یہ غالباً 2013ء کی بات ہے جب ایف بی آر میں ممبر ایڈمن کی پوسٹ پر ایک ایسا شخص تعینات ہوتا ہے جس سے محکمے کی ایک واضع اکثیریت صرف اس لئے ناخوش نظر آتی ہے کہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں اپنے ہم منصب بڑے بڑے بیوروکریٹس ، ایم این ایز ، مشیر وزیر، امیر کبیر کسی کی سفارش کو اہمیت دینے کی بجائے صرف اور صرف میرٹ کو ترجیح دیتا ہے۔ وہ شخص جسکا نام شاہد ایچ جتوئی ہے تقریباً عرصہ دو ڈھائی سال اس عہدے پر فائز رہا۔ اس شخص سے میری کوئی براہ راست اشنائی نہیں رہی لیکن اسی دور کی بیوروکریسی کی ایک نہایت ہی قدآور شخصیت مرحوم محمود سلیم محمود اور اپنے بڑے بھائی منیر احمد خان اور انکے دوست طاہر جو لندن میں مقیم ہیں انکی زبانی اس شخص کے بارے بہت کچھ سن رکھا ہے۔ ایف بی آر کا ریکارڈ بتاتا ہے اپنی تعیناتی کے دوران اس شخص نے جس تعداد میں اور جس سطح پر جس تیزی کے ساتھ محکمے میں انضباطی کاروائیوں کو انکے انجام تک پہنچایا ایسی صورتحال اگر دوسرے محکموں میں بھی پیدا ہو جائے اور اسکا تسلسل اس محکمے میں بھی برقرار رہے تو پھر کوئی بعید نہیں کہ شائد نیب جیسے محکمے کی اس ملک میں ضرورت ہی نہ رہے۔ سوشل میڈیا پر اج اس شخص کی طرف سے لگائی گئی ایک پوسٹ نظر سے گزری جو میں یہاں لفظ بہ لفظ منقول کرنا چاہونگا جو کچھ اسطرح ہے۔ "برصغیرپاک و ہند یعنی موجودجہ پاکستان بھارت اور بنگلہ دیش پر برطانیہ کے زمانہ حکمرانی کے دوران ایک انگریز آفیسر کا تبادلہ کسی مہذب علاقے سے برصغیر میں ہو گیا۔ کچھ عرصہ اس غلام علاقے میں رہنے کے بعد انگریز آفیسر شدید ڈپریشن کا شکار رہنے گا۔ اس نے یہاں سے ٹرانسفر کیلئے کوششیں شروع کر دیں۔ جب ہر طرف سے ناکام ہوا تو ملکہ برطانیہ کو ایک عجیب خط لکھ دیا،’’ ملکہ عالیجاہ! مجھے کس جرم میں ایک ایسے علاقے میں ٹرانسفر کیا گیا جس علاقے کے لوگ غلط کام یا کوتاہی پر شرمندہ نہیں ہوتے۔‘‘ وضاحت لکھتے ہوئے مزید کہا: خط کے آخر میں دو ٹوک بات لکھی۔’’مجھے بلا تاخیر یہاں سے یورپ ٹرانسفر کیا جائے، یا میرا یہ خط استعفیٰ سمجھ کر منظور کیا جائے ۔‘‘جواب میں ملکہ عظمیٰ نے لکھا:’’ اگر برصغیر کے لوگ غلطی پر شرمندہ ہوتے کوتاہی پر نادم ہوتے غلطی اور کوتاہی پر ہنسنے کی بجائے اپنی اصلاح کرتے ، تو پھر ہم انگریز لوگ دس ہزار میل دور سے آکر انہیں غلام نہ بنا پاتے ان پر حکمرانی نہ کر سکتے ہم حاکم اور یہ محکوم نہ ہوتے …یہ لوگ ہمیں اپنے وطن پر قبضے کا موقع نہ دیتے۔ یہاں کے مقامی لوگوں کی اسی فطرت نے ہمیں آقا اور انہیں غلام رعایا کا منصب دیا ہے۔‘‘
جتوئی صاحب اپنی پوسٹ کے آخر میں اس سارے قصے کا نچوڑ کچھ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ "اگر غلط کام پر شرمندگی اور ندامت کا جذبہ ہو تو انسان انسانی رہتا ہے ورنہ انسان دو ٹانگوں والا انسان نما جانور رہ جاتا ہے جنگ عظیم دوئم کے بعد انگریز چلے گئے مگر یہاں کے لوگوں کی فطرت نہیں بدلی۔ چپڑاسی سے لیکر وزیر اعظم تک غلطی پر کوئی شرمندہ نہیں ہوتا۔ غلطی تو معمولی بات ہے۔ ہم تو جھوٹ ، جرم اور غداری پر بھی شرمندہ نہیں‘‘۔
دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا اس طرز عمل جو بقول ملکہ برطانیہ ہماری فطرت میں روز اوّل سے موجود ہے انگریز کے جانے کے بعد ہم اس سے چھٹکارہ پا سکے ہیں یا یہ لعنت اب بھی ہمارے معاشرے میں اسی طرح موجود ہے جیسی آزادی سے پہلے تھی۔ اس حقیقت کی کھوج لگانے کیلئے 1947ء سے تاریخ کے بند کواڑ کھولتے ہیں تو قیام پاکستان کے پہلے ہی دن قتل و غارت گری اور لوٹ مار کے سبب دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور پھر جھوٹے کلیموں پر متروکہ وقف بورڈ کی املاک کی بندر بانٹ سے شروع ہو کر پانامہ سکینڈل تک نہ ختم ہونے والا ایک ایسا لامتناہی سلسلہ دیکھنے کو ملتا ہے جس میں انفرادی ، اجتماعی، سرکاری ، غیر سرکاری، حکومتی ، غیر حکومتی، ہر سطح پر ہر کسی نے جسکا جتنا بس چلا ہے اپنا کردار ادا کرتے پنجابی کے اس مشہور محاورے کو سچ ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی کہ "چْور اْچکا چوہدری لْنڈی رَن پردھان" یقین جانئیے جعلسازی چوری ملاوٹ رشوت فراڈ دلالی نوسربازی کون کونسی دونمبری ہے جو ہمارے معاشرے میں پروان نہیں چڑھی جسکو اپ اگر قلمبند کرنا چاہیئں تو اسکے لیئے ایک کالم نہیں ایک باب نہیں کئی کتابوں کے صفحات بھی کم پڑ جائینگے لیکن اس پر ہمارا کمال دیکھیں کہ اوّل تو ہماری تاریخ میں کوئی ایسی مثال ملتی نہیں جہاں یہ کہا جا سکے کہ ان برائیوں کی روک تھام کیلیئے کسی بھی سطح پر چاہے وہ سماجی تھی یا سرکاری کوئی مثبت قدم اٹھائے گئے ہوں اور اگر بادلِ نخواستہ ان اعمال پر اگر کسی فرد یا ادارے کی طرف سے کبھی کوئی قدم اٹھایا بھی گیا ہے اور انکے خلاف کوئی فیصلہ آ گیا ہے تو ہم نے اسے تسلیم کر کے اپنے فعل پر شرمندگی محسوس کرنے اور اسکی اصلاح کرنے کی بجائے اْلٹا عوامی فورموں پر ایسا تماشہ لگایا ہے اور ایسے ایسے سوال پوچھے ہیں کہ ہر ذی شعور یا ذی عقل یہ سوچنے پر ضرور مجبور ہوا ہے کہ انکی اس حماقت پر ہنسا جائے یا ماتم کیا جائے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ لیکن اسکے ساتھ ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گی کہ ان دنوں ہمارے ہاں انکے یہ بیانیئے عوام میں مقبول بھی بہت ہو رہے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے آخر ایسا کیوں۔ شائد اسلیئے کہ ہمارے ہاں غلطی ماننے اور شرمندگی محسوس کرنے کی روایت سرے سے ہے ہی نہیں یا پھر اسلیئے کہ اس سلسلے میں محتسب اداروں کا اپنا ٹریک ریکارڈ بھی کوئی قابل ستائش نہیں کیونکہ یہ وہی ادارے ہیں جو ایک نہیں دو نہیں تین تین مارشل لاز کو جائز قرار دینے اور بھٹو کے عدالتی قتل جیسے غیر منصفانہ ہی نہیں ظالمانہ فیصلوں کا داغ اپنے ماتھے پر سجائے بیٹھے ہیں۔ قارئین دونوں باتوں میں سے کونسی بات اپکے دل کو لگتی ہے یہ فیصلہ میں اپ پر چھوڑتا ہوں لیکن ایک بات ضرور کہونگا کہ اجکل لیڈران کی طرف سے عوامی جلسوں میں جس قسم کی زبان اور جو لن ترانیاں بکھیری جا رہی ہیں اسے دیکھ کر یقین جانئیے راقم کو جتوئی صاحب کی اس فکر انگیز تحریر کا ایک ایک لفظ سچ پر مبنی حقیقت لگتا ہے کہ وہ احساس جیسے مہذب معاشرے شرم کا نام دیتے ہیں اسکا رتی بھر شائبہ بھی ہمارے خمیر میں موجود نظر نہیں آتا اور شائد یہی اخلاقی انحطاط ہمارا اجکا سب سے بڑا قومی المیہ ہے کہ شرم مگر ہم کو نہیں آتی ۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38