سینٹ کے انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو معروف کمیونسٹ راہنما مشتاق راج کا ایک واقعہ یاد آگیا۔ مشتاق راج کا تعلق گوجرانوالہ سے تھا،لاہور تو وہ بعد میں گئے اور وہاں کے قانونی اور سیاسی حلقوں میں بڑا نام کمایا ۔ ان کا تعلق نیشنل عوامی پارٹی سے تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے پورے دور حکومت میں وہ اس کے سخت مخالفین میں سے تھے۔ جب نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کرکے ذوالفقار علی بھٹو نے خان عبدالولی خاں اور حبیب جالب وغیرہ کو حیدر آباد کی ناڑہ جیل کے قصائی خانے میں پابند سلاسل کیا تو وہ اس کیس میں ولی خاں کے وکیل بھی تھے انہی دنوں مشتاق راج نے ’’زندہ ولی سے ملاقات‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی۔ جس میں آئینی و قانونی طور پر ولی خاں کا دفاع کیا گیا تھا۔ جب یہ کتاب چھپ کر مارکیٹ میں آئی تو سب سے پہلے ہم نے اسے لاء کالج کے ساتھ منصور بک ڈپو سے ذرا آگے ،انار کلی کی نکر پر ایک اخبار فروش کے ہاںدیکھا۔ آج کل کے سیاسی کارکنوں کو یقیناً اس بات کا اندازہ نہیں کہ بھٹو کے دور میں اس کے خلاف کتاب لکھنا اور بیچنا کتنا بڑا جرم تھا۔ اسی لئے یہ کتاب ایک نامعلوم سی دکان پر ایک اخبار فروش کے پھٹے پر ہی دیکھنے کو ملی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ حکومت کے ’’کار خاص‘‘ کے اہلکاروں نے انہیں کتاب لکھنے اور طبع کرانے کے جرم میں گرفتارکر لیا ہے۔ مشتاق راج سے تفتیش کی گئی کہ یہ کتاب انہوں نے کہاں سے چھپوائی ہے۔’’جی سری نگر سے‘‘ وہ ہر سوال کے جواب میں یہی کہتے اور ساتھ ہی کار خاص کو اپنی خدمت پیش کرتے کہ اگر وہ ان کے ساتھ سری نگر چلیں تو وہ پبلشر کو گرفتار کروا سکتے ہیں۔ لاہور کا بدنام زمانہ عقوبت خانہ شاہی قلعہ جس میں پیپلز پارٹی کے جیالوں کی ضیاء الحق نے جوانیاں پگھلا کر رکھ دیںکئی کئی ماہ تک ان کے پائوں سے بیڑیاں نہ اُتاری جاتیں۔ اور نت نئے تشددکے ہُنر آزمائے گئے۔ یہی شاہی قلعہ پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کے مخالفین کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ پیپلز پارٹی کے ایک راہنما نیشنل کالج آف آرٹس کے پرنسپل پروفیسر اعجاز الحسن اور ترقی پسند طلب علم راہنما ڈاکٹر معصوم عابدی سمیت پچاس کے لگ بھگ لوگوں کو شاہی قلعے میں نظر بند رکھا گیا۔ مشتاق راج کی تفتیش پتہ نہیں کہاں کی گئی۔ بہر حال ایک افواہ ضرور سرگرم رہی کہ انہیں بھی شاہی قلعہ کے بلا خانے میں رکھا گیا ہے۔ وقت گزرتا رہا یہاں تک کہ 5 جولائی 1977ء کا دن آگیا اور ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہی جو سب سے پہلے کام کئے ان میں سے ایک خان عبدالولی خاں اور انکے ساتھیوں کی جیل سے رہائی بھی شامل تھی اور یوں اس طرح مشتاق راج کے سر سے یہ بلا ٹل گئی ۔ اس کے بعد انہوں نے ضیاالحق کے زمانے میں بھی’’آفاقی اشتمالیت‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ اس کتاب کی اشاعت کے خلاف ہائی کورٹ بار کے ’’ضیائی وکلائ‘‘ نے بڑا ردعمل دکھایا اور ان کی بارکی رکنیت ختم کرنے کی تحریک چلا دی۔ جماعت اسلامی کے وکلاء اور اسلامی جمعیت طلباء کے ’’کن ٹٹوں‘‘ کو ان کے پیچھے لگا دیا گیا جو ہمہ وقت ان کی کردار کشی کرتے اور انہیں گالیاں تک دینے سے باز نہ آتے تھے۔ ہر قسم کی مراعات سے انہیں اتنا نواز دیا گیا کہ نہ زبان حق گو رہی اور نہ ہی آنکھ اچھائی برائی میں تمیز کر سکی۔ پھر ایک دن ڈکٹیٹر ضیاالحق ان سے کسی بات پر ناراض ہوگیا اور تعلیمی اداروں میں طلباء یونین پر پابندی عائد کر کے جماعت کی کمرتوڑ ڈالی۔ اس کے ساتھ ساتھ PIA میں جماعت اسلامی کی تنظیم ’’پیاسی‘‘ کو بھی ضیاالحق پیاسا کوا بن کر پی گیا۔ ادھر کراچی میں ’’مہاجر قومی موومنٹ‘‘ کے نام سے لسانی بنیاد پر ایک دہشت گرد جماعت بنا کر جماعت اسلامی کو مکمل طور پر سیاست کی کتاب سے خارج کر دیا۔ بارے ذکر ہو جائے اس دلچسپ واقعہ کا جس کا ذکر میں نے ابتداء میں کیا تھا۔ مشتاق راج ایوب خاں کے زمانے میں شہر کے ایک محلہ اسلام آباد سے بی ڈی ممبر منتخب ہوئے۔کچھ ہی عرصہ بعد ایوب خاں اور مادر ملت کے درمیان صدارتی انتخابات کا معرکہ شروع ہوگیا۔ جس میں صرف بی ڈی ممبر ہی صدر کو ووٹ دے سکتے تھے۔ بی ڈی ممبر بننے کیلئے اکثریت نے اعلان کیا کہ وہ منتخب ہونے کے بعد اپنا ووٹ مادر ملت کو دیںگے۔ مگر جونہی منتخب ہوئے ہر جگہ مقامی انتظامیہ نے انہیں اپنے قابو میں کر لیا، سب سے پہلے تو سیاسی رشوت کے طور پر تمام بی ڈی ممبران کو پستول کے لائسنس جاری کئے گئے۔اس بات پر چلتے چلتے ایک اور واقعہ یاد آگیا۔ ہمارے محلے سے ایک خوانچہ فروش برادری ازم کی بنیاد پر ممبر منتخب ہوگیا۔ ایک روز میں سکول سے واپس آرہا تھا کہ دیکھا کہ وہی ممبرصاحب خوانچہ لگائے امرود فروخت کر رہے ہیں اور پستول گلے میں لٹکائے پُرغرور نظروں سے دائیں بائیں گاہکوں کو بھی متوجہ کررہے ہیں۔میں نے یہ منظر دیکھ کر ممبر صاحب جنہیں ٹھیکیدار بھی کہا جاتا تھا سے کہا کہ ٹھیکیدار جی یہ پستول کیا آپ نے امرودوں کے کیڑے مارنے کیلئے رکھا ہوا ہے ۔جس پر گھر میں ابا جی نے میری سرزنش بھی کی۔ذکر ہورہا تھا مادرملت کے صدارتی انتخابات میں بی ڈی ممبران کے ووٹر ز کا جنہیں مقامی انتظامیہ نے یرغمال بنا رکھا تھا۔سچی بات تو یہ ہے کہ وہ خود بھی یرغمال بن کرخوش تھے کہ چھوٹے موٹے مفادات پورے ہورہے ہیں۔شہر میں چوہدری حامد ناصر چٹھہ کے والد چوہدری صلاح الدین چٹھہ کی کوٹھی مادر ملت کے کارکنوں کا مرکز تھی۔ جہاں سید کاظم علی شاہ ،خلیفہ امام ابن بقاء ،چوہدری محمد اسلم ، ابا جی ، خواجہ صدیق الحسن ، ریاض اے شیخ ، خواجہ بغلول انور اور مشتاق راج سمیت مادر ملت کے دیگر دیوانے انتخابی مہم سے فارغ ہوکر اکٹھے ہوتے اور رات کو پھر گلی کوچوں میں بی ڈی ممبران کے گھروں میں جاکر مادر ملت کیلئے ووٹ مانگتے۔
جس روز انتخابات تھے اس روز یہ واقعہ پیش آیا جس کا ذکر ابتداء میں کیا ہے ہوا یوں کہ سب ووٹر قطار میں لگے ہوئے تھے کہ مشتاق راج نے ان میں سے چار عدد ممبران کو جو آپس میں قریبی عزیزتھے اور چاروں ہی پہلوان تھے انہیں ایک طرف لے جاکر کہا کہ دیکھو فیصلہ تمھارا اپنا ہے مگر چونکہ میں تمہارا دوست ہوں اس لئے تمہیں ایک خبردیتا ہوں۔ خبریہ ہے کہ رات کو میرے سامنے امریکہ کے صدر نے مادرملت کو فون پر کہا ہے کہ اب آپ کی باری ہے۔ اور آپ ہی صدر پاکستان ہونگی اگر تم نے مادرملت کو ووٹ دے دیاتو میں انہیں آگاہ کر دونگا پھر شہر میں تمہارا سکہ چلے گا۔ بھلا زمانہ تھا وہ بھولے بھالے لوگ مشتاق راج کی باتوں میں آکر مادر ملت کو ووٹ دے بیٹھے۔ جب نتیجہ آیا تو وہ مشتاق راج کے تعاقب میں اس کے گھر پہنچ گئے اور بُرا بھلا بھی کہا۔ مشتاق راج نے کہا کہ دیکھو پہلوانو ابھی تک تو مجھے پتہ ہے کہ تم نے مادرِ ملت کو ووٹ دئیے ہیں۔ کل سے گوجرانوالہ کا ڈپٹی کمشنر ان چار لوگوں کو تلاش کر رہا ہے جنہوں نے ایوب خاں کو ووٹ نہیں دئیے۔ پہلوان پریشان ہوگئے مشتاق راج سے معافی مانگی اور گھر واپس آگئے یہ واقعہ ایک خبر پڑھ کر یاد آگیا کہ فیصل آباد سے (ن )لیگ کے وہ کون سے چار ایم پی اے تھے جنہوں نے چوہدری سرور کو ووٹ دیا فرق صرف یہ ہے کہ وہ بھولے بھالے لوگ تھے اور یہ ضمیر فروش یہ چہرہ ہے ہماری پارلیمانی جمہوریت کا جس کا کردار کسی بیسوا سے کم ثابت نہیں ہوا۔ جہاں عوامی نمائندوں نے ثابت کیا کہ دولت کے عوض وہ اپنا ضمیر تو کیا خدا اور رسول کو بھی بیچ سکتے ہیں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024