے کی بلاول سے بڑھتی ہوئی دوستی کی وہ پینگیں ہیں جو آجکل اپنے فْل سونگ پر ہیں اور شائد اس وجہ سے مصطفی نواز کھوکھر کو بھی کچھ دوری پر دیکھا جا رہا ہے۔ خاکسار کی نظر میں ان دو حقیقتوں کے علاوہ گیلانی صاحب کے حْسن انتخاب میں تیسری بڑی بات گیلانی صاحب، مخدوم احمد محمود اور جہانگیر ترین کی وہ ٹریل بھی ہے جسکی طرف بہت کم لوگوں کی نگاہ جا رہی ہے اور اس ٹریل کا فائدہ کسی کی نگاہ کا مرکز تھا تو وہ زرداری تھا کیونکہ اصل گیم جو زرداری کھیلنے جا رہا ہے وہ مرکز نہیں پنجاب ہے جہاں اسے پتہ ہے کہ تمام سیاسی وڈیرے ہی نہیں اصل اسٹیبلشمنٹ بھی کوئی بڑی تبدیلی دیکھنا چاہتی ہے اور اس کیلئے یہ ٹریل کتنی اہم ہے۔ دوست لوگ کہیں گے کہ اس میں سباق کہیں نون لیگ مریم نواز کا کوئی ذکر نہیں۔ عرض صرف اتنی ہے کوئی لیڈر بھی کسی کو بلوا کر پوری سٹوری نہیں بتاتا۔ یہ حالات اور واقعات ہوتے ہیں جن کی لکریں دیکھ کر سیاسی پنڈت کنڈلی بناتے ہیں اور اندازہ لگاتے ہیں کہ کس کا کب اور کتنا رول ہو گا۔ اس لئے جب بلاول یہ کہہ رہا ہے کہ اسکا فیصلہ ہم کرینگے کہ تحریک عدم اعتماد کہاں اور کب لانی ہے تو اس میں حیرانی نہیں ہونی چاہیئے کیونکہ لاکھ تحفظات اور اعتراضات کے باوجود یہ حقیقت ماننی پڑیگی کہ بلاول کی تربیت ایک بہت شاطر ذہن کر رہا ہے جبکہ مریم جسکو اپنا استاد کہتی ہے وہ ملک تو دور کی بات ایک شہر، ایک حلقے کی سیاست نہیں کر سکتا حتی کہ سینٹ کی سیٹ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024