پی ٹی آئی کو حکومت سنبھالتے ہی شدید مشکلات، معاشی بحران اور تقریباً 65.0بلین ڈالر کے بیرونی قرضے بھی ورثے میں ملے ۔ جبکہ پاکستان کے اندرونی اور بیرونی قرضوں کا حجم تقریباً 95.4بلین ڈالر کے قریب پہنچ چکا تھا، قومی خزانہ خالی تھا اور پاکستان ممکنہ طور پر دیوالیہ ہونے کے قریب تھا۔ ایسے میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین نے بروقت پاکستان کی مدد کی اور ایک بڑی رقم پاکستان کے قومی خزانے میں اس کی پوزیشن کو مضبوط کرنے کیلئے جمع کرائی جس کے بعد پاکستان نےIMF سے Bailoutکیلئے رجوع کیا اور طویل مذاکرات اور کڑی شرائط کے تحت پاکستان کو IMF سے Bailoutپیکیج منظور کیا گیا۔ اس پیکیج کی منظوری نے جہاں پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا وہیں اندرونی طور پر ٹیکسوں کی بھرمار، سبسڈی کے خاتمہ اور روزمرہ ضرورت کی اشیاء بشمول گیس اور پٹرول کی قیمتوںمیں اضافہ کے ساتھ ساتھ روپے کی قدر میں بھی قابل قدر کمی کی جس کے نتیجہ میں ڈالر کی قدر بڑھی اور ایک ڈالر 155.35روپے کی شرح پر پہنچ گیا جبکہ پاکستانی بیرونی قرضوں کی قدر میں بھی کافی حد تک اضافہ ہوا اور قرضوں کی مد میں پاکستان تقریباً 106.7بلین ڈالر کا مقروض ہوگیا جس سے حکومت کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا کہ ادائیگی کی اقساط بھی تقریباً دوگنی ہوگئیں‘ پاکستان کی GDPاور شرح نمو میں نمایاں کمی ہوئی جبکہ کل قومی آمدنی بھی تقریباً 3600بلین روپے کے قریب رہی۔ تاہم پی ٹی آئی حکومت نے پاکستان کو گرے لسٹ سے اور دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے تقریباً 3000 ملین روپے کی قرضوں کی قسط ادا کی تاکہIMF سے تقریباً 44ملین ڈالر کی دوسری قسط ملنے کی شرائط پوری کی جا سکیں۔ اس عمل میں حکومت کو شدید مالی بحران کا اندرونی طور پر سامنا کرنا پڑا اور بیشتر ترقیاتی منصوبوں کیلئے بھی رقم مختص کرنے میں مشکلات پیش آئیں۔ حکومت کی انتہائی کوششوں کے باوجود حکومتی اخراجات، ٹیکسوںکی مد میں قومی خزانہ میں ادائیگی اور متوقع بچت پر پوری طرح عملدرآمد نہ ہوسکا۔
دوسری جانب اپوزیشن نے تمام تر توانائی کے ساتھ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور کوئی موقع نہ چھوڑا ،جس میں حکومت وقت پر تنقید نہ کی گئی ہو۔ نہ صرف یہ بلکہ انتہائی زیرک طریقے سے سزایافتہ میاں نوازشریف کو بھی 8ہفتے کی Bailدلوا کرلندن روانہ کر دیا گیا اور ساتھ ہی لیڈر آف اپوزیشن میاں شہبازشریف بھی لندن جا ٹھہرے میاں نوازشریف جو پاکستان سے قطر ایئر کی ایمبولینس میں سوار ہو کر گئے تھے کہ اس وقت کی رپورٹ کے مطابق وہ انتہائی شدید علیل تھے اور ان کی زندگی کو خطرات لاحق تھے، وہاں وہ نہ کسی ہسپتال میں داخل ہوئے اور نہ ہی کوئی باقاعدہ علاج معالجہ شروع کرایا جبکہ دل کا ہر مریض اور ڈاکٹر جانتے ہیں کہ ایسے مریض کو فوری طور پر ہسپتال میں داخل کرلیا جاتا ہے چاہے آپریشن میں کتنا ہی وقت کیوں نہ لگے۔ اس پر طرہ یہ کہ اپنے تمام خاندان کی وہاں موجودگی کے باوجود اس VIPسزا یافتہ قیدی نے شرائط عائد کرنا شروع کر دیں کہ جب تک مریم نواز کو لندن نہ بھیجا جائے گا وہ آپریشن یا علاج نہیں کرائیں گے، تاہم ان کو لندن میں گھومتے پھرتے اور اپنے پیروں پر چلتا دیکھا جا سکتا ہے۔ ان تمام معاملات نے حکومت وقت کیلئے ایک بڑی پریشانی کھڑی کر دی کہ تمام ابتدائی رپورٹ پنجاب کی وزیر صحت کی زیر نگرانی کرائی گئیں جن کی ڈاکٹر یاسمین راشد باقاعدہ تصدیق بھی کرتی رہیں۔
اس وقت PTI کی حکومت ایک چومکھی معرکے میں پھنسی ہوئی نظر آتی ہے، جس میں معاشی مشکلات، قرضوں کا حصول، قرضوں کی ادائیگی، اندرون ملک مہنگائی کا طوفان، نیب کے کیسز میں ملزمان کی ہائیکورٹ سے ضمانتیں، افغانستان، بھارت سے تعلقات، عرب ممالک، ترکی اور ملائیشیا کی آپس میں چپقلش اور ایران پر بلوچستان سے کارروائی کیلئے امریکی دبائو کے ساتھ ساتھ چین میں کرونا وائرس کے پھیلائو کے باعث C-PAC کے ساتھ دنیا بھر میں تجارتی سرگرمیوں میں مندی جو پاکستانی مصنوعات کی نہ صرف برآمدات بلکہ درآمدات میں قیمتوں میں اضافہ کا سبب بھی ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے 3 یا 4 ماہ کے دوران مرکزی حکومت کیا حکمت عملی اپناتی ہے کہ ان سر اٹھاتے مسائل کے حل اندرون ملک اس مہنگائی کے جن کو قابو کرنے کے ساتھ ساتھ بیروزگاری اور غریب عوام کی زندگی کو آسان کیسے بنائے گی اور آٹے اور چینی کے ساتھ ساتھ روزمرہ ضروریات زندگی کی قیمتوں پر کنٹرول کر کے عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانے اور حکومت میں آنے سے پہلے کئے گئے وعدوں کو کیسے پورا کر سکے گی جبکہ جون میں اپنا دوسرا بجٹ بھی پیش کرنا ہے جس میں IMF کی شرائط کے مطابق TAX NO میں اضافہ، Govt Levy اور قومی آمدنی میں اضافہ کے ساتھ ساتھ ایک بڑے خسارے کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ قرضوں کی ادائیگی اور تکمیل پذیر بڑے پراجیکٹ جن میں ڈیم بھی شامل ہے، اس کے علاوہ پاکستان کی دفاعی ضروریات کیلئے ممکنہ حد تک رقوم کی فراہمی جو پاکستان کے تحفظ اور دفاع کیلئے انتہائی ضروری ہے، کس طرح فراہم کی جاتی ہے۔ یہ تمام اہداف PTI کی حکومت اور ان کے وزراء کے ساتھ ساتھ تمام صوبائی حکومتوں کیلئے بھی ایک بڑا چیلنج ثابت ہو گا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38