فاطمہؓ عکسِ جمالِ احمدِ مختار ؐہے
مولانا سیّد شہنشاہ حسین نقوی
20جمادی الثانی سن5 بعثت،یعنی بعثتِ رسول اکرمؐ کے پانچ برس بعددُخترِ رسولِ مقبولؐ،ہمسر مولا علیؓدرِ حسنینِ کریمین ؓخاتونِ محشر،خاتونِ جنت، سیّدۃ النساء العالمین حضرت بی بی فاطمۃ الزہرا ؑکی تاریخِ ولادت باسعادت ہے۔آج20جمادی الثانی ہے۔ اللہ نے اپنے حبیب ،پیغمبر اکرمؐ کو چار چیزیں دی ہیں۔دی تو بہت کچھ ہیں ۔ میں یہ جملہ اور بہتر کروں، ساری کائنات پیغمبر اکرم ؐ کی ہے، سارے خزانے پیغمبر اکرمؐ کے ہیں، ہم پیغمبر اکرم ؐ کے ہیں، ہماری جانیں پیغمبر اکرم ؐکی ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ جن چیزوں کو اللہ نے گِنوایا، اللہ نے کہا، میں نے دی ہیں، وہ چار چیزیں ہیں۔ ایک مرتبہ کہا:’’ہم نے تمھیںفتحِ مبین عطا کی۔‘‘(سورۃ الفتح، آیت1)دوسرا مرحلہ:’’ہم نے تمھیں رسولؐ بنایا۔‘‘(سورۃ الاحزاب، آیات45،46)تیسرا مرحلہ:’’ہم نے تمھیں قرآن عطا کِیا۔‘‘(سورۃ القدر،آیت1)پیغمبر اکرم ؐ کو اللہ نے قرآن دیا، فتح مکّہ عطا کی، رسالت عطا کی، لیکن یہ تینوں چیزیں درحقیقت جزائیں ہیں، عطا نہیں ہیں۔ ان تینوں چیزوں میں دینے کا تذکرہ ہے۔ اِک مرتبہ چوتھی چیز عطا کی۔’’ہم نے تمھیں خیرِ کثیر(فاطمہ زہراؓ) عطا کی۔‘‘(سورۂ کوثر، آیت 1)عطائے الہٰی ہیں فاطمہ زہرا ؓ، جن پر اللہ تبارک و تعالیٰ کے سلام آتے ہیں۔نبی مکرّمؐ ؐکی تمام تر محنتوں کا صلہ ہیں حضرت بی بی زہرا ؓ۔اور عطا میں اور جزا میں فرق ہوتا ہے۔ فرض کیجیے، کوئی آپ کو رُومال ہدیتاً دے اور دینے والا گلی کا بچّہ ہو،تو شاید آپ اس رُومال کا اِتنا احترام نہ کریں، جتنا علاقے کا عالمِ دِین آپ کو رُومال دے، تو اُس کا احترام کریں۔ اور اگر کوئی مرجع تقلید آپ کو رُومال ہدیے میں بھیج دے، اُس کاکچھ اور مقام ہے۔اور اگر امامِ وقت ہدیتاً کوئی چیز بھیج دیں، تو اُس کا مقام کچھ اور ہے۔جتنا بڑادینے والا ہوتا چلا جائے گا، اُتنی ہی عطا کی قدرو قیمت میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ اب میں اپنی جان دے سکتا ہوں،مگر یہ رُومال نہیں دے سکتا۔اِس لیے کہ امام ؓنے بھیجا ہے۔ اور جو چیز امامؓ نے بھیجی ہے، وہ کیوں کہ منسوب ہوگئی امام سے،اُس کی قدر میں اضافہ ہوگیا۔کمال تو اُس بی بی شطیطہؓ کا ہے، سلام تو اُس بی بی شطیطہؓ پر ہو ، اما مؓ بھیجیں تو عطا۔ کچھ عطائیں یہاں سے بھی کی جاتی ہیں۔کچھ ہدیئے یہاں سے بھی جاتے ہیں۔جتنا خلوص ہدیوں میں شامل کردیا جائے، اما م پکار کر مانگتے ہیں:’’وہ رُومال لائو جو ہماری ایک چاہنے والی نے بھیجا ہے۔‘‘میں نے اِشارہ کیا، صاحبانِ فکر،صاحبانِ دقت نے اسے محسوس کیا۔
اگر دینے والا بڑا ہوجائے، دینے والا اما مؓ ، دینے والا مرجعِ تقلید، دینے والا معصومؓ ، اِس لیے کہ دینے والا بڑا ہے، اُس کا مقام و مرتبہ بڑا ہے۔ میں جان دے دوں گا، مگر وہ چیز نہیں دُوں گا۔ اِس لیے کہ عطا کرنے والا بہت بڑا ہے۔اب سمجھ میں آتی ہے بات، جب نبی مکرّم ؐکے سامنے جنابِ سیّدہؓ آتی تھیں تو رسولِ اکرم ؐ کھڑے کیوں ہوجاتے تھے۔یہ بیٹی کے رشتے سے کھڑے نہیںہوتے تھے، عطائے الٰہی کے رشتے سے کھڑے ہوتے تھے۔اپنی جگہ بٹھاتے تھے۔بی بی کے ہاتھوں کا بوسہ لیتے تھے۔ یہ مقام کچھ کم مقام نہیں ہے عزیزو! اپنی جگہ پہ بٹھانا۔اِرشادفرماتے تھے:’’فاطمہ ؓ میرا حصّہ ہے۔‘‘(صحیح بخاری،ج 5،حدیث 3767،صحیح مسلم،ج4۔
قرآنِ کریم نے پکار کر کہا:’’تمھارے لیے رسول اللہ ؐکی زندگی بہترین نمونۂ حیات ہے۔‘‘(سورۃ الاحزاب، آیت 21) اللہ نے پیغمبر اکرمؐ کو اُسوۂ حسنہ قرار دیا، لیکن نبی مکرّم ؐ نے جناب سیدہؓ کو اپنے بدن کا ہی نہیں، اپنی نبوت کابھی ٹکڑا قرار دیا ہے۔ حضرتِ بی بی زہرا ؓکی شخصیت کا ایک اور اہم وصف ، اور وہ ہے تسبیحِ حضرتِ بی بی سیّدہ فاطمہ زہرؓا ؓ۔34بار’’اللّٰہُ اکبر‘‘،33بار ’’الحمدللہ‘‘ اور 33 بار’’سبحان اللہ‘‘ ۔یہ اہمیت اور افادیت کے اعتبار سے نہایت گراں قدر تسبیح ہے، جو نہ صرف ہماری مادّی بلکہ رُوحانی ضرورتوں کو بھی پورا کرتی ہے۔ہر نماز کے بعد اِس کو پڑھنے کی فضیلتیں بڑی تعداد میں بیان ہوئی ہیں۔ معروف بزرگ عالمِ باعمل علّامہ سیّد ذیشان حیدر جوادی معروف کتاب’’ نقوشِ عصمت ‘‘ صفحہ نمبر182تا184پر کیا خوب رقم طراز ہیں ۔اضافی کمالات اور ذاتی مناقب کے بعد اسلام میںصدیقہ ٔطاہرہ کی عطا کا جائزہ لیا جائے تو اس کی بھی دو قسمیں ہیں۔
صدیقۂ طا ہرہ نے ملت ِ اسلامیہ کو درسِ تسبیح بھی دیا ہے اور اسلام کو محافظ بھی فراہم کیے ہیں۔ درسِ تسبیح کے اعتبار سے آپ کی تسبیح آج بھی ہر نماز کی تکمیل اور ہر عبادت کی جان ہے۔ معنوی اعتبار سے یہ تکبیر،تحمید اور تسبیح سے مرکّب ہے اور ظاہری اعتبار سے ابتدا میں یہ تسبیح دھاگوں کی گرہوں سے بنائی گئی۔ اس کے بعدجب جناب حمزہ ؓ کی شہادت واقع ہوئی تو معصومۂ عالمؓ نے اُن کی خاکِ قبر سے تسبیح کے دانے تیار کیے اور اسی طرزِ عمل کے اتّباع میں امام سجادؓ نے خاکِ قبرِ سیّد الشہداؓء سے تسبیح کے دانے تیار کیے جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے اور اس کے بارے میں یہ روایت بھی ہے کہ خاکِ شفا خود بھی پروردگارِ عالم کی تسبیح کرتی رہتی ہے چاہے کوئی تسبیح پڑھنے والا اِن دانوں پر ذکرِ خدا نہ بھی کرے اور یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے، اگر سورۂ جمعہ کے مطابق کائنات کا ذرّہ ذرّہ پروردگارِ عالم کی تسبیح کر رہا ہے تو جن ذرّات میں خونِ معصوم جذب ہو گیا ہو، اُن کے تسبیح پروردگار کرنے میں کیا تعجب ہے۔تسبیح کے بارے میں یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ دانے ذکرِ خدا کا ذریعہ ہوتے ہیں، ذکر وہی ہے جو انسان کی زبان پر ہوتا ہے۔ اِس بنا پر پلاسٹک کے دانوں کو ذریعہ بنا کر صلوات بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ دانے صرف عد د شمار کرنے کا ذریعہ ہیں، بلکہ خاکِ شِفا کے دانے خود بھی ظالموں پر اُسی طرح لعنت کرتے ہیں جس طرح ذکرِ پروردگار کرتے رہتے ہیں۔اسلام کو محافظ فراہم کرنے میں صدیقۂ طاہرہ کی خصوصیت یہ ہے کہ انھیںمالکِ کائنات نے مصداقِ کوثر قرار دیا ہے اور ایک وحدت میں بے پناہ کثرت کو سمودیا ہے۔صدیقۂ طا ہراؓ دخترِ پیغمبرؐ ہیں جونسلِ پیغمبرؐ کی بقاکا ذریعہ ہیں ،جب کہ دنیا میں ہر انسان کی نسل بیٹے کے ذریعہ قائم ہوتی ہے۔اللہ نے پیغمبراسلام ؓکی نسل کوبیٹی کے ذریعے قرار دیا ہے اور پھر اُس میں اِس قدر برکت دے دی ہے کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق آج دنیا میں تقریباً35یا 40ملین سادات پائے جاتے ہیں۔
جن میں تقریباً20لاکھ عراق میں، 30لاکھ ایران میں، 50لاکھ مصر میں ، 50لاکھ مغرب میں، پھر لاکھوں کی تعداد میں الجزائر، تیونس، اُردن، شام، لبنان، سوڈان، خلیج اور سعودی عرب میں۔پھر تقریباً 2کروڑ یمن، ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش ،افغانستان،انڈونیشیا وغیرہ میں، جیسا کہ’’فاطمہ الزھراؓ، مِن المھد اِلی اللھد‘‘کے مُصنّف نے تحریر فرمایا ہے۔(واضح رہے کہ یہ اعداد و شمار اب سے تقریباً 28سال پُرانے ہیں)۔
مذکورہ بالا بیانات سے صدیقہ ٔطا ہرہ ؓکی خصوصیات اور امتیازات کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے اور یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ صدیقۂ طا ہرہؓ کے جن کمالات میں دوسرے افراد شریک ہیں،اُن میں بھی صدیقۂ طاہر ہؓ کو ایک امتیاز حاصل ہے۔مثال کے طور پر اگر نسبی اعتبار سے بعض خواتین معصوم کی بیٹی یا زوجہ یا ماں ہیں تو صدیقۂ طا ہرہؓ ہر اعتبار سے عصمتی رشتے کی مالک ہیں اور ان کے دو فرزند امام ہیں۔اگر طہارت کے اعتبار سے مریم بتول ہیں تو صدیقۂ طا ہرہؓ زوجۂ شیرِ خدا ہونے کے باوجود اور اپنے فرزندوں کی مادّی وِلادت کے باجود بتول ہیں۔اگربعض خواتین کو ملائکہ سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل ہوا ہے تو صدیقۂ طا ہرا ؓنے ایک پورا مصحف بطور وراثت چھوڑا ہے جو دو چار کلمات کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ اوّلین و آخرین کے حالات و کوائف کا مجموعہ ہے۔اگر صداقت کے اعتبارسے مادرِ جناب عیسیٰ ؑصدیقہ ہیں تو جناب فاطمہ ز ہرؓا صدیقۂ کبریٰ ہیں کہ مریم ؑ اپنی عصمت میں عیسیٰ ؑ کی گواہی کی محتاج تھیں اور صدیقہ ٔطاہر ہؓ نے مباہلے میں رسول اکرم ؐ کی صداقت کی گواہی دی ہے۔ اگر شجاعت کے اعتبار سے رسول اکرمؐ اور حضرت علیؓ نے مرد ہو کر ہمّت و شجاعت کا مظاہرہ کیا ہے تو صدیقۂ طاہرہؓ نے صنفِ نازک سے تعلق رکھنے کے بعد بھی اُسی ہمت و شجاعت کا مظاہرہ کیا ہے۔ادبی شجاعت میں اگر مولائے کائنات نے مجمعِ مسلمین میں خطبے دِیے ہیں تو صدیقۂ طاہرہ ؓنے دُشمنوں کے اجتماع میں خطبہ پڑھاہے اور وہاں خطبہ پڑھا ہے جہاں مولائے کائنات بیت الشرف میں تھے اور صدیقہ طاہرہؓ سرِ دربار خطاب کررہی تھیںاور باطل کو مکمل طور پر بے نقاب کر رہی تھیں۔ صدیقۂ طاہرہؓ کے شرف کے لیے اِتنا ہی کافی ہے کہ مباہلے میں رسالت کوضرورت پڑی تو اُس کی گواہی دی اور خلافت میں امامت کو ضرورت پڑی تو اُس کی وکالت کا فرض انجام دیا۔