قرآن ِمجید فرقان ِحمید نے بلاوجہ جنگ وجدل کی ممانعت کی ہے اور صرف اپنے دفاع میں جنگ کی اجازت دی ہے اور اِس بات پر زور دیا گیا ہے کہ دین ِاسلام کی حقیقی روح‘امن‘ صلح وبھائی چارے‘برداشت‘صبراورمعاف کردینے میں مضمر ہے ثقہ مغربی عالم و فاضل دانشوروں کی آراء ہے کہ ’’قرآن ِکریم کوپڑھے بغیراسلام کی روح تک رسائی حاصل نہیں کی جاسکتی‘‘اوراِس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی ذرا بھی گنجائش نہیں'یہ کہنے اور یہ ماننے میں کسی کوئی کوعارنہیں ہونا چاہیئے کہ2001 کے بعد سے پاکستان پرلادی جانے والی بیرونی دہشت گردی نے پاکستانی عوام کولاکھوں اربوں روپے کی مالیت کا جہاں نقصان پہنچایا ایک محتاط اندازے کے مطابق وہاں 80-70 ہزارکے لگ بھگ پاکستانی عوام سمیت ملکی افواج'دیگر حساس سیکورٹی اداروں سمیت پولیس'لیویز اور رینجرزکے افسراورجوان اپنی قیمتی جانوں سے گئے شہید ہوئے جبکہ اپنے جسموں کے اعضا سے محروم زخمی کی تعداد کا ابھی تک صحیح پتہ نہیں چل سکا پاکستان اِس وقت دنیا کی سفاک ترین دہشت گردی کے خلاف حالت ِجنگ میں ہے کوئی بھی محب ِوطن پاکستانی اِس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ دہشت گردی کی جڑوں کو اْس وقت تک اْس کی جڑوں سمیت اکھاڑا نہیں جاسکتا، جب تک ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک فکری اور ذہنی انتہا پسندی کا مکمل سدباب نہیں ہوجا وقتاً فوقتاً ملک کے درد مند باشعور طبقات جب کہیں باہم مل بیٹھتے ہیں تو وہ یہی گفتگو کرتے پائے جاتے ہیں کہ ملکی افواج اور دیگر ملٹری اور سویلین ادارے اپنی اپنی سطحوں پر اِس نکتہ پر ہمیشہ متفق پائے گئے کہ پاکستان کی ترقی وخوشحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ دہشت گردی ہی ہے، نہ صرف دہشت گردی بلکہ انتہا پسندانہ سوچ کی بیخ کنی بہت ضروری ہے اِسی اہم موضوع پر 16 جنوری2018 کو وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں 'پیغام ِپاکستان'کے زیراہتمام ایک بڑی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا کانفرنس میں صدر ِپاکستان ممنون حسین بطورمہمان ِخصوصی تشریف لائے'کانفرنس کاموضوع بہت اہم اورملکی اندرونی امن وامان کی مناسبت سے پاکستان کے بائیس کروڑعوام کی دلوں کی ترجمانی کاعکاس تھا کہ 'ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کا کیسے اورکیونکرقومی اتحادواتفاق کی طاقت وقوت سے مقابلہ کیا جائے'اِس موقع پرملک بھر کے1800 ممتاز جید علماء ورمعززومحترم مفتی صاحبان نے نہ صرف شرکت کی بلکہ اْنہوں نے قرآن ِپاک کی تعلیمات کی روشنی میں دہشت گردی کی بھرپورمذمت کی اورکانفرنس کے دوسرے روز سبھی محترم علمائے ِدین نے دہشت گردی کی لعنت کے خلاف متفقہ فتویٰ جاری کیا اور فتویٰ پراپنے دستخط ثبت کیئے‘ِاس مشترکہ فتویٰ کی رْو سے علماء اور مفتی صاحبان کا ماننا تھا کہ'جو لوگ خود کش حملے کرتے ہیں خود کش حملوں کا حکم دیتے ہیں خود کش حملوں کے لئے نوعمر کچے ذہن کے افراد کے ذہنوں کو یرغمال بناکر اْنہیں جھوٹے فریب زدہ خواب دکھلاتے ہیں وہ نہ صرف دین ِاسلام سے خارج ہیں' بلکہ اسلامی ریاست کے بھی وہ لوگ باغی ہیں اورایسے سرکش باغیوں کے خلاف اسلامی ریاست کو ہرممکنہ سخت سے سخت اقدامات اْٹھانے کا برابرحق حاصل ہے'اِس موقع پر صدر ِپاکستان نے اپنے کلیدی خطاب میں کانفرنس کے شرکاء کوبتایا کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق انتہا پسندی'خوں ریزی اوراجتماعی اور انفرادی قتل وغارت گری اورخودکش حملے میں زمین پربرائی اورشر پھیلانے کی مکروہ ترین اقدامات کی فہرست میں یہی گھناونے اعمال سرفہرست کل بھی تھے آج بھی ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے جی ہاں مطلب یہ کہ اْن کا یہ کہنا تھا کہ' دہشت گردی کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے'اِسی حوالے سے کانفرنس میں مدعو مقررین نے اِس بات پر زور دیا کہ حکومت نے انتہا پسندی اورفرقہ پرستی کی طرف سے پیش کردہ چیلنجوں کو حل کرنے کے لئے اے پی ایس پشاور کے سانحہ کے بعد جس 22 نکاتی 'نیشنل ایکشن پلان کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظوری دی تھی کاش! ہماری وفاقی اور صوبائی انتظامیہ اِس جانب دردمندی اور فکری مندی کے انسانی جذبات واحساسات سے اپنی توجہ مرکوز کرتی تو اِس کے نتائج ملکی معاشرے کے طبقات پر خوش گوار اثرات ضرور ڈالتے مگر افسوس ’ نیشنل ایکشن پلان‘ نجانے آج کہاں گیا؟جس کے نتیجے میں ہماری مکمل سوسائٹی فرقہ واریت اور انتہا پسندی کی زد میں گھرتی چلی گئی ‘مذکورہ بالا 'پیغام ِپاکستان'کے زیر اہتمام منعقدہ اِس کانفرنس میں مختلف شعبہ ِہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے 1800 سے زائد مذہبی علماء فقہا اور مفتی صاحبان کی شرکت سے ہمیں اِس اعتبار سے بڑا سکون اور اطمنان حاصل ہوا ہے کہ ہمارے علماء اپنے منصب کی ذمہ داریوں کی حساسیت کو سمجھنے لگے ہیں یقینا وہ پاکستانی معاشرے کا قومی المیہ بخوبی سمجھتے ہیں اوراْنہیں ادراک ہے کہ اگردہشت گردی اورانتہا پسندی کے خلاف کوئی مشترکہ لا ئحہ ِعمل نہیں اپنایا گیا تو انتہا پسندی کا یہ عفریت ہمارے قومی وملی ڈھانچہ کوتباہ وبرباد کردے گا لہذاء 'پیغام ِپاکستان کانفرنس' کی طرف سے مہیا ہونے والی اِس سہولت کو ہمارے جید علماء نے ایک سنہری موقع غنیمت جانا اور اْنہوں نے صدرِپا کستان'دیگر وفاقی وزراء اور کانفرنس میں شریک دانشوروں‘ تجزیہ نگاروں اور صحافیوں کے تشویش ناک خدشات کی روشنی میں کانفرنس کے دوسرے سیشن میں ایک متفقہ فتویٰ جاری کیا اِسی فتویٰ کا ایک اہم پہلو جیسا کہ اُوپر بیان کیا جاچکا ہے اپنے اِس اہم فتویٰ میں علمائے ِپاکستان اور مفتویان ِپاکستان نے تسلیم کیا جہاں اب پوری قوم کو باہم اکھٹا ہونا ہوگا ،وہاں بحیثیت ِپاکستانی یہ بھی ماننا پڑے گا کہ 'انتہا پسندانہ رویہ ایک ذہنی بیماری کی کیفیت کا نام ہے'اور واقعی دہشت گردی اور انتہا پسندی فالج زدہ ایک ایسا کینسر ہے جس کا کوئی علاج نہیں'ہمیں فرقہ واریت کی انتہا پسندی سے باہر نکلنا ہی پڑے گا فرقہ پرستی کی جنونیت نے امت ِمسلمہ کی وحدت کو جو نقصان پہنچایا ہے اْس کی تلافی کے لئے اب ہمیں بلکہ پاکستان کی قومی سلامتی کے تحفظ کے لئے اب ہمیں اگر مشکل اور ناگوار فیصلے کرنے بھی پڑیں تو پاکستانی قوم کو اْن سے گریز نہیں کرنا چاہیئے وقت آگیا ہے کہ انتہا پسندی اور سفاک دہشت گردی کے سدباب کے لئے اب ایک مستقل سسٹم بنایا ہی ہوگااور بحیثیت ِ قوم ہر ایک پاکستانی کو اپنے میں برداشت‘ صبر‘ ایک دوسرے کو تسلیم کرنے اور ایک دوسرے کو معاف کردینے کی اعلیٰ وارفع صفات پیدا کرنے کی جانب توجہ دینی ہوگی۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024