بنتِ شہِ بطحاؐ کی شان
پیر نصیر الدین نصیر آف گولڑہ شریف
ہو نہیں سکتی رقم بنتِ شہِ بطحاؐ کی شان
کیا بیاں ہو قطرہء ناچیز سے دریا کی شان
ایک ذرہ کیا احاطہ کر سکے خُورشید کا
ایک ادنیٰ کیا سمجھ سکتا ہے ایک اعلیٰ کی شان
ہے میرے پیشِ نظر اُس ذات کا ذکرِ بُلند
پست ہو جاتی ہے جس کے سامنے دُنیا کی شان
بضعۃ منی کہیں جس کو رسولِؐ اِنس و جاں
اس سے بڑھ کر اور کیا ہو اس دُرِ یکتا کی شان
جس کی آمد پر کھڑے ہوں خود امام الانبیائؐ
دیکھیے چشم نبّوت میں ذرا زھراؓ شان
چال میں حُسن خرام احمدؐی کا بانک پن
والضحٰی سے ملتی جلتی چہرہ ء زیبا کی شان
اہل محشر جس کی آمد پر رکھیں نیچی نظر
کس قدر اُونچی ہے اس شہزادیء والا کی شان
عائشہ ؓسے پُوچھ جا کر رُتبہ اُم الحسنؓ
پُوچھ صدیق ؓ و عُمر ؓ سے لا فتی الا کی شان
یہ خواتینِ جہانِ نو بھلا سمجھیں گی کیا؟
مریم و حوّا سے پُوچھو زینبِ کُبریٰؓ شان
ذہن محوِ یادِ حقّ، دل جورِ اعدا سے غنی
دیدنی تھی کربلا میں ثانیء زھرا ؑ کی شان
تیری اُس بیٹی کا وہ خُطبہ وہ دربارِ دمشق
علم نانا کا، خطابت سے عیاں بابا کی شان
مرتبہ حیدرؓ کا بتلائیں تو بتلائیں حسینؓ اک تقی پہچان سکتا ہے کسی اتقیٰ کی شان
ہے جہاں میں بے عدیل و بے مثال و بے مَثیل
ضرب حیدرؓکی، محمدؐ کی سَخا، زھراؓ کی شان
جب بنی بنتِ محمدؐ والدہ سبطین کی
چشمِ انساں میں دوبالا ہو گئی ممتا کی شان
مرحبا زھراؓتیرا زوجِ گرامی بو تُراب
خاک میں جس نے مِلا دی قیصر و کسریٰ کی شان
پڑ گئے تھے آبلے ہاتھوں میں چکی پیستے
بھوک کی شدّت سے پتھّر پیٹ پر، مولا کی شان
اولیاء و اصفیا کے رُوپ میں ظاہر ہوئی
سیّدہ زھراؓ تیرے ایک ایک نقشِ پا کی شان
باقر ؓ و شبیرؓ و شبرؓ وز ینبؓ و زین العباد
مرحبا کیا اوج پر ہے عِترتِ زھراؓ کی شان
وہ تو تیرے مہ پاروں نے لگائے چار چاند
ورنہ کیا کربل کے اک تپتے ہوئے صحرا کی شان
سجدہء حیرت میں ہے اب تک جہانِ ساجدین
دیکھ کر تیرے پسر کے سجدہء اُولیٰ کی شان
جب سوا نیزے پہ آجائے گا سُورج مُنکرو!
اس گھڑی تم پر کُھلے گی چادرِ زھراؓ کی شان
فا طمہؓ ماں ہے اُسی مردِ جری کی اے نصیر
لشکرِجرّار پر حاوی تھی جس تنہا کی شان