اداروں کی زبوں حالی اور ناگفتہ بہ حالات کے ذمہ دار ی کا تعین کرتے ہوئے بلاشبہ حکمرانوں کو جوابدہ ہونا پڑتا ہے۔ عمومی حالات میں کسی بھی ادارے کی کارکردگی طے شدہ پلاننگ کے مطابق جاری رہتی ہے۔ اس میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوتی۔ محض معمولی سی توجہ کے ساتھ ایک بچہ بھی متعلقہ امور کو بڑی ہوشیاری کے ساتھ چلا سکتا ہے مگر جب اسی ادارے یا منصوبہ میں کوئی رکاوٹ آئے یا کوئی مسئلہ پیدا ہو تو پھر اس ادارے کے سربراہ کا امتحان شروع ہوتا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستان کے تمام اداروں میں یہ کھیل بارہا کھیلا گیا مگر کسی کو ہوش نہیں آیا۔ تیل کا بحران ہو یا ریلوے کا، بجلی کا بحران ہو یا آٹے چینی کی قلت کا، ہر مسئلہ میں دوسروں پر جرم کا بوجھ ڈال کر ذمہ داری سے اجتناب کیا جانا وطیرہ بن گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز کے تمام ادارے محض آفیشلی کاروائی کرتے ہوئے عوام الناس کو مسلسل مایوس کر رہے ہیں۔ رحیم یار خان کے قریب ریلوے ٹریک پر مال گاڑی کا الٹنا، ٹریک کا خراب ہونا اور ہزاروں مسافروں کا خوار ہونا معمول بن گیا ہے۔ ریلوے کے اعلیٰ حکام اسے محض حادثہ قرار دیکر اپنے آپ کو معصوم قرار دے رہے ہیں۔ مگر کیا وہ اپنی ذمہ داریوں سے مبرا قرار دیئے جا سکتے ہیں؟ میرے خیال میں ہرگز نہیں! بلکہ وہ ریلوے کی اس معمولی سے حادثہ میں برابر کے قصور وار ہیں۔
پاکستان میں اداروں کے سربراہان کا تقرر کرتے وقت حکمران اپنے صوابدیدی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اپنے حاشیہ برداروں کو مختلف اداروں کا سربراہ بنا دیتے ہیں جو اپنے اختیارات کے مطابق اداروں میں سے خوشامدی ٹولہ کو اپنے گرد جمع کرکے تمام تر اختیارات کو اپنا محور بنا لیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو یہ خوشامدی ٹولہ مکمل طور پر ناکام ہو جاتا ہے۔ رحیم یار خان کے پاس مال گاڑی کی بوگیوں کا الٹ جانا محض ایک حادثہ نہیں بلکہ اپنی ذمہ داریوں سے اجتناب کا ایک معمول کا واقعہ کہا جا سکتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں وزراء کی تقرری کا فیصلہ کرتے وقت ان کی متعلقہ وزارت میں پیشہ ورانہ اہلیت کا تعین بھی کیا جا تا ہے۔ مگر پاکستان جیسے ملک میں وزارتوں کی تقسیم صرف اور صرف اپنے حواریوں کو اہمیت دینے سے زیادہ نہیں ہوتی تا کہ انکے حواری اپنی گاڑی پر بڑے تفاخر کے ساتھ جھنڈا لگائے ہوٹر بجاتی پولیس اور دیگر گاڑیوں کے سنگم میں اپنے حلقہ کی عوام کو اپنے بلند مرتبے کا احساس دلا سکیں۔ ریلوے کے موجودہ وزیر سعد رفیق بھلے آدمی کہلائے جانے کے باوجود اور بہتر کارکردگی رکھنے کے باوجود کی پیشہ ورانہ اہلیت اور صلاحیت سے عاری نظر آتے ہیں۔
رحیم یار خان سیکشن میں ریلوے کی بوگیاں پہلے بھی الٹ چکی ہیں۔ ن لیگی حکومت کا ٹارگٹ تھا کہ لاہور کراچی ٹریک کو سپیڈی بناتے ہوئے امسال دسمبر تک 110 کلومیٹر کے بجائے 160کلومیٹر فی گھنٹہ کر دیا جائے۔ٹریک کی اپ گریڈیشن کرتے وقت ریلوے کے پیشہ ورانہ صلاحیت رکھنے والے حکام کے مشوروں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے محض اپنی کارکردگی کا ڈھنڈورا پیٹے سے نیک نامی نہیں ملتی۔ ریلوے ٹریک پر حادثہ کی وجوہات کا تعین کرتے ہوئے تین باتیں بہت اہم ہیں اسکے ساتھ ہی حادثہ کی وجہ سے مسافروں کو غیر ضروری مسائل سے نجات کیلئے بھی چند باتوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے لیکن سابقہ حادثات اور موجودہ حادثہ کی بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ ریلوے حکام اور وزیر معمول کا بیان دینے اور تحقیقات کا حکم دینے کے علاوہ کچھ نہ کرینگے۔ حادثہ کی تین وجوہات میں ایک تو ایڈمنسٹریشن کی کوتاہی ہے، جو سانگی اسٹیشن پر دو ٹرینوں کے ٹکراؤ کا موجب بنی، دوسری وجہ ریلوے ٹریک کی خرابی قرار دی جا سکتی ہے اور تیسری وجہ ریلوے انجن کی پراپر چیکنگ نہ ہونا اور بوگیوں کا آؤٹ آف ڈیٹ ہونا ہو سکتا ہے۔ ریلوے ٹریک کی خرابی دور کرنے کے براہ راست ریلوے کے حکام ذمہ دار ہیں جو یہ جاننے کے باوجود کہ کس کس سیکشن پر ٹریک بہتر حالت میں نہ ہے اور وہ اس حصہ پر توجہ نہ دیتے ہوئے اپنی بھاری تنخواہیں، مشاہرے اور الاؤنسز کھرے کر رہے ہیں۔ حالانکہ ریل کے سفر میں ایک عام مسافر سے بھی جواب مانگا جائے کہ سفر کرتے وقت اس بات کا اندازہ لگائیں کہ کونسا ٹریک سفر کیلئے تکلیف دہ ہے تو وہ باسانی اس کا جواب دے سکتا ہے تو ریلوے کے فنی ماہرین کس طرح اس بات سے نابلد ہوں گے۔ اور اگر پھر بھی وہ ٹریک ٹھیک نہ کئے جا سکیں اور وہاں حادثہ ہو جائے تو اس سیکشن سے متعلق تمام ذمہ داروں سے تمام تقصان وصول کرنا چاہیے۔ دوسرے نمبر پر گاڑی کے انجن کا خراب ہونا یا بوگیوں کی پراپر مینٹی ننس کا نہ ہونا ہے۔ ریلوے انجن کی نگہداشت کیلئے ریلوے ورکشاپ میں انجینئر اور ٹیکنیشن مسلسل کام کرتے ہیں۔ اسکی تیل کی بدلی بھی مقررہ وقت پر کی جاتی ہے۔ سابقہ دور میں بلور وزارت کے دوران انجنوں کی تیل بدلی نہ ہونے کے سبب کروڑوں روپے ہضم کر لئے گئے، اربوں کا نقصان پاکستانی قوم کے کھاتے میں پڑ گیا لیکن ذمہ داروں سے کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ بزنس کلاس کی چند بوگیوں کے علاوہ لوئر اے سی اور دیگر تمام بوگیوں کا برا حال ہے۔ انکے سسپنشن، شاک ابزاربر کی حالت اتنی تکلیف دہ ہے کہ اچھے بھلے صحت مند افراد کو بھی ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ کراچی لاہور کے درمیان ہزار میل کا سفر کرنے کے بعد دو دن آرام کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ایسی کارکردگی رکھنے والی بوگیوں کو محض شاک ابزاربر کی مرمت کرکے بہترین کارکردگی کا حامل بنایا جا سکتا ہے۔ مگر کرے کون!
ریلوے حادثہ کے بعدایک ہفتہ تک پڑنے والے حالات میں ہزاروں مسافروں کا خوار ہونا معمول بن گیا ہے۔اندازاً 50ہزارسے زائد مسافر خوار ہوتے ہیں۔ ان مسائل سے بخوبی نبٹا جا سکتا ہے۔ اس کیلئے موثر پبلک ایڈمنسٹریشن کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر ایڈمنسٹریشن کے اس اہم ترین شعبہ میں کلرک ٹائپ لیموں نچوڑوں کو اعلیٰ عہدے دیکر ایک لاکھ سے زائد مسافروں کو خوار کیا جاتا ہے۔ اس کی ایک معمولی سے مثال یوں دی جا سکتی ہے جو رحیم یار خان کے نزدیک ریلوے ٹریک پر مال گاڑی کی چند بوگیوں کے الٹنے کے بعد کراچی لاہور کے سفر میں پیش آئی۔ کراچی اسٹیشن پر پہنچے تو پتہ چلا کہ گاڑی نصف گھنٹہ بعد چلے گی۔ گاڑی آئی، اس پر سوار ہوئے تو بڑی سبک رفتاری سے چلی۔ حیدرآباد کے بعد عشاء کی نماز پڑھی اور سونے کا قصد کیا۔ اس دوران نوابشاہ گزر گیا۔ ہم کیا سوئے ہماری تقدیر بھی سو گئی۔ گاڑی کہاں کہاں کھڑی ہوئی۔ کوئی پتہ نہیں۔ صبح آنکھ کھلی ، خیال تھا کہ ساہیوال گزر چکا ہوگا۔ پتہ چلا کہ روہڑی اسٹیشن پر کھڑے ہیں۔ پھر کیا تھا ہر چھوٹے بڑے اسٹیشن پر نصف گھنٹہ کھڑے ہونا معمول بن گیا۔ اگر یہی پوزیشن کسی ترقی یافتہ ملک میں ہوتی تو پبلک ایڈمنسٹریشن کے ماہر حکام ایسی پلاننگ کرتے کہ کراچی اسٹیشن سے گاڑی مقررہ وقت کے بعد ایک مخصوص وقت میں چلانے کا فیصلہ ہوتا تا کہ مسافروں کو کسی خواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ گاڑی سفر کے دوران مزید اٹھارہ گھنٹے تاخیر کا سبب بن گئی۔ اس دوران ریلوے کا کتنا فیول زائد لگا، اس کا حساب ریلوے والوں کو ہوگا جو یقینا عوام کے ٹیکسوں سے وصول کیا جائیگا۔ اگر یہی فیول پبلک ایڈمنسٹریشن کے منیجرز کے کھاتے میں پڑ جائے تو آئندہ گوئی گاڑی لیٹ ہوگی اور نہ کوئی حادثہ۔!
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38