بابائے لبیک… مرحوم و مغفور
حلیم طبع اور ملنسار بابو شفقت قریشی کو مرحوم لکھتے ہوئے دل بوجھل ہو جاتا ہے ان کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ راولپنڈی کینٹ کے علاقے سہام کی قریشی برداری سے تعلق رکھنے والے بابو شفقت قریشی نے اپنی زندگی کا نصف حصہ اللہ تعالیٰ کے مہانوں کی تربیت میں گذارا ۔ وہ حاجیوں میں بابائے لبیک کے نام سے مشہور تھے اس خاکسار کا پہلی مرتبہ مرحوم سے تعارف 1990میں ہوا جب میں حج ڈیوٹی کے لئے سعودی عرب جا رہا تھا ڈاکٹر ریاض الرحمن اور بابو شفقت قریشی کو بھی عازمین حج کو مناسک حج وعمرہ کی تربیت دینے کے لئے سعودی عرب بھیجا گیا ہم نے تو دوسرے سرکاری ملازمین کے ساتھ یومیہ الاونس وصول کیا لیکن بابو صاحب نے ڈیلی الاونس لینے سے انکار کر دیا۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب جناب محمد یوسف سیکرٹری مذہبی امور تھے وہ عازمین حج کو تربیت دینے والے رضاکاروں کی بہت قدرومنزلت کیا کرتے تھے۔یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ بابو شفقت قریشی دراصل سہام کی امیر ترین شخصیت تھے لیکن انہوں نے عمر بھر اپنی امارت کا کسی دوسرے پر شائبہ تک نہ ہونے دیا ۔ ساری عمر ایک پرانے سکوٹر پر ہی سفر کرکے گذار دی جب ہم نے 1991 میں مکہ مکرمہ میں تنظیم بہبود حجاج پاکستان کی بنیاد رکھی تو اس کے بعد قدم قدم پر اس ناچیز کی مرحوم نے رہنمائی کی۔ آپ کا نام تو شفقت تھا ہی لیکن آپ دوسروں کے لئے سراپا شفقت تھے۔مرحوم ہر ایک کو عزت و احترام دیا کرتے تھے۔ سعودی عرب میں دوران حج ہمیں کئی مرتبہ ان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا لیکن ان کی زبان سے کبھی کسی کا گلہ شکوہ سننے میں نہیں آیا۔عازمین حج کے بارے میں ان کی تحریروں میں کبھی سختی کا اظہار نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ حاجیوں کے معاملات کو حکومت وقت کو بڑے عاجزانہ انداز میں پیش کیا کرتے تھے۔ راولپنڈی ہو یا کوئی دوسرے شہر اللہ تعالیٰ کے گھر جانے والوں کی رہنمائی ان کا مطمع نظر ہوتا تھا۔ وزارت مذہبی امور میں حج پالیسی کی ابتدائی تیاری کے مرحلے میں بابو صاحب اور ہم اکثر اکٹھے ہی ہوا کرتے تھے اور اپنی اپنی تجاویز دیا کرتے تھے ہمارا آپس میں کبھی بھی کسی بات پر اختلاف نہیں ہوتا تھابلکہ ہمیشہ وہ میری حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ عازمین حج کی سعودی عرب روانگی کے دنوں میں اسلام آباد ائرپورٹ اور حاجی کیمپ میں صبح و شام موجود ررہتے ہوئے عازمین حج کو مناسک حج و عمرہ اور انتظامی امور کے بارے میں ان کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ مناسک حج و عمرہ بارے میں کتابچہ بھی دیا کرتے تھے۔ ان کے بعد آپ کے صاحب زدگان انجم قریشی اور بابو عمران قریشی اپنے والد کی طرح ہمہ وقت عازمین حج کی رہنمائی کے لئے کمر بستہ رہتے ہیں… بابو جی کے داماد قاضی طاہر محمود قریشی بتا رہے تھے دو امور ایسے تھے جن کی روشنی سے بابو جی کا چہرہ خوشی و اطمینان سے مرقع ہو جاتا۔ پہلی بات کا تعلق حج تربیت سے رہا وہ اٹھتے بیٹھتے اور چلتے پھرتے مقدس سفر پر جانے والوں کو رہنمائی کے گلاب دیتے رہتے۔ دوسری بات وزارت مذہبی امور کے ان اقدام سے متعلق تھی جو عمرہ و حج کے عازمین کے لئے اٹھائے جاتے ان کی خواہش بلکہ زندگی کا مشن تھا کہ سہولتوں کے سلسلے دراز ہوتے رہیں۔ راہنمائی اور سرپرستی کا ہر دروازہ کھلتا رہے یہی وہ دو امور تھے جن کے لئے بابو شفقت قریشی ہر دم بے کلی و بے چینی کے مسافر بنے رہتے۔ آج راولنپڈی کینٹ سہام میں ان کی پانچویں برسی عقیدت و احتشام سے منائی جا رہی ہے۔ دو بجے قرآن خوانی اور پھر اس کے بعد اجتماعی دعائے مغفرت کا مرحلہ آئے گا۔ اﷲ کریم اپنے محبوب رسول محتشمؐ کے صدقے اور طفیل بابو جی کے درجات بلند کرے ان کی قبر کو ٹھنڈک کا سامان پہنچائے اور ان کی اولاد کو ان کا مشن جاری و ساری رکھنے کی توفیق ‘ ہمت اور حوصلہ عطا فرمائے آمین